ہمارا تعلیمی نظام اور انتہا پسندی

ایران کے شہر ایون(Evin) میں ایک جیل ہے جسے ''ایون یونیورسٹی ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کا پس منظرکچھ یوں ہے کہ اس میں ایرانی انقلاب سے پہلے اور بعد میں سیاسی قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔ چونکہ ان قیدیو ں میں اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ رہنما ہوتے تھے، اس لیے اس قید خانے کا نام ایون یونیورسٹی پڑ گیا۔ جب ہم فلوریڈا کی سیر کے دوران ایک مشہور یونیورسٹی کے قریب کافی پینے کے لیے رکے ،وہاں ایک پاکستانی نژاد دوست نے مجھے یہ بات بتائی تو میں سوچ میں پڑ گئی کہ جیل اور تعلیمی ادارے کو ایک دوسرے سے کیا مناسبت ہوسکتی ہے؟ یہ ایک کی توہین تھی یا دوسرے کی عزت افزائی؟
عظیم فرانسیسی ناول نگار وکٹر ہوگو نے کہا تھا:''وہ شخص جو ایک سکول کھولتا ہے، وہ ایک جیل بند کر دیتا ہے‘‘۔ یقیناً وہ دانش ور ادیب ، تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہنا چاہتا تھا کہ جب معاشرے میں علم کا فروغ ہوتاہے تو انسان مہذب ہو جاتے ہیں اور جرائم میں کمی واقع ہوتی ہے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تعلیم یافتہ افراد جرائم نہیںکرتے ؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ کرتے تو ہیں لیکن ذہانت کی وجہ سے جیل جانے سے بچ جاتے ہیں۔ بہرحال ، جیل کا نام یونیورسٹی قرار دینا عجیب سا لگتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہمارے بچپن میں انگلش میڈیم تعلیمی ادارے خال خال تھے اور سرکاری تعلیمی اداروں کے دروبام پر ''مار ، نہیں پیار‘‘ لکھنے کارواج شروع نہیں ہوا تھا، ایک پرخلوص والد اپنے بیٹے کو سکول میں داخل کراتے ہوئے یہ فقرہ کہنا نہیں بھولتا تھا: ''ماسٹر صاحب! بس ہڈیا ں نہ ٹوٹیں‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ استاد صاحب ! اس لڑکے کو علم سکھانے کے لیے جتنا چاہیںمار لیں، بس ہڈیاں سلامت رہنے دیں۔ ذرا سوچیں کہ جب تعلیم کا آغاز اس ہلاکوخان طرز جیسے جملے سے ہوتو پھر کیسا علم اور کہاں کی دانش؟
گزشتہ موسمِ گرما میں، جب میں پاکستان میں تھی توایک پروفیسر صاحب نے جو پاکستان میں نظامِِ تعلیم کی زبوں حالی پر سخت رنجیدہ اور پریشان رہتے ہیں، واقعتاً کچھ تشویش ناک باتیں بتائیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم تعلیم کے نام پر جہالت پھیلا رہے ہیں۔ ہر حکومت موجود ہ تعلیمی نظام کو ٹھیک کرنا چاہتی ہے یا کم از کم دعویٰ کرتی ہے، لیکن جب کوئی نظام سرے سے ہی موجود نہیںہے تو پھر کسے ٹھیک کیا جائے؟ان کی بات میں وزن ہے کیونکہ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ہمارے طلبہ متعدد زبانیں، جیسے اردو، انگریزی، عربی، فارسی اور مقامی زبانیں جیسے پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی وغیرہ، پڑھتے ہیں لیکن وہ ان میں سے کسی میں بھی مہارت حاصل نہیںکرپاتے۔ جب انہیںکسی زبان پر دسترس حاصل نہیںتو وہ سائنسی اور عمرانی علوم کی تفہیم کیسے کر پائیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ذہین ترین طلبہ بھی کچھ اسباق کو رٹالگا کر امتحان میں اچھے نمبر حاصل کرلیتے ہیں ۔ آج کل میٹرک اور انٹر میڈیٹ میں ایک ہزار سے زیادہ یا اس کے قریب نمبر حاصل کرنا بچوں کا کھیل بن چکا ہے لیکن اتنے نمبر حاصل کرنے والوں سے اگر آپ کسی بھی زبان میں علمی موضوع پر بات کریں یا ایک پیرا گراف لکھنے کو کہیں تو ان کی پیشانی پر بہنے والاپسینہ چناب کی موجوں کو شرمانے لگتا ہے۔ اگر اگلی مرتبہ آپ کو کوئی ایم اے انگلش ملے اور اس سے گفتگو کرتے ہوئے آپ اندازہ ہو کہ اس نے شیکسپیئر کا کوئی ڈرامہ، ڈکنز کا کوئی ناول اور بیکن یا چارلس لیمب کا کوئی مضمون نہ پڑھا ہو تو حیران نہ ہوں کیونکہ اردومیں ماسٹر ڈگری کے حامل بھی اقبال، غالب، منشی پریم چند، منٹو،رجب علی بیگ اور میر امن دہلوی سے لا علم ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم ایسا ہے کہ اس میں کچھ سوال تیار کرکے اچھے نمبر لیے جاسکتے ہیں۔ جو طلبہ کتب بینی کا ذوق رکھتے ہیں وہ اس نظام میں ناکام رہتے ہیں۔ 
پروفیسر صاحب نے بتایا کہ معروضی امتحانی نظام کی وجہ سے انتہا پسندی میں اضافہ ہورہا ہے۔ میں حیران ہوئی کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ حکومت کا طے کردہ تعلیمی نصاب کیونکر انتہا پسندی میں اضافہ کرنے کا موجب ہوسکتا ہے ؟تو اُنھوںنے ان الفاظ میں اپنی بات کی وضاحت کی: ''ہمارے ہاں انٹرمیڈیٹ تک معروضی امتحانی نظام ہے جس کامقصد یہ تھا کہ طلبہ کچھ سوال یاد کرنے کے بجائے کتب کا مطالعہ کریں لیکن امدادی کتب چھاپنے والے ناشران نے طلبہ کو اس ''زحمت‘‘ سے بچا لیا۔ اُنھوںنے تمام درسی کتب کی ایک ایک لائن کو معروضی انداز کے سوال وجواب میں تبدیل کرکے کتابیں شائع کیں اور ان کے ہاتھ میں تھما دیں۔ اب وہ ان سوالات کو یاد کرکے اچھے نمبر لے سکتے ہیں‘‘۔ میں نے پھر اصرار کیا کہ ٹھیک ہے ، اس سے ان کی علمی قابلیت کم رہ جاتی ہو گی لیکن اس کا انتہا پسندی سے کیا تعلق ہے؟نالائق ہونے کا مطلب انتہا پسند ہونا تو نہیں ہوتا۔میرے اس سوال کے جواب میں پروفیسر صاحب نے جو کچھ بتایا وہ رونگٹے کھڑے کردینے والا تھا ۔ ہمارے ہاں مروجہ نظامِ تعلیم کے اس پہلو پر یقیناً بہت سوں کی توجہ نہیں گئی ہوگی۔ اُنھوںنے کہا:''کتب بینی ہمیں تجزیہ کرنا سکھاتی ہے، ہم ذہنی طور پر ایک مشق سے گزرتے ہیں اور یہ مشق ہمیں زندگی میں حقائق اور واقعات کا جائزہ لینا، تجزیہ کرنا اور نتیجہ نکالنا اور پھر مزید حقائق کی روشنی میں نکالے گئے نتیجے میں تبدیلی پیدا کرنا سکھاتی ہے، لیکن جب آپ کا مطالعہ ''سنگل لائن‘‘جواب (جو درست ہوتا ہے) پر مشتمل ہو تو پھر آپ کی ذہنیت بھی معاملات کا ایک اور من پسند پہلو دیکھنے تک محدود رہتی ہے ؛ چنانچہ ہمارے آج کے تعلیم یافتہ افراد کسی بھی معاملے پر، چاہے وہ مذہبی ہو یا سیاسی، معاشی ہو یا سماجی، جو کچھ بتایا جاتا ہے وہ یا تو اسے من و عن تسلیم کرلیتے ہیں یا دوٹوک انداز میں رد کردیتے ہیں۔ وہ اس کا تجزیہ کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور نہ ہی اپنی رائے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘‘ (طالبنائزیشن اورکسے کہتے ہیں؟) میرا گمان یہ ہے کہ پروفیسر صاحب حد سے زیادہ قنوطیت کا مظاہر ہ کررہے تھے لیکن اگر ان کا مشاہدہ درست ہے تو پھر ہمارا مسئلہ فاٹا یا 2014ء کے بعد کا افغانستان نہیں بلکہ ہماری ''ناخواندہ تعلیم یافتہ‘‘ نسل ہے جس کی سوچ کو تعلیمی نظام نے راسخ کردیا ہے۔ وہ سوال و جواب نہیں، صرف ہٹ دھرمی سے بحث کرسکتے ہیں اور بحث بھی وہ جس کا نتیجہ وہ نکال چکے ہوں۔ 
پاکستان میں رہنے والے اصحابِ درد کے لیے جو اس ریاست کی اگلی نسل کو بچانا چاہتے ہیں، یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ افسوس، ہمارے گھروں کا ماحول بھی کتب بینی کی حوصلہ افزائی نہیںکرتا۔ کیا ہمارے علاوہ بھی دنیا میںکوئی اور قوم ہے جسے کوئی زبان بھی نہیں آتی ؟ آج میڈیا کی ترقی کے دور میں ''یک سطری دانائی‘‘ اور بھی خطرناک ہے کیونکہ میڈیا کے ذریعے ملنے والی ''معلومات‘‘ کو علم نہیں کہا جاسکتا، کتابوںسے حاصل کیے گئے علوم کی روشنی میں ہی ان معلومات کا تجزیہ کرتے ہوئے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ہٹ دھرمی یا برین واشنگ ہی باقی رہ جاتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں