وعدے اور قسمیں وہی لیکن چہرے نئے ہیں۔ وزیرِ مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان بھر میں لوڈشیڈنگ چھ سے آٹھ گھنٹے یومیہ سے زیادہ نہیںہوگی۔ اوکاڑہ میں بات چیت کے دوران اُنہوںنے حکومت کی تعریف کی کہ اس کی پالیسیوں کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے، تاہم خیبر پختونخوا کے وزیر ِ اطلاعات شاہ فرمان نے عابد شیر علی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اتنی پھرتیاں نہ دکھائیں، حکومت کی تعریف کے پل باندھنے سے بجلی پیدا نہیں ہو جاتی۔ اس کے بعد مسٹر فرمان نے دھمکی دی کہ اگران کے صوبے میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم نہ ہوا تو وہ ملک گیراحتجاجی مظاہرے کریںگے۔ انھوںنے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔۔۔ ''پاکستان تحریک ِ انصاف کے کارکنان سڑکوں پر ہوں گے اور کسی بھی ناخوشگوار صورت ِ حال کی تمام تر ذمہ داری وفاقی حکومت پر ہوگی۔ ‘‘اُنھوں نے کہا کہ ان کی صوبائی حکومت وفاقی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ دائر کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔
جب بھی لوڈ شیڈنگ کے موضوع پر گرما گرم بحث کا آغاز ہوتا ہے تو چھوٹے صوبے، جیسا کہ سندھ اور خیبر پختونخوا دہائی دینے لگتے ہیں کہ بڑاصوبہ پنجاب، پیداہونے والی بجلی کا زیادہ ترحصہ اپنے استعمال میںلے جاتا ہے جبکہ وہ طویل گھنٹوں کے لیے بجلی کے بغیر موسم کی سختیاں برداشت کرتے رہتے ہیں۔۔۔ کچھ عرصہ پہلے پنجاب کو بھی یہی شکایت تھی۔ صوبوںکے درمیان توانائی کے مسئلے پر گرماگرمی، برقی رو کے تعطل کی وجہ سے گلیوں اور بازاروں میں ہونے والے پرتشدد احتجاجی مظاہرے، اسی دوران سیاسی جماعتوں (خاص طور پر جب وہ اقتدار سے باہر ہوں)کی طرف سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کو اپنے ایجنڈے میں نمبر ون قرار دینا اور اہم سیاسی کھلاڑیوں کی ٹی وی اور پارلیمنٹ میں دھواں دھار تقریریں اور بیانات‘ یہ سب ہر سال خاص طور پر موسمِ گرما میں، ایک دہرایا جانے والا ڈرامہ ہے۔ چنانچہ اس موسمِ گرما کے آغاز پر بھی صورت ِ حال ''معمول کے مطابق‘‘ ہے۔
سابق وزیر ِ اعظم راجہ پرویز اشرف کو کون بھلا سکتا ہے ؟ بہت قابل ِ رشک صحت کے مالک تو نہیں تھے لیکن تھے دلیر انسان۔ اُنھوں نے اپنے کندھوں پرپاور پلانٹس پر مبینہ طور پر وصول کی جانے والی کک بیکس کا وزن اٹھایا اور حاصل ہونے والی ''جمع پونجی‘‘ سے لندن میں جائیداد خریدلی اور ایسا کرتے ہوئے قوم سے ''راجہ رینٹل ‘‘کے لقب سے سرفراز ہوئے لیکن برا نہ منایا۔ جب اُنھوںنے قطعی لہجے میں کہا تھاکہ بہت جلد لوڈشیڈنگ پر قابو پا لیا جائے گا تو ہم نے ان کی بات پر یقین کرلیا تھا۔ تاہم ایسا کچھ نہ ہوا، لیکن نہ اُنھوںنے اپنی خو چھوڑی اور نہ ہم نے اپنی وضع(یقین کرنے کی )بدلی یہاں تک کہ موصوف وزیر ِ اعظم جا بنے۔ اس وقت واقعتاً امید پیدا ہوگئی تھی کہ اب راجہ صاحب ماضی کا کفارہ ادا کردیںگے۔ اس وقت تک لوگ اُنہیں '' راجہ بجلی ‘‘ کہہ کر پکارنے لگے تھے۔ کچھ مزاحیہ ٹی وی پروگراموں میں لتا جی کا ایک مشہور نغمہ ''راجہ کی آئے گی بارات ‘‘ بہت رش لینے لگاتھا۔ اس وقت راجہ پرویز اشرف کے پاس بہت اچھا موقع تھا کہ وہ اُن غیر ملکی سرمایہ کاروں کو واپس پاکستان آنے کی دعوت دیتے جنہیں ان کے ''باس‘‘ نے ڈرا کر بھگا دیا تھا ۔ ان میں سے بہت سے سرمایہ کار بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے تیار تھے۔ میں ذاتی طور پر ایک انویسٹر کو جانتی ہوں جنہیں اس ملک سے رات کے اندھیرے میں جان بچاکر بھاگنا پڑا کیونکہ اُنھوں نے ایک بڑی شخصیت کے ہاتھ اپنا پاور پلانٹ من پسند قیمت پر فروخت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک اور بزنس مین امریکہ سے اسلام آباد آئے ۔ ان کے ہمراہ امریکی سرمایہ کار بھی تھے۔ ان کی ملاقات اس وقت کی حکمران جماعت کے چیف سے کرائی گئی تاکہ وہ ڈیل طے کرلیں۔ تمام معاملات طے پاگئے لیکن اس ٹیم کو فوری طور پر واپس امریکہ جانا پڑا کیونکہ ان سے ''کسی ‘‘نے تیس فیصد کمیشن کا مطالبہ کیا تھا۔
یہ دونوں مثالیں جمہوریت کے اس دور میں ہونے والی بدعنوانی کے سمندر سے لیے گئے چُلو بھر پانی کے مترادف ہیں (اگرچہ یہ بھی محاورے کی حد تک اپنا مقصد پورا کرجاتی ہیں)۔ ایک اور صاحب، جنھوںنے وعدہ کیا تھا کہ پاکستانیوںکی باعزت زندگی یقینی بنائیں گے، وہ ہمارے سابق آرمی چیف تھے۔ جنرل کیانی صاحب نے اپنے فوجی جنرلوںسے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکہ کی طر ف سے فوج کو ملنے والی امداد کا رخ عوام کی بھلائی کے کاموں کی طرف موڑدیںگے۔ اُنھوںنے کہا تھا کہ جو رقم دفاعی بجٹ پر خرچ ہوتی ہے ، اُسے عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے خرچ کیا جائے گا۔میری خواہش تھی کہ ایسا ہی ہوتا، لیکن ان کے اچھے جذبات عملی صورت میں ڈھلتے دکھائی نہ دئیے۔
PEW (پاکستان اکانومی واچ) کے صدر مرتضیٰ مغل کا کہنا ہے ''توانائی کا بحران دہشت گردی سے بھی بدتر ہے‘‘۔ یہ بات سب جانتے ہیںاور ہر آن ایسے بیانات بھی ہمارے کانوں میں گونجتے رہتے ہیں لیکن اس بحران کے حل کی عملی صورت کیا ہے ؟ خیبر پختونخوا کے وزیر ِ اطلاعات شاہ فرمان اور وزیر مملکت عابد شیر علی کے لیے بہتر ہوگا کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے بیانات دینے کی بجائے عملی طور پر کچھ کر کے دکھائیں۔ اب عوام ان بیانات سے تنگ آچکے ہیں کیونکہ ان سے دوغلے پن کی بو آتی ہے۔ انہیں واپڈا کے سابق چیئرمین شکیل درّانی، جنہیں زرداری حکومت نے ستمبر 2012ء کو چلتا کردیاتھا، کی بات سننی چاہیے۔ انھوںنے 2011ء کے موسمِ گرما میں کہہ دیا تھا کہ اگلے سات سال تک، یعنی 2018ء تک، لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
نواز شریف صاحب نے بھی انتخابات سے پہلے بہت نعرے لگائے تھے لیکن اب انہیں احساس ہورہاہے کہ اس میں بہت سی دشواریاں حائل ہیں۔ ان میں سب سے بڑی دشواری سرمائے کی کمی ہے۔ اگر دیگر اقوام، جیسا کہ سعودی یا امریکی ، ہماری مدد کو نہ پہنچے تو یہ موسمِ گرم حکومت کے پائوں تلے زمین سرکا دے گا۔ پاکستان میں زندگی مشکل ہوتی جارہی ہے۔ دہشت گردی اور توانائی کے بحران کے لیے ہومیو پیتھک نسخے تجویز کیے جا رہے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی منصوبہ بندی ہے نہ ہی کوئی سوچ۔ بس بیانات کے بل بوتے پر ہی جمہوریت کا سفر جاری ہے۔