دنیا کے عظیم ترین افراد

آپ کے لیے ایک پہیلی ہے۔۔۔۔۔ پاکستان کے پچاس عظیم ترین افراد کے نام بتائیں۔آپ سوچ میں پڑ جائیںگے کہ قائد اعظم اور عبدالستارایدھی کے علاوہ کس کا نام لیں؟ہم میںسے کوئی بھی شاید اس پہیلی کو نہ بوجھ پائے ۔ دراصل پاکستان میں کچھ عظیم مرد اورخواتین پائی جاتی ہیں لیکن عظمت کے اعلیٰ ترین معیار پر وہ پورے نہیں اترتے۔ ترس آتا ہے اُن طلبہ پر جو اپنی درسی کتب میں نام نہاد عظیم افراد کے بارے میں پڑھتے ہیں لیکن ان کی عظمت کا اثر ان کے دماغ پرگہرا نہیںہوتااورجیسے ہی ان کی تعلیم تمام ہوتی ہے، وہ انہیں بھول جاتے ہیں۔ 
وہ لوگ جو زمانے کی یادداشت میں جگہ پاتے ہیں اورگزرتے ہوئے ماہ و سال ان کی قدر میں اضافے کا باعث بنتے ہیں، ان سب میں ایک قدر مشترک ہوتی ہے۔۔۔ ان کا کوئی نہ کوئی کام عام آدمی کی زندگی پراثرانداز ہوکر اس میں بہتری کاموجب بنتا ہے۔اس فہرست میں انبیاء علیہم السلام کے بعد سائنسدانوں، فلاحی کام کرنے والوں، موجدوں، طبیبوں اوردانشوروں کے نام آتے ہیں۔ اچھے اخلا ق کا مظاہرہ کرنے والے افراد بھی یاد رکھے جاتے ہیں ؛ تاہم اس فہرست میں سیاست دان، قومی رہنما، پاکستان کو لوٹنے والے اور فاتحین کی کوئی جگہ نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ افراد کچھ لوگوں کے محبوب ہوں لیکن زیادہ تر افراد ان کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں۔ ان کے آمرانہ رویے اورزیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی دھن انہیں ناپسند یدہ افراد بنا دیتی ہے۔ 
''Fortune Magazine‘‘عالمی معیشت کا جائزہ لینے والا اہم امریکی جریدہ ہے۔اس کی خاص بات دنیا کے سب سے دولت مند، بااثر اورطاقتورافرادکی فہرست گاہے گاہے شائع کرتا ہے۔ دنیا کے پچاس عظیم ترین رہنمائوں کی تازہ ترین فہرست پر نظر ڈالنا دلچسپی کا باعث ہوگا کیونکہ اس میں دنیا کے موجودہ حکمرانوں میں سے کوئی بھی جگہ پانے میں کامیاب نہیںہو سکا۔ ہو سکتا ہے کہ میگزین کے ایڈیٹرز نے یہ سوچا ہوکہ اقتدار آنی جانی شے ہے،اس لیے جو لوگ آج عالمی سطح پر جانے جاتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ کل وقت کی گرد میںگم ہوجائیں۔ 
حیرت کی بات یہ ہے کہ جرمن چانسلر اینجلا مرکل کے سوا دوسرے موجودہ عالمی سیاسی رہنما بشمول صدر اوباما اور صدر پیوٹن عظمت کی بلندی پرفائزنہیں۔اس فہرست میں سب سے اوپر پوپ فرانسس کا نام ہے اور ان کے بعد جرمن چانسلر کا۔ پھر فورڈ موٹرزکے شریک سی ای او ایلن مولالی، موجد وارن بف(Warren Buffett) اور سابق صدر بل کلنٹن کے نام آتے ہیں۔ 
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب میگزین نے موجودہ امریکی صدر اور دوسرے رہنمائوں کو نظر اندازکردیا تو بل کلنٹن اور اینجلا مرکل میں کیا خاص بات ہے کہ ان کا نام اس فہرست میں شامل کیا گیا ؟ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ان دوافراد کی وجہ سے عام افرادکی زندگیوں میں کوئی نہ کوئی فرق ضرور پڑا ؟ مسٹرکلنٹن نے انسانوں کو درپیش کچھ سوالات کا ضرور جواب دیا۔ ان کے مطابق قیادت کا اصل مقصد لوگوں کو ایک مقصد پر جمع کرنا، ان کی بہتری کے لیے منصوبہ سازی کرنااور اس کے حصول تک پرعزم رہنا ہے۔ انہوںنے اپنے دورِ اقتدار میں اس صلاحیت کا مظاہرہ کیا کہ وہ مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کی پیش بندی کرتے ہوئے ان کے تدارک کے لیے منصوبہ سازی کرسکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ''جدید دنیا میں اُس وقت مثبت نتائج برآمد ہوں گے جب سیاسی رہنماعوامی تعاون کی طرف جائیں۔ اب تک حکمرانوں کی طرف سے روا رکھی گئی آمرانہ پالیسیاں عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں‘‘۔ یقیناً عوامی تعاون کے بغیر ترقی کا تصور ناممکن ہے۔حکمران تنہا درپیش چیلنجز سے عہدہ برآ نہیںہو سکتے ۔ 
اس دوران ایک نظر اپنے موجودہ وزیراعظم نوازشریف پرڈالتے ہیں کہ کیا ان میں یہ صلاحیت موجود ہے؟ کیا ان میں جاندار فیصلے کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے؟ کیا وہ دوسروں کی بات سننے اوراس کی روشنی میں نتیجہ نکالنے کا ہنر جانتے ہیں؟دراصل آج کی دنیا میں صرف حکومت کرنا نہیں، معاملہ فہمی سے حکومت کرنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت آج اعداد وشمار کے کھیل سے ایک قدم آگے بڑھ گئی ہے۔ چند عشرے قبل برٹرینڈرسل نے کہا تھاکہ صرف جمہوریت نہیں، انٹیلی جنٹ جمہوریت کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ کیا ہمارے موجودہ حکمرانوں میں ضروری لچک موجود ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کا ناقدانہ جائزہ لے کر اپنے غلطیوں کو تسلیم کرلیں۔ اس کے لیے انہیں خوشامدیوںکے حلقے سے باہرآنا ہوگا جوایک دشوارکام ہے۔ طالبان کے حوالے سے تومیاں صاحب کو نہایت پھونک پھونک کرقدم رکھنا ہوگا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود کو عقلِ کل نہ سمجھیں بلکہ وسعتِ قلبی سے معاملے کا جائزہ لیں ۔ 
ایک اور تکلیف دہ احساس دل کو کچوکے لگاتا ہے کہ ایک ارب سے زائدآبادی رکھنے والے مسلمانوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو انسانی فلاح کے کاموں، کسی نئی ایجاد یا دنیاکوکسی نئے نظریے کی روشنی میں مشکلات سے نکالنے کا بیڑا اٹھاتے ہوئے عظمت کی بلندی کا سزاوار ہو سکے؟ دو سال پہلے Forbes Magazine نے جودنیا کے طاقتور ترین افراد کی فہرست شائع کی تھی، اس میں بھارت کے ڈاکٹر من موہن سنگھ اور سونیاگاندھی جبکہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل کیانی شامل تھے۔درحقیقت کیانی صاحب کو دنیا کا اٹھائیسواں طاقت ور ترین انسان قرار دیاگیا تھا۔ میگزین میں ان کی تصویر کے نیچے یہ الفاظ لکھے گئے تھے:''عدم استحکام کے شکار ملک پاکستان کے طاقت ور جنرل جن کے کنٹرول میں ملک کے ایٹمی ہتھیار ہیں۔ یہ دنیا کی طاقت ورترین افواج میں سے ایک کی قیادت کرتے ہیں‘‘۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے دفاعی اداروں سے بہت سے سوالات پوچھے لیکن ان میں سے بہت سوں کا جواب آنا ابھی باقی ہے۔ 
موجودہ فہرست میں پوپ فرانسس کا نام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اُنہیں''عوامی پوپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ حال ہی میں جب صدر اوباما نے ویٹی کن کا دورہ کیا تو امریکی صدر نے نہایت انکساری کامظاہرہ کرتے ہوئے جھک کر پوپ کو سلام کیا اورکہا : '' آپ سے ملنا بہت اچھا لگا۔ یہ میر ی خوش بختی ہے کہ میں آپ سے مل رہاہوں‘‘۔ یقیناً یہ فہرست ملالہ یوسفزئی کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی، اسے دنیا کے چونتیسویں طاقت ور انسان کے طور پر ماناگیا ہے۔ وہ یقیناً اس عزت افزائی کی اہل ہے کیونکہ وہ طالبان سے خوفزدہ ہوئے بغیران کے خلاف لکھتی رہی۔یقیناً سکول جانے والی ایک کم عمر بچی نے طالبان کو جتنا نقصان پہنچایا، اتنا تمام ڈرون مل کر بھی نہیں پہنچا سکے۔
ایک سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ ہمارے ہاں انسانیت کو فائدہ پہنچانے والے انسان جنم کیوں نہیں لیتے؟ ہمارے ہاںکوئی دانشوراس فہرست میں جگہ کیوں نہیں پاسکتا ؟ ہماری درسگا ہیں کوئی سائنسدان یا محقق پیدا کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟ کیا یہ بات طالبان سے مذاکرات سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیںکہ اس پر ہم سر جوڑکر بیٹھیں اوردیکھیں کہ خرابی کہاں ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں