بھارتی جوہری عزائم

جس دوران میڈیا سیاست دانوں کے لایعنی بیانات نشر کرتے ہوئے قوم کو نہ ختم ہونے والی غیر ضروری بحث میں مصروف رکھتا ہے، عوام ریاست کی سکیورٹی کو لاحق اصل خطرات سے لاعلم رہ جاتے ہیں۔ اگرچہ کراچی میں پاک فوج کی حمایت میں نکالی گئی عظیم ریلی حب الوطنی کا ایک مستحسن مظاہرہ تھا لیکن اس کی وجہ سے بھی کئی گھنٹوں تک میڈیا کا فوکس پاکستان کی سرحدوں سے باہر نہ جاسکا۔ غالباً میڈیا پر یہ فرض ہوچکا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوںکی ریلیاں کئی گھنٹے تک دکھائے۔
بھارت کے جوہری عزائم پاکستان کے لیے خطرناک ہیں۔ گزشتہ ماہ اس نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ چالیس سال قبل قائم کیے گئے اس گروپ میں 48 اقوام شامل ہیں ۔ یہ اقوام ایک معاہدے پر کاربند ہیں کہ جوہری مواد کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال نہیںکیا جائے گا۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ بھارت ایٹمی صلاحیت کو بم بنانے کے لیے استعمال کررہا ہے۔ اس کے ایٹمی پروگرام کے فوجی اغراض و مقاصد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت اب اس گروپ میں شامل ہونے کا خواہش مند کیوں ہے؟ دراصل اس گروپ میں رکنیت حاصل کرنے سے نہ صرف بھارت کا ایٹمی سٹیٹس بلند ہوگا بلکہ اسے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق بھی حاصل ہو جائے گا۔بھارت کے ہمارے ایٹمی پروگرام پر کوئی اختیار حاصل کرنے کے خیال سے ہمارے حکمرانوں کی نیند حرام ہوجانی چاہیے، لیکن یہاں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ ہم کچھ جلسے کرکے، کچھ بیان دے کر اور کچھ نعرے لگاکر سمجھتے ہیں کہ قومی فریضہ ادا ہوگیا۔ 
خوش قسمتی سے بھارت کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کی درخواست ابھی التوا کا شکار ہے۔ اُسے اس گروپ میں اس وقت تک نشست نہیں ملے گی جب تک وہ یہ ثابت نہیں کردیتا کہ ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کے معاہدے پر عملی طور پر کاربند ہوچکا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے اداریے کے مطابق بھارت کے پاس۔۔۔''اس کاایک راستہ یہ ہے کہ وہ پاکستان اور چین کے ساتھ بات چیت کا راستہ اپنائے اور خطے کو خطرناک ہتھیارو ں کی دوڑ سے پاک بنانے کے لیے اقدامات کرے‘‘۔ نیویارک ٹائمز کے اداریے کے مطابق انڈیانے فی الحال اس تصور کو سامنے رکھتے ہوئے لابنگ کی ہے کہ دنیا اس بات پر یقین کرلے کہ ایٹمی ہتھیار رکھنا بھارت کے لیے تو درست ہے لیکن پاکستان کے لیے غلط۔ ماضی میںاس نے امریکہ اور کینیڈ ا کو چکما دے کر ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرلی کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے لیکن پھر اس نے1974ء اور 1998ء میں ایٹمی دھماکے کردیے۔ پاکستان کی طرح اس نے بھی این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ اس معاہدے کے رو سے امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس کے سوا تمام اقوام کو جوہری ہتھیار ختم کرنا ہوں گے۔ 
ایک مرتبہ بھارت سے دھوکا کھانے کے بعد ، امریکہ نے 2008ء میں بھی اس کے ساتھ پُرامن ایٹمی تجارت کے معاہدے پر دستخط کردیے۔ اس دوران پاکستان نے بھی توانائی کے بحران پر قابو پانے کے امریکہ سے ایسا ہی تعاون مانگا لیکن دوسری جانب سے انکار کردیا گیا۔ دلچسپی کی بات یہ تھی کہ امریکہ نے بھارت سے ایسی کوئی ضمانت نہیں لی کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیاروںسے دستبردار ہوجائے گایا آئندہ کے لیے ہتھیار بنانے کی راہ نہیں اپنائے گا لیکن جب پاکستان کی بات آتی ہے کہ اس پر کڑی شرائط عائد کی جاتی ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت مل کر بھارت کو اس گروپ کی رکنیت حاصل کرنے سے روکنے کی کوشش کریں کیونکہ، بقول نیویارک ٹائمز۔۔۔''اس میں رکنیت حاصل کرنے سے بھارت کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر 'ویٹو پاور‘ مل جائے گی‘‘۔ پاکستان صرف بھارت کو روکنے کی کوشش کرسکتا ہے لیکن یہ امیدنہیں کرسکتا کہ اسے بھی کبھی اس گروپ کی رکنیت حاصل ہوجائے گی۔ 
بھارت کی طرف سے اس گروپ کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، وہ اس طرح ہیں: پہلا یہ کہ اس نے آئی اے ای اے (انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی) کو اس کے سویلین ایٹمی پروگرام کا معائنہ کرنے کی اجازت دے دی ہے؛ تاہم ، جیسا کہ نیویارک ٹائمز کا کہناہے۔۔۔''بھارت کی اس میں جیت ہے کیونکہ وہ اپنے بڑھتے ہوئے فوجی مقاصد کے لیے ایٹمی پروگرام کی تصدیق کرنے کی اجازت نہیں دے رہا۔‘‘ ایک دفاعی ریسرچ گروپ کے مطابق یورینیم افزودگی کے پلانٹ میں توسیع سے بھارت خطے میں جوہری ہتھیاروںکی مسابقت میں اضافہ کررہا ہے ۔ اس سے پاکستان، جو دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کا تیز ترین پروگرام رکھتا ہے، کی تشویش میں اضافہ ہوجائے گا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بھارت نو ے سے سو کے درمیان ہتھیار رکھتا ہے جبکہ پاکستان کے پاس سو سے ایک سو بیس اور چین کے پاس دوسو پچاس غیر روایتی ہتھیار ہیں۔ 
بھارتی وزیر ِ اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر مسٹر اوباما کو ستمبر میں دورہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ اس وقت امریکہ میں طاقتور بھارتی لابی کام کررہی ہے جبکہ مودی بھی امریکی صدر کو شیشے میں اتارنے کی کوشش کریں گے۔ اس دورے میں بھارت امریکہ سے جو سب سے اہم رعایت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا وہ ایٹمی سپلائرز گروپ میں شمولیت اختیار کرنا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور مغربی طاقتیں بھی بھارت کے ساتھ قریبی روابط استوار کرنے میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ وہ بھارت کے ساتھ انرجی اور دفاعی معاہدوں میں شریک ہورہی ہیں۔ حال ہی بھارت کا برطانیہ کے ساتھ شارٹ رینج میزائل خریدنے کا معاہدہ منظر ِ عام پر آیا؛ تاہم اس معاملے میں ایک گتھی ہے جو بھارت کے لیے سلجھانا مشکل ہوگا۔۔۔ اگر وہ یہ مطلوبہ رکنیت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے ہمسائے، پاکستان، کے خدشات دور کرنا ہوںگے۔ 
اب ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مودی امریکی تشویش کم کرنے کے لیے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لیے تیار ہیں؟ یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے مسلمان اور پاکستان دشمنی کی بنیاد پر ووٹ حاصل کیے ہیں۔ وہ ہندو انتہا پسند جماعتوں کو ناراض کرنے کا خطرہ بھی مول نہیںلے سکتے۔ اُنھوںنے ڈاکٹر سنجیو بلیان (Dr. Sanjeev Balyan) کو زراعت کی وزارت دے دی ہے، اور اُن پر اپنے ضلعے میں مسلمانوں کو قتل کرنے کا بھی الزام ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ جب بھی اُنہیں مسلمانوں کو قتل کرنے کا موقع ملے گا، وہ ایسا کرنے سے ہر گز اجتناب نہیںکریںگے۔ اس کے بیان کے بعد کہیں دو ہندو قتل ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں قریبی دیہات سے ہندو مسلح جتھے نمودار ہوئے اور ایک گائوں میں ساٹھ کے قریب مسلمانوں کو ہلاک کردیا۔ اس اشتعال کا الزام ڈاکٹر بلیان پر لگاتھا۔ اب یہی آدمی مودی کی کابینہ میںہے اور مودی ایٹمی سپلائرز گروپ کی رکنیت چاہتے ہیں اور اس کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ اپنے ہمسایوں کے خدشات دور کرے۔کیا ہماری فوجی اور سیاسی قیادت اور اپوزیشن کے لیے کوئی مقام ِ فکر ہے یا نہیں؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں