معمول کی تبدیلی

ہم سیاست، معیشت اور معمولات زندگی میں تبدیلی کے متمنی رہتے ہیں۔ یکسانیت، جسے زوال کے مترادف قرار دیا جاتا ہے، ہماری زندگی کو بے کیف کردیتی ہے لیکن یہ تبدیلی کیا ہے؟ کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہر تبدیلی بہتری کی طرف ایک قدم ہوگا؟ میراخیال ہے،ہر شخص جانتا ہے کہ ایسا نہیں ہوتا ہے، جیسے علامہ اقبال نے کہا تھا۔۔۔''حیات ذوقِِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں‘‘۔ کیا یہی ذوقِ سفر ہے جو آپ کو آمادہِ عمل رکھتا ہے؟کیا ہم اپنی زندگی کے معروضا ت کو مکمل تبدیل کر سکتے ہیں؟ آپ کا جواب نفی میںہوگا اور مجھے کہنے دیجیے کہ آپ درست سمجھ رہے ہیں کیونکہ زندگی مکمل تبدیلی کے لیے بنی ہی نہیں ہے۔اگرچہ اس میں تغیرکو ہی ثبات حاصل ہے لیکن زندگی انقلابی تبدیلی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ جمہوریت بھی ایسی ہی ہے ، یہ بھی انقلابی معجزات کا وعدہ نہیںکرتی، بس تبدیلی کے راستے کو یقینی اور لازمی بنادیتی ہے۔ 
ہم پاکستان میں ہمہ وقت تبدیلیوں کی باتیں سنتے رہتے ہیں اور گزشتہ چھ دہائیوںسے یہی کچھ ہورہا ہے۔ گزشتہ سالِِ نو کے موقعے پر ٹی وی کے کسی مزاحیہ پروگرام میںیہ بات کہی گئی تھی کہ پاکستان میں کئی برسوںسے کوئی نیا سال نہیںآیا ۔ میرا خیال ہے، یہ بات درست نہیں، ہرگام ہم تبدیلی کے عمل سے گزررہے ہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہمارے قدم بہتری کی جانب اٹھ رہے ہیں یا بدحالی کی طرف ۔گزشتہ سال دسمبر میںوطن کے درودیوار تبدیلیوں کے نعروں سے گونج رہی تھیں اور کہا جارہا تھا کہ ''سیاست نہیں، ریاست بچائو‘‘ مگر پاکستانیوں کی اکثریت نے وہ نعرہ رد کر دیا اور انتخابات کی طرف بڑھ گئے اور یہ کہا گیا کہ اس اقدام نے ریاست کو بچا لیا ہے۔
یہاں امریکہ میں جب دوستوںسے پاکستان کے بارے میں بات ہوتی ہے تو انہیں ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ اس ریاست کے باسیوں کو ہر آن اس کے ختم ہونے کا دھڑکا کیوں لگا رہتا ہے؟ ریاست کو ئی کارپوریٹ ادارہ تو نہیںہوتا کہ بیک جنبش قلم ختم ہوجائے ، اور نہ یہ کوئی ریت کا گھروندا ہوتا ہے کہ جسے جب چاہا بنایا اورجب چاہا بگاڑ لیا۔ ہم اس خوف اور خدشے سے نجات کیوں نہیںپا سکتے؟ اس کی ایک وجہ ہماری داخلی سوچ کے دھاروں کا مکدر ہوجانا ہے۔ ہمارے خارجی حالات اتنے بر ے نہیں ،لیکن ہم خوف و خدشات کی شکار قوم ہیں۔ مشہور انگریز شاعر ولیم بلیک نے جنہیں مغرب کا بابا بلھے شاہ کہا جاسکتاہے، کہا تھا: ''اگر سورج بھی شک میں پڑجائے توآنِ واحد میں تاریک ہوجائے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سورج سے زیادہ قوی ہیں کیونکہ چھ عشروںسے شکوک و شبہات، جو سازش کی تھیوریوں کے ماں باپ قرار دیے جاسکتے ہیں، کے اسیر ہونے کے باوجود عالمی بساط پر ایک اہم ملک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم مالی مشکلات کے باوجود ایک توانا قوم ہیں۔کچھ عرصہ پہلے اسی اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں ڈاکٹر رسول بخش رئیس صاحب نے کہا تھا کہ پاکستان میں خوشی کا پہلو دوسرے بہت سے ممالک سے زیادہ ہے، یہاں کے لوگ خوش ہونا جانتے ہیں، اس کامطلب یہ ہے کہ ان کے دل میں توانائی ہے، بس اس توانائی کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ 
فلوریڈا جہاں آج کل میں ''تبدیلی‘‘ کی غرض سے ہوں، کی سیاحت کے دوران جرمن ادیب فرانز کافکا(Franz Kafka) کا ناول ''The Metamorphosis‘‘ پڑھا۔ یہ ناول ایک گریگرنام کے نوجوان کی ابتلا کو بیان کرتا ہے جس کی زندگی مکمل تبدیلی سے دوچار ہوجاتی ہے۔ دراصل وہ ایک گھرانے کا واحد کمانے والا سیلز مین تھا ، ایک دن جب وہ سو کر بیدار ہوتا ہے تو اُسے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک رینگنے والا کیڑا بن چکا ہے۔ مصنف اس بات کی وضاحت نہیں کرتا کہ وہ اس تبدیلی کے عمل سے کیسے گزرا ؛ تاہم اس کے بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ بہت جلد اس کے اہلِِ خانہ، جن کے لیے ان کے واحد کمانے والے فر د کا کیڑا بن جانا بہت بڑے صدمے کی بات تھی، اُس سے تنگ آجاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اس سے جان چھڑانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ جب وہ مر جاتا ہے تو سب سکون کا سانس لیتے ہیں۔ اس کہانی میں سب سے اذیت ناک بات یہ ہے کہ کیڑا بننے کے بعد گریگر کچھ بول سکتا ہے نہ کچھ کر سکتا ہے ، لیکن وہ سب کچھ سن اور سمجھ سکتا ہے جو اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ اُسے احساس ہوتا ہے کہ وہ خاندان پر کتنا بڑا بوجھ ہے۔ یہاں مصنف ایک بات کو اجاگر کرتا ہے کہ اس کی جسمانی تبدیلی کے بعد اس کے اہلِِ خانہ اُس مافو ق الفطرت تبدیلی کی وجہ جاننے کی کوئی کوشش کرتے ہیں ر نہ وہ اس کاکسی طریقے سے علاج کراتے ہیں۔ پہلے تو وہ اس کی حالت سے نباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر پھر وہ اس سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ آخر کار اُس کی موت ان کے لیے تبدیلی لاتی ہے۔ 
اس ناول میں مصنف نے انسانوں کی بے بسی، خود غرضی اوربے حسی کی عکاسی کی ہے۔ یقینا خوشی کے بغیر انسان کی حیثیت ایک کیڑے سے زیادہ نہیںہوتی ۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جسمانی طورپر کیڑا بننے سے بہت پہلے گریگر حشرات الارض کی طرح کی زندگی ہی بسر کررہا تھا۔ وہ صبح سے شام تک محنت کرتا، پیسے کماتا اور گھر کا خرچ چلاتا تھا ۔ اس کی زندگی میں کوئی خوشی اور جوش کا پہلو نہ تھا ،گھر والوںسے اُس کا تعلق بھی اتنا ہی تھا کہ وہ ان کے لیے پیسے کمایاکر تا تھا۔ اہلِِ خانہ سے حاصل ہونے والی خوشی، کام سے محبت اور امید ہی زندگی ہے۔ اس کے بغیر تبدیلی۔۔۔ استغفراﷲ!کیا معمول کے کام ہمیں خوشی نہیں دے سکتے؟ آپ اچھی زندگی کی امید رکھیں، آمدن کم ہے یا زیادہ دھیان اپناکام لگن سے کریں اورکچھ وقت تفریح کے لیے ضرور نکالیں۔کھیل کود، موسیقی اور مطالعہ ہمیں خوشی دے سکتا ہے۔ اس کے ذریعے ہم اُس تبدیلی سے بچ سکتے ہیں جس سے گریگر گزرا تھا یا طالع آزما ہمیں جس تبدیلی کے جھوٹے خواب دکھا کر اپنا مطلب نکالتے رہتے ہیں۔ 
گزشتہ کالم میں ، میںنے پاکستان کے نظامِ تعلیم پر بات کی تھی ، اس پر بہت سی ای میلز وصول ہوئیں۔ کچھ دوستوں نے ایک اور اہم مسئلے کی نشاندہی کی جس کا تعلق ہمارے ملک میں ریڑھی کلچر سے ہے۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے بازاروں اور گلیوںمیں ریڑھیوں اور ٹھیلوں پر پھل اور مختلف اشیاء فروخت ہوتی ہیں ، ان پر زیادہ ترچھوٹے لڑکے اپنے والد، جس نے کسی دوسری جگہ پر ریڑھی لگائی ہوتی ہے کا ہاتھ بٹاتے ہیں ۔ والدین کے پاس اپنے بچوں کو سکول نہ بھیجنے کا یہ ایک'' اچھا متبادل‘‘ ہے کہ وہ نوعمری میںہی پہلے گھر کے نزدیک اور پھر کسی اچھی سی سڑک یا بازار میں مناسب سی جگہ پر ریڑھی لگالے اور پیسے کمائے۔ اسی طرح موٹر سائیکل رکشہ بھی سکول کا ''نعم البدل ‘‘ثابت ہورہا ہے۔ لاہور اور پنجاب کی دوسرے شہروں میں نوعمر لڑکے موٹر سائیکل رکشے پر سات یا آٹھ سواریاں بٹھائے نہایت برق رفتاری سے ٹریفک کے بیچوں بیچ زگ زیک بناتے ہوئے گزر رہے ہوتے ہیں۔ اس حیرت انگیز ایجاد نے جس میں بریک نامی چیز نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، ٹریفک یا بے روزگاری کا مسئلہ کیا حل کرنا تھا، بچوںکو سکول جانے سے روک دیا ہے۔ کیا حکمران ان ''معمولی‘‘ معاملات پر توجہ دینے کی زحمت کریںگے؟ معاشرہ تبدیلی سے گزررہا ہے ، لیکن تعلیم کے بغیر یہ تبدیلی مثبت نہیں ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں