یہ ہے پاکستان

چند ہفتے پہلے وزیرِ داخلہ چودھری نثارعلی خان نے تقریباً قسم کھاتے ہوئے یقین دلایا کہ اسلام آباد دہشت گردوںکے حملے سے بالکل محفوظ ہے ، لوگوں کو یقین ہونا چاہیے کہ اس کی سکیورٹی فول پروف ہے ؛ چنانچہ وہ اُن کی یقین دہانی کو تسلیم کرتے ہوئے آرام سے زندگی بسرکریں۔ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیںکہ اس یقین دہانی کے چند دن بعد اسلام آباد عدالت پر حملہ ہوجاتا ہے۔کیا لوگ آئندہ بھی ان کی بات پر یقین کریں گے ؟یہ ایک عام فہم بات ہے کہ دنیا میںکہیں بھی ایسا واقعہ پیش آیا ہوتا یعنی وزیرداخلہ کی یقین دہانی کے چند دن بعد عین دارالحکومت میں حملہ ہوجاتا تو جھوٹے وعدے کرنے کی پاداش میں یا تو وزیر ِ داخلہ مستعفی ہوجاتے یا اُنہیں برطرف کر دیا جاتا ، لیکن ہمارے ہاں ان باتوںکی گنجائش نہیں، یہ پاکستان ہے۔ 
پاکستان میں چاہے سیاست ہو یا کاروبار، مذہبی معاملات ہوں یا سماجی رویے، ایسا لگتا ہے کہ نفسیاتی طور پر ہم سب اذیت پسندی کا شکار ہیں ، خاص طور پرحکمران طبقے کو انسانی جان کی قدرو قیمت کی کوئی فکر نہیں۔ اب تک دہشت گردوںکے ہاتھوں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اورمزید جانی نقصان کا بھی خدشہ ہے جبکہ حکمران اپنے محفوظ محلات میں بیٹھے بے معنی بیانات جاری کررہے ہیں۔ عوام نے تبدیلی کے لیے ووٹ دیا تھا لیکن چودھری نثاراور رحمان ملک میں کیا فرق ہے؟ دونوںنے اپنے طرز عمل سے ثابت کیا کہ وہ اس اہم منصب کے حق دار نہ تھے جس پر اُنہیں بٹھا دیا گیا۔ مہذب معاشروںمیں وزیرداخلہ یا اس مرتبے کے دوسرے عہدیداران کی جان سولی پر ٹنگی رہتی ہے کیونکہ اُنہوںنے بہت سی باتوں کا جواب دینا ہوتا ہے، لیکن یہ پاکستان ہے۔ سابق دور میں صدر زرداری کو اس منصب پر ایسا شخص چاہیے تھاکہ غلط کام کرتے ہوئے اس کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئے ؛ چنانچہ رحمان ملک نے اپنے انتخاب کی لاج رکھی۔کراچی سے لے کرخیبر تک امن وامان کی ذمہ داری اُنہوںنے جس طرح رات کو دن ثابت کرتے ہوئے نبھائی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ چودھری صاحب ان کو مات دینے کی کامیاب کوشش کررہے ہیں۔ 
نواز شریف صاحب کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ اُنہوںنے اپنے سیاسی قلعے کو محفوظ بنانا تھا؛اگرچہ بطور اپوزیشن لیڈر چودھری نثارکی کارکردگی مایوس کن تھی لیکن اُنہیں یہ انتہائی اہم عہدہ،خاص طور پر جب پاکستان کو داخلی طورپر بہت گمبھیر چیلنجز درپیش ہیں،گفٹ کردیاگیا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان اس پر ہنسے یا روئے۔ اﷲ کے بندو، اگر آپ اپنے وفاداروں کو نوازنا چاہتے ہو توکوئی اورراستہ اختیارکرلو لیکن پاکستان کی سالمیت سے تو نہ کھیلو! اگر آپ کے وفادار ایسی صلاحیتوںکے مالک ہیں تو اُنہیں ایسا عہدہ دو جس سے وہ کم ازکم انصاف کر سکیں ۔ اس سے پہلے رحمان ملک کو مخلوط حکومت کے لیے بہت سے عجیب وغریب کام کرنا پڑتے تھے اوراُنہوںنے وہ کام اچھے طریقے سے انجام دیے اور پھر عوام بھی صبر سے سب کچھ دیکھتے رہے یہاں تک کہ انتخابات میں اُنہوںنے حساب چکادیا۔اب نوازشریف صاحب نے چودھری نثارکو پاکستانی پولیس کا ہیڈ بنا دیا ہے ؛ تاہم رحمان ملک میں ایک خوبی تھی کہ وہ اپنی غلطی مان لیا کرتے تھے، لیکن چودھری نثاراس کا حوصلہ 
نہیںکرپارہے ؛ اس کے بجائے وہ مشورہ دینے لگتے ہیں کہ ان معاملات پر سیاست نہ کی جائے۔ نہیں کی جائے گی لیکن قوم کو صرف یہ تو بتادیں کہ اسلام آباد میںکیا ہورہا ہے؟ 
میںکئی برسوںسے لکھ رہی ہوںکہ ہمیں وزارت ِ داخلہ ختم کردینی چاہیے اوراس کی بجائے ہوم لینڈ سکیورٹی کی طرزکا ادارہ بنانا چاہیے۔ اسے اس حد تک بااختیار بنایا جائے کہ رحمان ملک یا چودھری نثار جیسے افراد کا اس میں کوئی کردار نہ ہو۔نائن الیون کے سانحے کے بعد صدر بش نے یہ محکمہ قائم کیااورایمانداری سے کہنا پڑتا ہے کہ اس نے بہت اعلیٰ کارکردگی دکھائی۔امریکی صدر نے ہوم لینڈ سکیورٹی کے سامنے قومی پالیسی رکھی۔اس ادارے کا ماٹو ''Guide, Organize and Unify‘‘ ہے اور وہ بغیر کسی دبائوکے داخلی سکیورٹی کو یقینی بناتا ہے۔اس ادارے کے سامنے ایک واضح حکمت ِ عملی ہے اور یہ اس کی روشنی میں امریکہ کو لاحق خطرات کا ادراک کرکے اُن کا تدارک کرتا ہے۔ اس کے پاس طویل المدت منصوبہ بندی ہے۔ ہم بھی امریکیوں سے سبق سیکھ سکتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے ملک کی سکیورٹی کو ہر چیز پر مقدم قرار دے کر اس کے لیے بے لچک کام کررہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک اس کی سربراہ ایک خاتون جینٹ نپولیٹانو (Janet Napolitano) تھیں۔ ان پر صدر اوباما کو بہت اعتماد ہے کیونکہ ایسے عہدوں پر چنائو سیاسی مصلحتوںسے بالا تر ہو کرکیا جاتا ہے۔ ہوم لینڈ سکیورٹی کے موجودہ سربراہ جے چارلس جانسن ہیں۔ 
حال ہی میں مجھے پیرس میں مقیم ایک پاکستانی سائنسدان کی ای میل وصول ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں: ''مجھے یقین ہے کہ آپ کو مکمل احساس ہو گا کہ پاکستان میں طالبان کس طرح قدم جمارہے ہیں اورحکومت کس طرح احمقانہ مذاکرات کے ذریعے اُنہیں خوش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ کچھ لوگ خدشہ محسوس کرتے ہیں کہ اس وقت ریاست خطرے کی زد میں ہے ،کچھ سوچتے ہیں کہ ریاست جس قدر گراوٹ کا شکار ہو چکی ہے اس سے زیادہ خرابی ممکن نہیں۔ وزیرداخلہ اور عمران خان کے بیانات پڑھ کر دل گھبرانے لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں سیاست دانوں کا کام صرف اور صرف طالبان کا دفاع کرنا ہے اور وہ طالبان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت کی دوڑ میں شامل ہیں۔ انہیں عوام کے تحفظ سے کوئی سروکار نہیں ۔ حکومت مفلو ج اور عوام کی جان و مال غیر محفوظ ہے لیکن ان کے بیانات کا تانتا بندھا ہواہے۔ بعض اوقات خدشہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ القاعدہ پاکستان پر عملی طورپر قبضہ کرچکی ہے‘‘۔ اس ای میل سے اندازہ ہوتا ہے کہ دیارغیر میں رہنے والوں کو بھی شدت سے احساس ہے کہ وزیر داخلہ کے فرائض یہ نہیں جو چودھری صاحب سرانجام دینے کی کوشش میں ہیں۔ 
پریس رپورٹس کے مطابق پاکستان کے دفاعی بجٹ میں اضافہ کردیا گیا ہے۔کیا ہم یہ گمان کرنے میں حق بجانب ہیںکہ اس کا مقصد طالبان کے خطرے سے نبرد آزما ہونا ہے۔ پانچ سال پہلے 2009 ء میں، مَیں نے'' نیویارک ٹائمز‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ پاکستان کے دفاعی اداروں کو امریکہ سے اربوں ڈالرکے حساس آلات اورہتھیار ملے ہیں جن میں ایم آئی ــ17 ہیلی کاپٹرز، کوبرا ہیلی کاپٹرزکے اہم پرزے ، اندھیرے میں دیکھنے والے آلات اور بلٹ پروف جیکٹس بھی شامل تھیں۔اس وقت امریکی اخبارات نے حیرت کا اظہارکرتے ہوئے لکھا تھا:''کیا پاکستان طالبان اور انتہا پسندوںکے خلاف یہ ہتھیار استعمال کرپائے گا؟‘‘ اُس وقت آئی ایس پی آرکے سربراہ جنرل اطہر عباس کا بیان سامنے آیا تھا کہ یہ خالصتاً پاکستانی جنگ ہے اور یہ امریکہ یا کسی اور ملک کے تعاون کے بغیر لڑی جارہی ہے۔ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ جب ہمیں خطرے کاسامنا ہے اور دنیا ہماری مدد کرنے کے لیے تیار ہے تو ہم ریت میں سر چھپانے پرکیوں مصر ہیں؟ ابھی وقت ہے، ہمیں امریکہ سے بغیرکسی ہچکچاہٹ کے درخواست کرنی چاہیے کہ ہمیں ہوم لینڈ سکیورٹی کی طرزکا ادارہ قائم کرنے میں مدد فراہم کرے۔اس سے روایتی سکیورٹی فورسز پر سے دبائوکم ہوگا اور وہ دیگر معاملات پر توجہ دے سکیں گی۔اس ادارے کوکسی دبائو کے بغیراپنا کام کرنے دیا جائے ۔ حیرت ہے کہ جب سی آئی اے کے سربراہ یا دیگر اہم امریکی شخصیات پاکستان آتی ہیں تو ہم اُنہیں کیا کہتے ہیں؟ جب ایک شخص بیمار ہو تو اُسے یقیناًدوا کی ضرورت ہوتی ہے ، لیکن ہماری وزارتِ داخلہ جیسے''یونانی نسخے‘‘ مرض کو بگاڑ رہے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں