مشرق و مغرب کا فکری ادغام

امریکی کے شمالی علاقوں میں واقع ریاست میسا چوسٹس (Massachusetts) میں امہرسٹ( Amherst) ایک پرسکون قصبہ ہے۔ جب بھی اس قصبے سے گزرہوتا ہے تو میں کچھ دیر اس کے کالج کے پا س رک کر مسٹر سیموئل ڈکنسن (Samuel Dickinson)، جس نے انیسویں صدی کے آغاز میں کم و بیش تن ِ تنہا یہ کالج قائم کیا، کے بارے میں ضرور سوچتی ہوں۔مسٹر سیموئل ڈکنسن کا نام پاکستانی قارئین کے لیے یقینا اجنبی ہوگا لیکن اُن میں سے کچھ کے لیے ایملی ڈکنسن (Emily Dickinson) یقینا غیر معروف نہیںہوں گی، یہ عظیم امریکی شاعرہ مسٹر سموئل کی پوتی تھیں۔ 
ایملی ڈکنسن نے زیادہ تر نظمیں موت کے بارے میں لکھیں۔ درحقیقت اس کی موت کے بارے میں نظموں کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ موت کوایک دہشت ناک حقیقت کی بجائے عام انسانی روپ میں پیش کرتی ہیں اور پڑھنے والے کو یاد دلاتی ہیں کہ موت ناگزیر لیکن ''معمول ‘‘ کی کارروائی ہوتی ہے اور یہ کہ اس سے مفر ممکن نہیں۔ تاہم ان کی شاعری کا سب سے متاثر کن پہلو زندگی کی کھوج اور اس کا حرکی پہلو ہے۔ کیا یہ عجیب اتفاق نہیں کہ جو شاعرہ موت کے بارے میں لکھتی ہے، اس میں زندگی کی کسک بھی باقی ہے۔ شاعرِ فطرت ورڈز ورتھ نے اپنی مشہور اور طویل نظم ''The Prelude‘‘ میں خوف اور خوبصورتی کو انسان کے اساتذہ قرار دیا۔ گویا خوبصورت چیزیں انسان کے اندر آگے بڑھنے کا جذبہ ، امید، رجائیت اور لگن پیدا کرتی ہیں جبکہ خوف اوردرد کا احساس اُس میں احتیاط اور سوچ پیدا کرتا ہے۔ ان دونوں رویوں کاتوازن ایک نارمل انسانی شخصیت کی تشکیل کرتے ہوئے اُسے زندگی کی حقیقتوں سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ اگر بچپن میں صرف خوبصورتی، یعنی آسائش اور بے فکری ، سے ہی واسطہ پڑا ہو تو پھر زندگی میں ایک طرح کا عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کو پورا کرنے کے لیے تعلیم اور زندگی کے تجربات، جنہیں عام طور پر ٹھوکریں کہتے ہیں، یہ کمی پوری کردیتے ہیں۔ اگر گھر یا معاشرے کا ماحول خوف اور گھٹن کا شکار ہو تو پھر انسان قنوطی ہوجاتا ہے کیونکہ اس کے اندر آگے بڑھنے کا جذبہ او ر لگن ختم ہوجاتی ہے۔ ایک مرتبہ پھر تجزیاتی تعلیم اس کی مدد کرتی ہے اور وہ بچپن کی محرومی کو پورا کرسکتا ہے۔ 
اس تجزیے کے بعد پاکستان کے معروضی حالات پر غور کریں کہ ہم مجموعی طور پر خوف کا شکار ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے تو یہ دھڑکا لگا رہتاہے کہ یہ ریاست اپنا وجود کھودے گی۔ اس کے بعد معاشی ماہرین دھمکاتے رہتے ہیںکہ ریاست دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ عرصہ ٔ دراز سے بھارتی حملے کا خطرہ اپنی جگہ پر موجود تھا اور اب گزشتہ ایک عشرے سے طالبان نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ سابقہ آرمی چیف نے تو اعتراف بھی کرلیا تھا کہ اب خطرہ مشرقی سرحد کی طر ف سے نہیں ہے، بلکہ شمال مغربی سرحد سلگ رہی ہے ۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان مزید مصیبت کا شکار ہوجائے گا۔ دنیا بھرکے افراد ، خاص طور پر سرمایہ کار ، سیاح اور سپورٹس ٹیمیں پاکستان آنے سے کتراتی ہیں۔ بیرونی دنیا کے لوگ حیران ہیں کہ ان حالات میں ایک متوازن سوچ رکھنے والی قوم کس طرح وجود میں آسکتی ہے۔ 
یہ وہ خوف ہے جس میں ہماری نسلیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ اگر ورڈز ورتھ کی بات درست مان لی جائے تو پھر ہمارے تعلیمی نظام پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نوجوانوں کو اس خوف اور گھٹن سے نکالے تاکہ وہ رجائیت اپناسکیں۔ چونکہ ، اور یہ بات سب جانتے ہیں، ہمارے نظام ِ تعلیم کا یہ یا کوئی اور مقصد نہیں، اس لیے ہماری سوچ کا مکدر آئینہ صاف ہونے کا کوئی چار ا دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ جس دوران حکمران پرویز مشرف کے ٹرائل میں مگن ہیں، اس ذہنی پسماندگی کا ایک اوردن گزرگیا ، پھر ایک اور مسئلہ حکمرانوں کو گھیرلے گا ۔ اسی طرح لاحاصل کاموں میں پانچ سال گزر جائیںگے ۔۔۔ گزشتہ چھ دہائیاں اسی طرح گزری ہیں ۔ 
کیا اس کایہ مطلب لیا جائے کہ جب ہم پر خوف کے سائے منڈلا رہے ہیں تو ہم نا امید ہو کر بیٹھ جائیں؟ ہر گز نہیں، کیونکہ جتنی زیادہ گھٹا ٹوپ تاریکی ہوگی، امیدکی روشنی اتنی ہی ہویدا ہوگی۔ انسا ن کو قدرت نے حقائق کی دنیا میں خالی ہاتھ نہیں بھیجا، بلکہ اسے داخلی تصورات کی دنیا آباد کرنے کی صلاحیت سے بھی نوازا۔ ہم تخیلات کا ایسا جہان آباد کرسکتا ہے جہاں زمان و مکان کی قید وبند ختم ہوجاتی ہے۔ درحقیقت یہ تخیلات ہمیں خوشی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب معروضی حالات نہایت حوصلہ شکن ہوں تو پھر داخلی خوشی کا کیا امکان ہوسکتا ہے؟ یقینا اس کے لیے ہمیں کچھ خارجی عوامل درکار ہوتے ہیں۔ یہ فنون ِ لطیفہ کی صورت میں ہمیں حالات کے جبر سے بچاتے ہیں۔۔۔ غالباً طالبان کی مخالفت اسی بناپر کرتے ہیں۔ تصورات کی اس دنیا میں، مجھے یہ کہنے دیجیے ، کہ مشرق و مغرب کا عجیب سنگم وجود میںآتا ہے۔ کالم کے آغاز میں ، میں نے ایملی ڈکنسن کا ذکر کیا ۔ وہ ایک نظم میں انسانی دل کے بارے میں لکھتی ہیں کہ ۔۔۔ '' دل اور سمندر کا موازنہ کرلیں تو ان کی گہرائی اور وسعت ایک ہی نکلے گی۔‘‘کیا یہی وہ موضوع نہیں جو مشہور پنجابی صوفی شاعر حضرت سلطان باہو نے اپنے ایک مقبول ِ عام شعر میں بیان کیا ہے۔۔۔''دل دریا ، سمندروں ڈونگھے، کون دلاں دیاں جانے ہو۔‘‘کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ نہ تو سلطان باہونے ایملی ڈکنسن کا مطالعہ کیا اور نہ ہی ایملی نے مشرقی صوفیانہ کلام پڑھا اور نہ ہی اُسے پنجابی آتی تھی، لیکن دونوں شاعروںنے ایک ہی بات کتنی عمدہ پیرائے میں بیان کی ہے۔ اسی طرح ہمارے پاس عالمی معیار کا ادب، موسیقی اور سپورٹس کا انفرا سٹرکچر ہے۔ دنیا کا شاید کوئی اسلامی ملک ان میدانوں میںہمارا حریف نہیںہے۔ کیا ہم من کی دنیا نہیں بسا سکتے ؟ کیا یہ ''معاونین ‘‘ ہمیںمایوسی کے اندھیرے سے نہیں نکال سکتے ہیں؟ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اقبال نے گوئٹے کو مرزا غالب کا ہم نوا قرار دیا تھا۔ 
ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم یقین رکھیں کہ ہم ان مشکلات، جو یقینا بہت گھمبیر ہیں، پر قابو پالیں گے۔ معیشت کے جادوگر مسٹر ڈار کا کہنا ہے کہ اس سال کے آخر تک ہمارے پاس اتنے ارب ڈالر ہوجائیں گے کہ شمار مشکل ہو گا۔ ہمیں ان پر یقین کرلینا چاہیے۔ اس دوران ہمیں خوشی کا کچھ سامان بھی چاہیے۔ اس کے لیے دامن ِ دل کو وا کریں اور دیکھیں کہ زندگی صرف خوف اور خدشات کے لیے ہی نہیںہے، اس میں خوش ہونے کو بھی بہت کچھ ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں