جمہوریت اور حکمرانی

ہمارے ملک میں کون سا انداز ِ حکمرانی ہو نا چاہیے؟ برٹش کونسل کے سروے کے مطابق‘ جس کی تفصیل قارئین کی بڑی تعداد کے سامنے آچکی ہے، پاکستانی نوجوانوں کی بڑی تعداد نظامِ شریعت کی حامی ہے۔ کیا ا س سے یہ مراد لی جائے کہ پاکستانی نوجوان بے حد مذہبی نظریات کے حامل ہیں یا پھر یہ کہ وہ جمہوریت سے بیزار ہیں۔ کیا وہ جمہوریت یا مذہب کی روح کو سمجھتے ہیں؟ کیا وہ انہیں ایک دوسرے کے متصادم قرار دیتے ہیں؟ یہ اتنے غیر اہم سوال نہیں ہیں جتنی آسانی سے انہیں نظر انداز کر دیاگیا ہے۔ درحقیقت میڈیا میں ان پر کچھ آرٹیکل لکھے گئے اور معاملہ نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ 
اس پر بہت سے قنوطی لوگوںنے یہ کہہ کر معاملے کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی کہ برٹش کونسل کے سروے کچھ علاقوں تک ہی محدود ہوتے ہیں، اس لیے ان کو تمام پاکستان کی رائے نہیں کہا جاسکتا۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ اس سروے کو چھوڑ دیں اور اپنے اردگرد موجود نوجوانوں سے اُن کی رائے دریافت کرنے کی کوشش کریں تو آپ کو احساس ہو گا کہ معاملہ اُس سے کہیں زیادہ سنگین ہے جتنا دکھائی دیتا ہے۔ بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک، ضیا دور اور پھر موجودہ جمہوریت کے سفر میں جس طرح مذہب کا ''خانہ ‘‘ شامل کر لیا گیا ہے، وہ مذہب کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ 
اگر ماضی کو بھول کر حال کی طرف دیکھیں تو پاکستان کے بہت سے حلقوں سے منتخب ہونے والے افراد مذہبی پس منظر رکھتے ہیں۔ یہ بری بات نہیں ہے لیکن اس کے برتے پر ووٹ لینا یقینا بہت سے سوال اٹھا دیتا ہے۔درحقیقت جس چیز نے پاکستانی نوجوان کو جمہوریت سے برگشتہ کیا ہے وہ مذہبی حلقوں کی طرف سے‘ اس کے خلاف چلائی گئی مہم ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں پھیلے دینی ادارے اور مساجد اُسے اسلامی نظام کے بارے میں بتاتے ہیں۔ تاہم اُسے یہ بات نہیں بتائی جاتی کہ اسلام ، یا دنیا کا کوئی بھی مذہب، نظام نہیں اہداف مقرر کرتا ہے۔ مثلاً حکم ہے کہ تعلیم حاصل کرنا مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے لیکن تعلیمی نظام، نصاب، امتحانات کا شیڈول، اساتذہ کی بھرتی اور تنخواہیں وغیرہ تو انسانوں کی حکومت نے ہی طے کرنی ہیں۔ اسی طرح مذہب عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے لیکن عدالت کی عمارت، ججوں کی تعلیم، تنخواہ، اوقات وغیرہ کے فیصلے انسانوںنے ہی کرنے ہیں؛ چنانچہ نوجوانوں کو یہ بات باور کرانا ضروری ہے کہ نظام انسان ہی بناتے ہیں۔۔۔ مذہب احکامات دیتا ہے۔ گزشتہ صدیوں میں اگر ہم زمانے کے تقاضوں کے مطابق نظام اور ادارے بنانے میں ناکام رہے ہیں تو اس میںکس کا قصور ہے؟ چونکہ ہم ادارے نہیں بناپائے، اس لیے ہمیں مجبوراً مغرب کی نقالی کرنا پڑتی ہے ۔ ریاست کے نظام کو، جسے عقیدے کے ساتھ گڈ مڈ کرنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے، بنانے کے لیے انسانوں کی اجتماعی رائے درکار ہوتی ہے۔ اب تک عوامی رائے حاصل کرنے کے لیے انتخابی جمہوریت سے بہتر کوئی نظام سامنے نہیں آیا۔ 
بہرحال جمہوریت کے حق میں بہت سے دلائل دیے جاتے ہیں لیکن جب جمہوری حکمران آمریت ، اقرباپروری، بدعنوانی اور لاقانونیت کی راہ اپناتے ہیںتو پھر اس کی وکالت کیسے کی جاسکتی ہے۔ سرونسٹن چرچل کا کہنا ہے۔۔۔''جمہوریت کے خلاف حقیقت پر مبنی تنقید سننی ہو تو کسی بھی عام ووٹر سے پانچ منٹ کے لیے بات کرلیں، آپ پر ساری حقیقت واضح ہو جائے گی۔‘‘ ہمارے ملک میں عوام کی اکثریت جمہوریت کی حامی تو ہے لیکن اس سے مطمئن نہیںہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رہنما عوام کو باور کرادیتے ہیں کہ وہ ملک کو پیرس ، لندن یا سنگاپور بنادیں گے ، لیکن وہ انہیں یہ نہیں سمجھاتے کہ اُنھوںنے حکومت کو ٹیکس بھی اداکرنے ہیں، قانون کی پاسداری کرنی ہے اور ریاست ان سے بطور شہری بہت سے مطالبا ت کرتی ہے؛ عوام کو صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ ووٹ ڈالتے ہی ان کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے لیکن اُنہیں حقائق سے بے خبر رکھا جاتا ہے‘ چنانچہ کچھ دیر بعد وہ مایوس ہوجاتے ہیں۔ اسی دوران مذہبی قوتیں اُنہیں بتاتی ہیں کہ یہ لادینی نظام ہے تو اُنہیں اس پر کوئی شک نہیں رہتا۔ ستم یہ ہے کہ یہی مذہبی قوتیں جمہوریت کے ذریعے وجود میں آنے والے نظام سے مفاد بھی حاصل کرتی ہیں۔ ایک جمہوری حکومت کا سب سے پہلا، او ر شاید آخری ، فرض ریاست کے امور کی انجام دہی ہے۔ سب سے پہلے اس نے ریاست کے تمام علاقوںپر اپنی رٹ قائم کرنی ہے اور شہریوں سے واجب محصولات وصول کرنے ہیں تاکہ شہریوں کے فلاحی ریاست کا وعدہ پورا کیا جاسکے۔ جو جمہوریت امن و امان قائم کرنے میں ناکام رہتی ہے یا قاتلوں کے سامنے نرمی دکھاتے ہوئے صرف مذاکرات کی بات کرتی ہے یا دولت مند طبقوں سے ٹیکس وصول نہیںکرسکتی تو شہریوں کو اس کے خلاف احتجاج کرنے کا حق ہے۔ جمہوریت کا حسن یہ بھی ہے کہ وہ احتجاج کرنے کاحق بھی دیتی ہے۔ 
اس وقت، جب کہ ملک میں میڈیا رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے قابل ہو چکا ہے، عوام کو بتانا چاہیے کہ ریاست کا نظام‘ عقائد کا متبادل نہیںہوتا۔ درحقیقت عقائد افراد کا ان کے معبود سے تعلق واضح کرتے ہیں جبکہ ریاستی نظام ان کو معاشرے میں رہنے کے قابل بناتا ہے۔ اکٹھا رہنے کے لیے ہر معاشرہ اپنے اپنے معروضی حالات کے مطابق کچھ قوانین وضع کرلیتا ہے۔ تمام شہری ان قوانین کی پاسداری کرتے ہیں اور ریاست اس بات کی یقین دہانی کراتی ہے کہ کسی شہری کی حق تلفی نہ ہو۔ اس کے علاوہ جمہوریت کا اور کیا مقصد ہوسکتا ہے؟کیا ہم مغربی جمہوریت کے قابل نہیں ہیں ؟ کیوں نہیں؟ اگر ہم ان کی بنائی ہوئی گاڑیاں چلاسکتے ہیں، ان کے کمپیوٹر استعمال کرسکتے ہیں، ان کے موبائل فون گاڑی چلاتے وقت بھی ہمارے ہاتھ سے نہیں چھوٹتے اور ان کے ممالک میں جانے کے لیے ہم کچھ بھی کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں تو ان کا اچھا نظام اپنانے میں کیا حرج ہے ؟ایک اور بات، جارج برناڈ شا نے کیا عمدہ بات کی ہے۔۔۔''جمہوریت وہ نظام ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہمارے حکمران اُس سے بہتر نہ ہونے پائیں جن کے ہم مستحق ہیں‘‘؛ چنانچہ جب آپ حکمرانوں کو برا کہتے ہیں تو کچھ دیر رک کر سوچا کریں کہ ہم سے کیا اور کہاں غلطی سرزد ہوئی ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں