بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے بعد عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا۔۔۔ ''ہمارے چیف صاحب ایک زبردست انسان ہیں، ذرا انتظار کریں اور دیکھیں کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ میں نے اس تحریک میں کسی سیاسی مقصد کے لیے شرکت نہیں کی تھی۔ ‘‘ان خوبصورت کلمات کی ادائیگی کے ٹھیک ایک سال بعد عمران خان نے اپنے موقف میں ''اصولی‘‘ تبدیلی پیدا کی اور جسٹس افتخار کے خلاف بیانات دینا شروع کردیے۔ انہوں نے اور ان کے ہزاروں انصاف پسند ''جیالوں‘‘ نے الیکشن کمیشن کو الزامات کی بوچھاڑ پر رکھ لیا اور کہا کہ اس نے کئی ماہ کی تیاری سے انتخابات میں دھاندلی کرائی۔ دیگر جماعتیں اس موضوع پر خاموش تھیں‘ حالانکہ شکست کھانے والے تقریباً سبھی رہنمائوں نے دبے لفظوں میں دھاندلی کی بات کی تھی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کے ساتھ طے شدہ اور کھلی ناانصافی کی گئی‘ ورنہ وہ کلین سویپ کرنے ہی والے تھے۔ یہ وہی عمران ہیں جو ہرشام چیف صاحب کی بحالی کے لیے مشرف پر چیختے چلاتے اور ہر قیمت پر جسٹس چودھری کو منصب پر بحال کرانا چاہتے تھے۔ 
گزشتہ انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد عمران خان نے اپنی توپوں کا رخ تبدیل کرلیا۔ اب ان کا ہدف جسٹس چودھری تھے۔ کچھ ناروا الفاظ ادا کرنے پر خان صاحب کو توہین ِ عدالت کانوٹس بھی بھیجا گیا لیکن انہوں نے غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کردیا اور کہا کہ ان کے ادا کردہ الفاظ میں کوئی شرمناک بات نہیںہے؛ تاہم بات بڑھتے دیکھ کر عمران خان نے کہا کہ انہوں نے سپریم کورٹ نہیں بلکہ ریٹرننگ آفیسرز پر تنقید کی تھی کیونکہ ان کے رویے نے اُنہیں مایوس کیا تھا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ ان کے اداکردہ الفاظ ایسے نہیں کہ اُنہیں سزا دی جاسکے۔ 
آج عمران کا لہجہ بہت بدلا ہوا ہے۔وہ کھل کر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری، نجم سیٹھی اور جسٹس رمدے پر الزامات لگارہے ہیں کہ ان سب نے مل کر انتخابات میں دھاندلی کرائی اور ان کوشکست سے دوچار کیا۔وہ انہیں حکمران جماعت کے اوپننگ بلے باز بھی قرار دیتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے یہ سب افراد بے داغ کردار کے مالک سمجھے جاتے تھے اور معاشرے کا کوئی دھڑا اُن پر انگلی نہیں اٹھاتا تھا لیکن عمران خان کے الزامات نے قوم کو سکتے کا شکار بنا دیا۔ اس وقت اہم قومی رہنما، جیسا کہ آصف زرداری جمہوریت کے چمپئن دکھائی دیتے ہیں تاہم قوم کو یاد ہے کہ بعض سیاست دانوں کی دھاندلی، بدعنوانی ، اقربا پروری اور کمیشن خوری نے ہی ملک کا یہ حال کیا ہے۔ صرف جمہوریت کی بات کرنے سے(وہ بھی صرف زبانی حد تک) گناہوں کا مداوا نہیںہوجاتا۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ ہماری جمہوریت ان برائیوں کا تدارک نہیںکرسکی اور علامہ قادری اور عمران خان کا موقف ہے کہ بدعنوانی اور دھاندلی کے ہوتے ہوئے جتنے مرضی انتخابات ہوجائیں، کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ 
آج ریاست ِ پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ شہری تعلیم، صحت، روزگار اور تفریح کی سہولیات سے محروم ہیں۔ معاشرے کے زیادہ تر طبقے خوش ہونا بھول گئے ہیں۔ ہر چہرے پر‘ بقول ولیم بلیک،اداسی اور غم کی پرچھائیں ہیں۔ لوڈ شیڈنگ نے زندگی کو مفلوج کررکھا ہے۔ ان تمام مسائل کی جڑ بدعنوانی ہی ہے‘ اس لیے بدعنوانی کے خلاف جنگ صرف انتخابات تک ہی محدود نہیںہونی چاہیے۔ دنیا کی کوئی ریاست ان جرائم کو جمہوریت کی آڑ میں چھپانے اور مجرموں کے بچ نکلنے کی اجازت نہیں دیتی ، لیکن پاکستان میں اصل جمہوریت تو نہیںہے لیکن ہر جرم کے سامنے جمہوریت کو لاکھڑا کیا جاتا ہے۔ آمریت کے خلاف دوجملے بولنے سے انسان کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں، لیکن کیا اس سے پاکستانیوںکو کوئی فائدہ پہنچتا ہے؟عمران خان کی یہ بات بھی درست ہے کہ یہاں انتخابات نہیں، باریاں طے ہوتی ہیں۔ کچھ مخصوص جماعتیں، کچھ مخصوص خاندان، کچھ شخصیات۔۔۔۔ بس یہی ہیں ہماری جمہوریت کے کُل اثاثے۔ کچھ ادھر سے اُدھراور کچھ اُدھر سے ادھر، انتخابی نتائج کاچکراس محور سے نہیں ہٹتا۔
ہمارے ہاں انتخابی دھاندلی کی شکایات نئی نہیں لیکن جس طرح عمران خان نے کھل کر جسٹس چودھری‘ مسٹر رمدے اور نجم سیٹھی پر الزامات عائد کیے ہیں، اس کی ہمارے ہاں کوئی مثال نہیں ملتی۔ فی الحال انہوں نے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دیے لیکن فوزیہ قصوری کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہیں۔ ایک ٹی وی پروگرام میں اینکر نے فوزیہ قصوری سے سوال کیا کہ کیا یہ بات عجیب نہیں کہ الزامات پہلے لگادیے ہیں اور ثبوت بعد میں دیے جائیں گے۔ اس پر فوزیہ قصوری کا کہنا تھا کہ چودہ اگست کو بہت کچھ سامنے آجائے گا اور اسلام آباد میں بہت سے رازوں پر سے پردہ اٹھے گا اور وہاں بقول شاعر۔۔۔''ہونے کوآج دارورسن کا ہے اہتمام۔۔ ۔ آئیںگے آج برسر ِ الزام نیک نام‘‘ ۔ تاہم اگر ان کے پاس ثبوت موجود ہیں تو پھر ماڑ دھاڑکرتے ہوئے اسلام آباد جانے کی کیا ضرورت ہے، وہ ثبوت تو کہیں بھی دیے جاسکتے ہیں۔ ان کا کیس یقینی طور پر مضبوط ہے، لیکن اس اہم قومی مسئلے کو تشدد کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا اسلام آباد پہنچنا ضد بن چکا ہے لیکن قوم چاہتی ہے کہ ان الزامات کے ثبوت دیے جائیں۔ اس کالم کی اشاعت تک خان صاحب عازم سفر ہوچکے ہوںگے۔۔۔ ان کے بحفاظت سفر کے لیے دعاگوہوں ، کیونکہ اگرثبوتوںکے بغیر یہ میلہ اجڑ گیا تو یہ ایک قومی سانحہ ہوگا۔ 
ان تینوں شخصیات پر لگائے گئے الزامات یقینا دل خراش ہیں (خاص طور پر اگر ثبوت فراہم نہ کیے گئے)۔ جسٹس چودھری کو بحال کرنے کی تحریک ہماری قومی زندگی کا ناقابلِ فراموش باب ہے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے بہت عمدہ ''ڈرائیونگ ‘‘ کی ۔ ان کے لانگ مارچ تشدد سے پاک تھے اور عملی طور پر کوئی گملا تک نہ ٹوٹا۔ بعض مواقع پر پولیس نے تشدد کیا اور بعض وکلا نے بھی ''عامر خان‘‘ بنتے ہوئے مکہ بازی کی مہارت میں نام کمایا، لیکن مجموعی طور پر وہ تحریک پُرامن تھی۔ لانگ مارچ کے راستے میں آنے والے ہر شہر، ہر قصبے اور ہرگائوں کا ہر شخص جسٹس چوہدری کو چاہتا تھا اور ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھنٹوں راستے میں کھڑا رہتا تھا۔ اسی طرح جسٹس رمدے بھی چیف کے دست ِر است بن کر ابھرے۔ ان کے بہت سے تاریخ ساز فیصلے قوم کو یاد رہیںگے۔
آخر میں مسٹر نجم سیٹھی پر الزامات کی بوچھاڑ سے کم ازکم مجھے سخت صدمہ ہوا ہے۔ انہوں نے بطور ایڈیٹر میری حوصلہ افزائی کی اور میں جو بھی لکھتی تھی، انہوں نے کبھی میرا ہاتھ نہیں روکا۔ میںنے بہت دلیری سے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف لکھا، لیکن سیٹھی صاحب کی پیشانی شکن آلود نہ ہوئی۔ اس کے بجائے انہوں نے ہمیشہ ہماری ہمت بڑھائی۔ ان کی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ انہوں نے کبھی اپنے جونیئرز کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ بہت ذہین انسان ہیں(جو وہ یقینی طور پر ہیں)۔ ان کے رویے میں اپنائیت اور حوصلہ افزائی پائی جاتی تھی۔۔۔ لیکن یہ بیس سال پہلے کی باتیں ہیں۔ آج ان کا دامن بہت سے الزامات سے بھرا ہوا ہے۔ جہاں ان کے مخالفین نے ان الزامات کو ثابت کرنا ہے، وہاں سیٹھی صاحب نے بھی خود کو بے گناہ ثابت کرنا ہے۔ عمران خان سے استدعا ہے کہ لانگ مارچ کا نتیجہ جو بھی ہو، وہ ان کے خلاف الزامات کا ثبوت ضرور دیں‘ ورنہ وہ قومی ذمہ داری سے انحراف کے مرتکب ہوںگے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں