نارمل خبطی

گزشتہ بدھ کو World Autism Day منایا گیا۔ اگرچہ ٹی وی اینکرز نے اس پر رسمی کارروائی کے طور پر زبانی جمع خرچ ہی کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں بیالیس لڑکوں میں سے ایک اور اسی لڑکیوں میںسے ایک اس سنگین دماغی اور نفسیاتی عارضے کا شکار ہے۔ فاکس نیوزاپنے ناظرین کو بتاتا رہا کہ جس گن مین نے فورٹ ہڈ ٹیکساس میں آرمی بیس میں فائرنگ کرکے تین افراد کو ہلاک کر دیا تھا، وہ ایک 'جہادی‘ تھا ۔ فاکس نیوز پر سنائی دینے والی سب سے بلند آواز کانگریس کے رکن پیٹر کنگ کی تھی جوانٹیلی جنس اور انسداد دہشت گردی کی ذیلی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ اُنہوں نے بلا تحقیق ہلاکتوں کا الزام جہادیوں پر لگادیا۔ وہ فوبیاکا شکار تو نہیں؟
پیٹرکنگ اور فاکس نیوزدونوں سراسر غلطی پر تھے، انہیں افواہیں پھیلانے پر شرمندگی کااظہارکرناچاہیے کیونکہ گن مین کوئی جہادی نہیں بلکہ ایک امریکی فوجی ہی تھا جوعراق جنگ کے دوران ڈیوٹی انجام دے چکا تھا۔ جنگ کے دوران دبائوکی وجہ سے وہ ذہنی انتشارکا شکار ہوگیا۔ درحقیقت چار میں سے ایک امریکی کسی نہ کسی نفسیاتی عارضے کا شکار ہے لیکن اگر آپ اس تعلیم یافتہ معاشرے میں کسی ماہر نفسیات کی تلاش شروع کریں تو احساس ہوگا کہ یہ کام بھوسے کے ڈھیر سے سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔
یہ autism کیا ہے؟ 2 اپریل اس نفسیاتی عارضے سے آگاہی کے دن کے طور پر منایا گیا۔ دنیا بھر سے آٹھ ہزار سے زائدقانون سازوں اور ماہرین نے اس میں حصہ لیتے ہوئے نیلی روشنی جلائی ۔ اس بیماری کے بار ے میں ابھی تک زیادہ تحقیق سامنے تو نہیں آئی تاہم عام طور پر اسے ایسی دماغی بیماری سمجھا جاتا ہے جو'' زندگی کے پہلے تین سال میں نمودار ہوتی ہے اور دماغ کی نارمل ترقی اور پیغام رسانی کی صلاحیتوں کو متاثرکرتی ہے‘‘۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ افراد مکمل طور پر autism کا شکار نہ ہوں لیکن ان کا رویہ غیر معمولی اور ان کی سوچنے کی صلاحیت میں یکسوئی کا فقدان ہوتا ہے۔ 
کیا بڑے لوگ بھی autism کا شکار ہوسکتے ہیں ؟یقیناً ! دنیا بھرکے سیاست دانوں کی سوچنے کی صلاحیتوں پر نظر ڈالیں تو شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ یہ سب کے سب سخت قسم کے نفسیاتی عارضوں میںمبتلاہیں۔اگر ان کے بیانات سنیں یا ان کے لکھے ہوئے مضامین پڑھیں یا ان کے طرزِ عمل پرنگاہ ڈالیںتویہی گمان گزرتا ہے کہ ان کے خیالات میں ہیجانی کیفیت برپا رہتی ہے۔ اس کا ایک بڑا ثبوت فاکس نیوزاور پیٹرکنگ کا رویہ ہے کہ انہوںنے فائرنگ ہوتے ہی اس کا الزام اسلامی جہادیوں پر لگا دیا اور جب حقیقت کھل گئی تو ان کی بیماری نے انہیں شرمندہ ہونے کی بھی اجازت نہ دی۔ 
جہاں تک پاکستانی سیاست دانوں کا تعلق ہے، ان کو لاحق نفسیاتی عارضوں کی تشخیص کرنا دشوار ہے۔ ہمارے ہاں لوگ کچھ زیادہ ہی طبی معلومات رکھنے کی وجہ سے اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ جیسے ہی وہ اپنے سیاست دانوں کے بے سروپا بیانات سنتے یا پڑھتے ہیں،ان کی آنکھوں میں مسکان (گودل میں تشویش) گہری ہوجاتی ہے اور وہ اپنی ایک نگلی ۔۔۔۔ عام طور پر دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کنپٹی سے کچھ اوپر لے جاکرہوا میں ایک دائرے کی صورت میں گھماتے ہیں، دوسرے افراد اس تشخیص سے اتفاق کرتے ہوئے اس علامتی اظہارکو الفاظ کا روپ دے دیتے ہیں۔ افسوس، ان میں سے اکثر الفاظ ناقابلِ اشاعت ہوتے ہیں ؛ تاہم انتخابات میں چونکہ عوام نے ووٹ انہی سیاست دانوں کو دینے ہوتے ہیں اس لیے گمان غالب ہے کہ اس موقعے پر اپنی تنہائی میں سیاست دان بھی اس عمل کو دہراکر عوام پر رائے زنی کرتے ہوں گے۔ ہمارے ہاں اسی 'گھمائی پھرائی‘ کا نام جمہوریت ہے۔ جب جنونی افراد کا ذکر کیا جائے تو ہمارا دھیان عام طور پر طالبان کی طرف چلا جاتا ہے، لیکن کیا ہمارے ارباب ِ اقتدار اس 'صفت ‘ سے مبّرا ہیں ؟ کیا ہم اپنے سیاسی قائدین اور انواع و اقسام کے مولانا حضرات کودماغی طور پر صحت مند کہہ سکتے ہیں ؟ دراصل ہمارے سیاسی رہنمائوں کے دو روپ ہوتے ہیں۔۔۔ جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں اورجب وہ اس کے لیے جدوجہد کررہے ہوتے ہیں۔ جب وہ اقتدار میں ہوں تو ان کی حماقتوں کو بھی' بصیرت‘ قرار دیا جاتا ہے اور جب وہ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو۔۔۔۔ پاکستان میں اقتدار سے باہر ہونے سے بڑا پاگل پن اورکیا ہوگا ؟
دراصل پاکستان میں کوئی بھی خودکو نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہونے کا اعتراف نہیں کرسکتا کیونکہ اس سے مراد پاگل ہونا سمجھا جاتا ہے حالانکہ پاگل حضرات اتنے بھی خبطی نہیں ہوتے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہمارے بچپن میں کوئی حماقت یا شرارت کرتا تو اُسے مذاق میں کہا جاتا کہ چلو تمہیں چارنمبر بس پر بٹھا دوں (اس وقت چار نمبر بس جیل روڈ پر موجود پاگل خانے جاتی تھی) مذاق کی بات اور ہے، ہم میں سے کوئی بھی اپنا نفسیاتی چیک اپ کرانا پسند نہیں کرتا۔ اپنے سیاست دانوں میں، جن کے بارے میں شواہد موجود ہیں کہ وہ دماغی امراض کے ماہرین سے ملتے رہے ہیں، ایک سابق صدر کا نام شامل ہے۔ نیویارک کے دو نفسیاتی معالجوں کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان کے ایک سابق صدر نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ سابق صدر نے دوران ِ قید جو اذیت برداشت کی، اس کی وجہ سے وہ 'جذباتی تنائو‘کا شکار ہوگئے اور ان کی یادداشت اور سوچ کے ارتکازکو نقصان پہنچا۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا شخص ذہنی تنہائی کا شکار ہوکر انتہائی اقدام کا بھی سوچ سکتا ہے۔ معلوم نہیں ان امریکی ماہرین کی رائے کس حد تک درست تھی لیکن مذکورہ سابق صدر کی طرف سے ایسے فیصلے ضرور دیکھنے میں آئے جنہیں سیاسی خود کشی قرار دیا جاسکتا ہے۔ بہرحال واجد شمس الحسن نے جنہیں‘ لندن میں ہائی کمشنر مقررکیا گیا تھا، ایسے معالج تلاش کرلیے جو انہیں صیحح الدماغ ہونے کی سند دینے پر راضی ہوگئے۔ 
یہ بات احمقانہ لیکن نارمل دکھائی دیتی ہے کہ جو افراد آپ پر حکومت کریں، وہ گرد و پیش کے معروضی حالات پر توجہ دینے سے قاصر ہوں۔ کیا سیاست دانوں کا انتخاب لڑنے سے پہلے کوئی نفسیاتی معائنہ کیا جانا چاہیے یا نہیں ؟ سابق امریکی صدر بش کا اصرار تھا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ اس پاگل پن میں کئی لاکھ افراد ہلاک کرڈالے گئے مگر ہتھیار نہ ملے۔ کیا بش اور ان کے حواری پاگل تھے یا باقی لوگ جو ان سے پوچھ بھی نہیں رہے کہ جناب صدر، ہتھیار تو برآمد کرائیں؟ مانا کہ اس دنیا میں انسانی جان بہت ارزاں ہے لیکن بہنے والا لہوکچھ تو نقش چھوڑ جاتا ہے۔ خود دنیاکے معتبر ترین اخبارات میں سے ایک ''نیویارک ٹائمز‘‘کواس کے رپورٹر جوڈتھ ملر نے پاگل بنایا کیونکہ اس نے عراق کے ہتھیاروںکے بارے میں جوبھی کہانیاں گھڑیں، اخبار انہیں شائع کرتا گیا۔ بہرحال ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جو تیزی سے ایک پاگل خانے میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ اگر نفسیاتی عارضوں کے پھیلائو کا یہی عالم رہاتونارمل افراد کے لیے عام آبادیوں سے الگ کچھ 'آبادیاں ‘ بنانی پڑیں گی کیونکہ ان کا اس دنیا میں گزارہ مشکل ہوجائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں