ضمیر نیازی کی صحافتی خدمات

اگرچہ ''The Web of Censorship‘‘ بیس سال پہلے تحریرکی گئی تھی لیکن پاکستان میں میڈیا کی صورتِ حال کے حوالے سے اس کی اہمیت آج بھی کم نہیںہوئی۔ جب میں نے ضمیر نیازی سے پوچھا کہ انہیں1994ء میں جب پاکستان میں جمہوری دورتھا، یہ کتاب لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی تواُنہوںنے جواب دیا کہ '' یہ غصے اور جھنجلاہٹ کوکنٹرول کرنے کی ہدایت کرتی ہے۔گزشتہ تین دہائیوںسے میں آزادی اظہار کے لیے جدوجہدکررہاہوں ،آج پریس بڑی حد تک آزاد ہے‘‘۔ پھراُنہوں نے مجھے یاد دلاتے ہوئے کہا: ''آج اخبارات کی اشاعت اور معیار بہت بہتر ہوچکاہے اور وہ اپنے ملازمین کو اچھی تنخواہیں بھی دے رہے ہیں، لیکن ان میں شائع ہونے والامواد دیکھ کر سوچ کسی اور طرف چلی جاتی ہے‘‘۔
پاکستان میں پریس کی آزادی کے لیے تنِ تنہا جنگ کرنے والے ضمیر نیازی کی مذکورہ کتاب امریکہ میں Ivy League یونیورسٹی کے طلبہ کے مطالعے کے لیے تجویز کی گئی ہے ۔ ضمیرنیازی پاکستانی پریس میںہونے والی مالی بدعنوانی اوراخلاقی اقدار کے زوال کے خلاف آواز بلند کرنے اور قلم کی حرمت کا خیال رکھنے کی تلقین کرنے والی واحد آواز تھے۔ اُنہوںنے مجھے بتایا :'' ہم سب برابرکے قصوروار ہیں‘‘۔ اُن کا خیال تھا کہ صحافی،کالم نویس اورمیڈیا ہائوسزکے مالکان پریس کی اس آزادی کو برقرار رکھنے میںناکام ہوگئے ہیں جسے بہت مشکل سے حاصل کیا گیا تھا۔ میری 
خوش قسمتی ہے کہ جب ضمیر صاحب اپنی آخری کتاب لکھ رہے تھے ، ان کا مجھ سے رابطہ رہتا تھا۔ جب میں امریکہ منتقل ہوگئی توہم فون اورای میلزکے ذریعے بھی تبادلہ ٔخیال کرتے رہے۔ وہ بہت شفیق اوراپنے کام کے حوالے سے بہت پروفیشنل تھے۔ صحافی برادری اور قلم کے تقدس کے لیے جنگ کرنے والے ضمیر صاحب نے ایک مرتبہ مجھے بتایا، ان کا جی چاہتا ہے کہ وہ اپنی کتاب '' The Press in Chains ‘‘ کا نام تبدیل کرکے ''The Books in Chains - libraries in Flames‘‘ رکھ دیں۔ دراصل ان کا خیال تھا کہ جس معاشرے میں کتب بینی کا ذوق ختم ہوجائے، وہاں معلومات کی فراہمی پراپیگنڈا سے زیادہ کوئی مقصد پورا نہیںکرتی۔ آج کے پاکستان میں ان کی بات بالکل درست ہے کیونکہ ہم یا توکوئی بات اندھادھند تسلیم کرلیتے ہیں یاردکردیتے ہیں ، ہم اس کا معروضی انداز میں تجزیہ نہیں کرپاتے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست دان اور زیادہ سے زیادہ طاقت وربن جانے والے ملا بڑی ڈھٹائی سے قوم سے جھوٹ بولتے رہتے ہیںاورہم'' عیار طبع خریدار ‘‘ دیکھ کر ''متاعِ سخن‘‘ کے ساتھ بک جاتے ہیں۔ 
اپنی زندگی پاکستانی پریس، تحقیق اور تجزیہ نگاری کے لیے وقف کردینے والے عالمی شہرت یافتہ دانشور اور صحافی ضمیر صاحب کواپنے قبیلے (صحافیوں) سے بہت گلہ تھا۔ اُنہیں یہ دیکھ کر افسوس ہوتاتھا کہ زیادہ ترصحافی حضرات ایک خاص مقام پر پہنچنے کے بعد مطالعے کی عادت سے دستبردار ہوکر خودکو عقل کُل سمجھنے لگتے ہیں، اور تو اور بہت سے سینئر ایڈیٹرزخود اپنے اخبارات بھی نہیں پڑھتے۔ ضمیر نیازی ایسے صحافیوںکو صحافت کے نام پردھبہ سمجھتے جو ہرقسم کی سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں لیکن اگرکچھ '' کسر ‘‘ رہ جائے تو اسے '' ظلم ‘‘ قرار دے کر شور مچانا شروع کردیتے ہیں۔ پریس میںہونے والی بدعنوانی پرکڑی تنقیدکرنے والے ضمیر نیازی کو پرائڈ آف پرفارمنس ملا لیکن اُنہوںنے کراچی کے چھ اخبارات کی بندش اورحکومت کی طرف سے شہر میں تشدد کنٹرول کرنے میں ناکامی پراحتجاج کرتے ہوئے 1995ء میں ایوارڈ اوراس کے ساتھ ملنے والی رقم واپس کردی۔ آج پریس پرکڑا وقت آئے توکچھ لوگ مٹھائیاں تقسیم کرنا شروع کردیتے ہیں۔ 
بارہ سال پہلے۔۔۔ 2002ء میں، مَیں نے ضمیر نیاز ی کے بارے میں ایک انگریزی اخبار میں کالم لکھاتھا۔ آج جبکہ میڈیا صحافیوں پر حملے کے بعدکے دور میں داخل ہوگیا ہے، اس کالم کے مندرجات زیادہ برمحل لگتے ہیں۔ اگرچہ جنرل مشرف اس بات پرنازکرتے تھے کہ پاکستان میں میڈیاکو فروغ دینے کا کریڈٹ ان کے سر ہے ( اور یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے ) لیکن اس دوران پاکستان کی ریاستی مشینری نے میڈیا کو غیر محسوس طریقے سے اپنے کنٹرول میں لینے میں مہارت حاصل کرلی ہے۔ اس کا کریڈٹ بھی جنرل صاحب کو ہی جاتا ہے۔ اکتوبر 1999ء میں اقتدار پر شب خون مارنے کے بعد جنرل مشرف نے قوم کے نام اپنے پہلے خطاب میں کہاتھاکہ آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں میڈیا ریاست کا اہم جز ہے۔ 2 فروری 2001 ء کو اپنے بیان میں اُنہوں نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا تھا: ''میں آزادیِ صحافت پر پختہ یقین رکھتا ہوں‘‘۔ ان کے دور میں یقیناً میڈیا نے ترقی کی نئی منازل طے کیں۔ اس سے پہلے ٹی وی اور ریڈیو ریکارڈ شدہ پروگرام نشر کرتے تھے لیکن اب میڈیا نے براہِ راست کوریج دکھانا شروع کردی ہے۔ کسی پروگرام کی ریکارڈنگ منسٹری آف انفارمشین کو دکھانے اور اس سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف کومیڈیا کی آزادی کی علامت کے طور پر دیکھا گیا۔ ان سے پہلے آمر حکمران میڈیا کو اپنا دشمن گردانتے تھے۔ جمہوری حکمران ( ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو ) بھی میڈیا کے حوالے سے زیادہ جمہوریت پسند نہ تھے۔ ان سب میںسے جنرل ضیاء کا رویہ میڈیا کے ساتھ سخت تھا جو ریاست پر اپنی مرضی کا اسلام نافذ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس دور میں ضمیرنیازی واحد صحافی تھے جو جنرل ضیاء کی آمریت کو چیلنج کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ جب اُنہوںنے اپنی کتاب '' The Press in Chains ‘‘ لکھی توکوئی پبلشر اسے شائع کرنے کے لیے تیار نہ ہوا کیونکہ سب خائف تھے ؛ تاہم کراچی پریس کلب نے ہمت کی اور اسے شائع کردیا۔اس کتاب میں مختلف ادوار میں میڈیا پرکی جانی والی سختیوںکی تفصیل ہے۔ 
1986ء میں جب ضیاء الحق کی آمریت بامِ عروج پر تھی، یہ نحیف وناتواں جسم، نرم آوازلیکن طاقت ور قلم رکھنے والے ضمیر نیازی تھے جنہوںنے ان کی طر ف سے پریس پر لگائی گئی پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ ان کی لکھی ہوئی کتابیں پریس کی آزادی کی مقدس دستاویزات بن گئیں، لیکن آج عملی طورپر میدانِ صحافت میں نام (اور پیسہ) کمانے والے کتنے صحافیوں نے ان کی کتابوںکا مطالعہ کیا ہے؟ اگر ان کا نام بھی سن رکھا ہو تو غنیمت ہوگی۔ اس مضمون کا مقصد صحافی برادری پر بے جا تنقید نہیں لیکن حالیہ دنوں پیش آنے والے کچھ واقعات نے ہمیں رُک کر سوچنے پر مجبورکردیا ہے کہ ہم سے یقیناً کوئی سنگین غلطی سرزدہوئی ہے۔ اپنا محاسبہ کرنے میںکوئی ہرج نہیں، لیکن پہلے غلطی تسلیم توکریں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں