اگر آپ کو طالبان کے ایک سابق رکن سے یہ سننے کو ملے کہ اس نے تحریک ِ طالبان اس لیے چھوڑ دی کہ اس کی قیادت تذبذب کا شکارتھی اور یہ کہ اس میں کسی فیصلے پر پہنچنے کی ہمت نہ تھی، تو آپ کو حیرت تو نہیںہوگی؟گمان ہے کہ طالبان کا سابق رکن بھی اپنی قیادت کو اسلام آباد کی قیادت کی طرح کنفیوژن کا شکار سمجھ رہا ہو جو اہم فیصلے وقت پر نہیںکرپاتی اور قیمتی وقت گنوا دیتی ہے۔ طالبان کے ایک سابق رکن کا کہنا ہے کہ وہ اور اس کے بہت سے ساتھی معمول کی زندگی بسرکرنا چاہتے ہیں کیونکہ جس مقصد کے لیے اُنھوںنے تحریک میںشمولیت اختیار کی تھی، اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ طالبان کے نمائندے کا کہنا ہے وہ شریعت (اپنی من پسند) کا نفاذ چاہتے تھے لیکن اب ان کو احساس ہورہا ہے کہ یہ اس طریقے سے ممکن نہیں۔
طالبان کے رکن کی کچھ ذرائع سے باتیں سن کر یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ وہ اور اس کے ساتھی چاہتے تھے کہ وہ بھرپور قوت استعمال کرتے ہوئے ریاست کو اپنی بات ماننے پر مجبور کردیں لیکن ان کی اعلیٰ قیادت نے یہ بات نہ مانی ۔ شاید اس کے پیش ِ نظر کوئی ''سیاسی‘‘ مصلحت تھی۔ اس کاکہنا تھا کہ پاکستان کے سول حکمران بدعنوان ہیں، اس لیے زیادہ ترلوگ ان سے تنگ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی ''متبادل‘‘ کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ اس ضمن میں انہیں متبادل سیاسی قوتوں پر بھی اعتماد نہیںرہا کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ یہ باری کا کھیل ہے۔ طالبان کے نمائندے کا کہنا تھا کہ ان کی طرح پاکستان کے لوگ بھی اس بات کے قائل ہوتے جارہے ہیں کہ انتخابات مسئلے کا حل نہیں، حصہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میںصرف دولت مند افراد حصہ لے سکتے ہیں۔ رزق ِ حلال انتخابی سرگرمیوں کے حوالے سے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ الزامات نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ ووٹ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں، اس کے لیے نیک اور صالح افراد کو ہی سامنے آنا پڑے گا۔
طالبان کی حکمتِ عملی سے ناراض ان کے منحرف ساتھی نے تسلیم کیا کہ ان کی عسکری قوت پاک فوج کے مقابلے میں کچھ نہیں لیکن اس نے معنی خیز مسکراہٹ سے کہا کہ اس جنگ کومرتکز کرنے کی بجائے پھیلایا جائے گا۔ ملک بھر میں ہمارے حامی موجود ہیں۔ چونکہ ان سے کوئی باز پرس نہیںکرتا، اس لیے گمان ہے کہ لوگ ہماری کامیابی کے متمنی ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ جب بہت سی سیاسی اور مذہبی جماعتیں ہماری حامی ہیں تو ہمارے خلاف فیصلہ کن کارروائی سے پہلے کئی مرتبہ سوچا جائے گا۔ اس کے علاوہ ایک اور تلوار بھی ہمارے خلاف کارروائی کا سوچنے والوں کے سر پر لٹکائی جاچکی ہے۔
طالبان کے رکن کو اس بات پر افسوس تھا کہ جب فضا اس قدر سازگار ہے تو اس کی قیادت عملی طورپرسامنے آکر پاکستانیوںکو اعتماد میںکیوں نہیںلیتی۔ اسے یقین تھا کہ اس صورت میں پاکستان میں اسلامی نظام (ان کی مرضی کا) لازمی طور پر نافذ ہوجائے گا۔ جب وہ اس وعدے سے سامنے آئیںگے تو لوگ ان کی بات مانیںگے۔ اس کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ان کے پاس سنہری موقع تھا۔ جب سابق حکومت این آر او اور پھر میموگیٹ کے الزام کی زد میں بوکھلاہٹ کا شکار تھی تو وہ وقت قیادت (طالبان ) کے سامنے آنے کا تھا، لیکن وہ موقع ضائع کردیا گیا۔
طالبان کے نمائندے کواپنی قیادت سے یہ بھی شکایت تھی کہ وہ عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ پاکستان میں ملاوٹ زدہ اشیا فروخت ہوتی ہیں، پانی ملا دودھ اور گوشت ، جعلی ادویات، مشہور برانڈز کی نقول فروخت ہوتی ہیں۔امیر غریب کافرق بڑھتا جارہا ہے، رشوت اور بدعنوانی عام ہیں ، بنائے گئے قوانین کا کوئی احترام نہیںکرتا تو انقلاب کے اس سے زیادہ موزوں اور کون سا وقت ہوگا؟
جب پوچھا گیا کہ وہ موجودہ تحریک ِ طالبان سے ناخوش ہے تو وہ کیا وہ کوئی الگ تحریک بنانے کا سوچے گا تو اس نے نفی میںجواب دیا۔ اس نے کہا کہ ان کی تحریک سیاسی بنیادوں پر نہیںچلائی جارہی۔ وہ احتجاجا ً الگ ہوا ہے لیکن جب وہ دیکھے گا کہ ان کی قیادت اب دانشمندی سے آگے بڑھ رہی ہے تو وہ پھر اسے اپنی خدمات غیر مشروط طور پر پیش کردے گا۔ اس کا کہنا تھا کہ ان کے نظریات ایک ہیں، بس طریقِ کار پر فرق ہے۔ یہ فقرہ سن کر مجھے ایسا لگا کہ جیسے میںیہ بات پہلے بھی کسی سے سن چکی ہوں۔ قارئین آپ نے بھی سنی ہوگی۔ مجھے یاد نہیںآرہا، آپ کو یاد آجائے تو مجھے ضرور بتائیے گا ، لیکن اگر آپ بھی میری طرح خائف ہوں تو پھر بھول جانے کی اداکاری ہی بہترین حکمتِ عملی ہے۔ جب پوچھا کہ پاکستانی میڈیا میںبھی ان کے لیے بہت سی حمایت پائی جاتی ہے تو اس نے نفی سے سرہلاتے ہوئے کہاکہ اگرچہ میڈیا پر بہت سے حلقے ہمہ وقت طالبان کے گن گاتے ہوئے ان کے خلاف آپریشن کی مخالفت کرتے ہیں یا اس جنگ کو امریکی جنگ (اس پر اس نے زوردار قہقہہ لگایا ) قرار دیتے ہیں لیکن یہ لوگ ناقابلِ اعتبار ہیں کیونکہ ایسے لوگ ۔۔۔۔(یہاںجو اس نے مثال دی وہ ناقابل ِ اشاعت لیکن قابلِ فہم ہے)۔ تاہم اس نے تسلیم کیا کہ ان افراد نے ڈرون حملوں کے دوران، جب کہ ان کی تحریک حقیقی مشکلات کا شکار تھی، ان کے حق میں اتنی آواز بلند کی کہ حکومت کو اس موقع پر کارروائی سے گریز کرنا پڑا ورنہ اگر طالبان کو شکست دی جاسکتی تھی تو وہ سنہری وقت تھا۔
عزیز قارئین نمائندہ فرضی ہوتو ہو، یہ انٹرویو حقائق پر مبنی ہے۔ دراصل ہم ایک ایسی جنگ لڑرہے ہیں جسے ہارنے کا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں لیکن ہم ابھی تک کنفیوژن کا شکار ہیں۔ تاہم یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ایسی ہی کنفیوژن ادھر بھی پائی جاتی ہے۔ پھر بھی ایک دھڑکا سادل کو لگارہتا ہے کہ ہمارے معاملات ، جن کی نشاندہی کی گئی،ا ن کو مزید حوصلہ دیںگے اور ہوسکتا ہے کہ ہم سے پہلے ان کی کنفیوژن دور ہوجائے۔ گویا اب یہ معاملہ دو کنفیوژنز کا ہے ۔۔۔ دیکھنا یہ ہے کہ کس کی پہلے دو ر ہوتی ہے۔