دہلی کے عظیم شاعر، جن پر لفظ 'عظمت ‘ حقیقی معنوں میں سجتا ہے، نے کہا تھا ؎
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
اگر محبت اتنی گنجلک ہے تو پھر نفرت کہاں سادہ ہوگی۔ خیر انسان کی طبیعت ان دونوں کا خطرہ مول لے لیتی ہے۔۔۔ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی اور کبھی نہ ختم ہونے والی جنگیں اس معروضے پر مہر ِ تصدیق ثبت کرتی ہیں۔ محبت اور نفرت اپنے لفظی معنوںکے علاوہ استعاراتی اور علامتی پہلو بھی رکھتی ہیں۔ اسی میں عافیت ہے۔ ہمارے سیاست دان اور دفاعی اداروںکے افسران کو بھی کچھ چیزوں سے پیار ہوتا ہے۔ایسا بعض اوقات لفظی معنوں میں ہوتا ہے اور بعض اوقات محاورات کی حد تک۔
پہلی مرتبہ مجھے 1986 ء میں اس بات کا احساس ہو اکہ ہمارے رہنما پاکستانی میڈیا کی نسبت غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں سے خاص لگائو رکھتے ہیں۔ ہم اپنے ٹیپ ریکارڈرز اور نوٹ بکس لیے اسلام آباد میں امینہ پراچہ کے گھر پر محترمہ بے نظیر بھٹو کا انتظارکررہے تھے۔ درحقیقت ہمیں محترمہ نے ہی یہاں جمع ہونے کی دعوت دی تھی۔ وہ اپنی طویل جلاوطنی کے بعد لند ن سے وطن واپس لوٹی تھیں اور ملکی سیاست کے اکھاڑے میں اترنے کے لیے تیار تھیں۔ جذباتی نعرے لگاتے اور ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب عوام نے کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں ان کا فقید المثال استقبال کیا تھا۔ ان کی پرکشش شخصیت کے ساتھ مستقبل کی بہت سی امیدیں وابستہ ہوچکی تھیں۔ جنرل ضیا نے بھٹو کی جواں سال بیٹی کو وطن واپس لوٹنے کی اجازت دے دی تھی۔ سیاسی پنڈت پیشین گوئیاں کررہے تھے کہ ان کی وطن واپسی سے ضیا کی آمریت کے دن گنے جاچکے ہیں۔ بہرحال اُس وقت پنجاب کی صوبائی حکومت نے محترمہ کے استقبالیہ جلوسوں کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی تھی۔
ہم مس پراچہ کے گھر سے ملحق باغ میں بیٹھے تھے۔ اسلام آباد میں محترمہ نے اسی گھر میں قیام کرنا تھا۔اس باغ میں ایک طر ف پاکستانی پریس تھاجبکہ ایک مقام غیر ملکی پریس کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ جلدہی بتایا گیا کہ غیر ملکی پریس کو گھر کے اندر بلایا گیا ہے۔ غیر ملکی نمائندے اندر چلے گئے جبکہ ہم انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ ایک گھنٹے بعد غیر ملکی میڈیا وہاں سے باہر آگیا۔ اس کے بعد ہماری باری تھی۔ تاہم ‘ ہمیں محترمہ سے سوالات پوچھنے کے لیے صرف پانچ یا دس منٹ ہی ملے ۔اگلے کئی برسوں تک میں نے مشاہدہ کیا کہ ہمارے سول اور فوجی حکمران غیر ملکی میڈیا کو نسبتاً زیادہ اعتماد میں لیتے ہوئے انہیں ایسے راز بھی بتادیتے تھے جن سے ''دیسی میڈیا ‘‘ بے خبر رہتا تھا۔ ہمیں بس ایسی معلومات ہی مل پاتی تھیں جنہیں عرف ِ عام میں ''چھان بورا‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہمارے سوالات کا براہ ِ راست جواب دینے کی بجائے اُس وقت کے رہنما اکثرہمیں ٹائپ شدہ بیان کی کاپیاں تھما دیا کرتے تھے۔ کسی حد تک یہ بات قابل ِ فہم تھی کہ ہمارے حکمران غیر ملکی میڈیا کے ذریعے عالمی برادری تک اپنی آواز پہنچانا چاہتے تھے۔
اس تمام کارروائی میں ستم ظریفی یہ تھی کہ وہ غیر ملکی نمائندے ہمارے حکمرانوں، جو ان کے سامنے خود کو بہت لبرل اور عالمی سوچ رکھنے والے رہنمائوں کے طور پر پیش کیا کرتے تھے، کی چکنی چپڑی باتوں میں نہیںآتے تھے اور نہ ہی وہ جو اُنہیں بتایا جاتا‘ اس کی کہانی بناکر اپنے اخباروں کو بھجواتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے حکمران ان غیر ملکی نمائندوںکو جو کچھ بھی بتاتے رہے، اس سے قطع ِ نظر ان کی بھجوائی گئی کہانیوں کی وجہ سے پاکستان کا امیج ایک ''ناکام ہوتی ہوئی ریاست ‘‘کے طور پر ابھرتا چلا گیا۔ اس وقت ہماری انفارمیشن منسٹری نے بھی آنکھیں بند کررکھی تھیں۔ اس نے پاکستانی میڈیا کو ترقی دینے کی بجائے ''گوروں ‘‘ پر انحصار کرنے کی پالیسی جاری رکھی۔ آج پاکستانی میڈیا بہت ترقی کرچکا ہے لیکن صورت ِ حال زیادہ تبدیل نہیںہوئی۔
تین غیر ملکی خواتین رپورٹرز سے کچھ حلقے واقف ہیں کہ کس طرح ان کی ریاست کے حساس ترین مقامات تک رسائی تھی اور پھر اُنھوںنے پاکستان کے ساتھ کیا کیا ۔ اُنھوںنے اسلام آباد میں اپنے قیام کے دوران تمام ''گندگی ‘‘ اکٹھی کی اور پھر اپنے وطن واپس جاکر کتابیں لکھیں اور ہمارے سول اور فوجی حکمرانوں کے تاریک پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔ان خواتین میں سے سب سے اہم نام کرسٹینالیمب کا ہے ، جس نے 1991ء میں کتاب ''Waiting for Allah‘‘ لکھی۔اس کتاب کے مندرجات سے پتہ چلتا ہے کہ جب بیس سالہ کرسٹینا لیمب فنانشل ٹائمز کی پاکستان میں نمائندہ تھی تو پی پی پی کے بہت سے وزراء کے علاوہ اعلیٰ افسران بھی لیمب کے ساتھ قربت کے متمنی تھے۔ جب مس لیمب نے ایک ایسے شب خون کے بارے میں رپورٹ لکھی جو کبھی واقع نہ ہوا تو بے نظیر بھٹو حکومت کے دوران ان کے وزیر ِ داخلہ اعتزاز احسن نے کرسٹینا کے ویزے کی مدت بڑھانے سے انکارکردیا ۔ اس پر ان کے اخبار نے اپنی نمائندہ کی طر ف سے غلط رپورٹنگ کرنے پر پاکستان سے معذرت چاہی اور اسے لندن واپس آنے کے لیے کہا۔ تاہم جب محترمہ کی حکومت ختم کی گئی تو کسی نہ کسی طریقے سے مس لیمب دوبارہ ان کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ اس کے بعد لیمب اور محترمہ کے درمیان 27دسمبر 2007ء کے سانحہ لیاقت باغ تک دوستی جاری رہی۔
اس کے بعد کیم بارکر ، جو ''شکاگو ٹریبیون‘‘ کی نمائندہ تھی‘نے ایک مقبول سیاستدان کے حوالے سے کچھ ناروا باتیں لکھی تھیں۔ اس نے اپنی کتاب ''The Taliban Shuffle‘‘ میں کچھ ایسی باتیں کیں کہ اُنہیں دہرایا جانا مناسب نہیں۔ تاہم اس سے ہمارے رہنمائوں کو سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ غیر ملکی صحافیوں کو اپنے اتنا قریب کیوںکرلیتے ہیں کہ وہ بعد میں پوری دنیا میں ان کی تضحیک کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ کارلوٹا گال(Carlotta Gall)، جو ''نیویارک ٹائمز‘‘ کی نمائندہ تھی، کابل کے علاوہ اسلام آباد اور ملک کے دیگر حصوں میں اپنے فرائض سرانجام دیتی رہی ۔ اس پر بھی ہمارے حکمران بہت مہربان تھے، لیکن اس نے بھی کتاب لکھ ڈالی ''The Wrong Enemy‘‘۔ اس میں اس نے پاکستان کو بدنام کرنے میںکوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ امریکہ کا اصل دشمن افغانستان نہیں، پاکستان ہے۔ کرسٹینا اور کم بارکر‘ نے جہاں پاکستان کی اہم شخصیات کے حوالے سے بہت لذیذ کہانیاں بیان کیں، مس گال کا انداز بھی دوٹوک رہا۔
اب جبکہ ہمارے ہاں میڈیا خاصا تنومند ہوچکا ہے لیکن رپورٹنگ کا معیار بہت تسلی بخش نہیں۔ دراصل، ماضی میں جس طرح غیر ملکی نمائندے ہمارے حکمرانوں اور ریاست کے بارے میں من پسند کہانیاں بناکر بھیجتے تھے، یہ کام ہم نے بھی سیکھ لیا ہے۔ آج ہمارے ہا ں معروضی صحافت خال خال ہے۔ کیا ہم ''غیر ملکی ‘‘صحافت میں خود کفیل ہوچکے ہیں؟