میں نے بیس نومبر 2011 ء کو ایک کالم لکھا۔۔۔''بڑا جلوس ایک بڑا لیڈر نہیں بنادیتا‘‘ اور پھر کیا تھا، تمام قلم کاروں نے مجھ پر تنقید شروع کردی ۔ میں نے عمران کے لاہور میں کیے جانے والے تاریخی جلسے کے بعد یہ کہنے کی جسارت کی تھی کہ ایک لاکھ سے زائد افراد کو جمع کرلینے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ایک کامیاب سیاست دان بن چکے ہیں۔ جب بہت سے کالم نگار پاکستان میں امڈتی ہوئی تبدیلی کے آثار دیکھ کر بے خود ہورہے تھے، میں سوچ رہی تھی کیا واقعی عمران خان پاکستان کی تقدیر بدل سکتا ہے؟ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا۔۔۔'' جب میں مینار ِ پاکستان کی وسیع وعریض گرائونڈ میں عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو دیکھ رہا تھا تو مجھے احساس ہورہا تھا کہ اب ہمیںکوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ انقلاب آچکا ہے، سونامی آچکا ہے۔ ہم اگلے انتخابات میں صرف کامیابی ہی حاصل نہیں کریں گے، ہم کلین سویپ کردیں گے۔‘‘
یہ پہلا موقع تھا جب عمران نے لفظ ''سونامی‘‘ استعمال کیا۔وہ دن اور آج کا دن، ا س لفظ کی تکرار نے لوگوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔ کچھ کا خیال ہے اصل سونامی اتنا تکلیف دہ یا تباہ کن شاید نہیں ہوتا جتنی اس لفظ کی تکرار۔ میری خان صاحب سے عاجزانہ اپیل ہے کہ خدارا، اس لفظ کا استعمال موقوف کردیں۔ معروف کالم نگار اور پی ایم ایل (ن) کے سابق رکنِ اسمبلی ایاز امیر نے دی گارڈین کو بتایا۔۔۔ ''ایک نئی سیاسی قوت ابھر رہی ہے۔ پاکستان بھر میں تبدیلی کی ہوا چل رہی ہے۔ میں نے کبھی پاکستان میں نوجوانوں، بوڑھوںاور عورتوںکی آنکھوں میں ایسی چمک نہیں دیکھی تھی ‘‘۔ تاہم اس چمک کی تعریف نے مسٹر ایاز امیر کی ان کی جماعت سے چھٹی کرادی اور اُنہیں اگلے انتخابات میں چکوال سے ٹکٹ نہ ملا۔
سب لوگ عمران کی تعریف کررہے تھے لیکن مجھے خدشہ تھا کہ ان کے گرد بہت سے ایسے افراد جمع ہوچکے ہیں جو کئی جماعتیں بدل چکے ہیں۔ ان کو کئی مرتبہ آزمایا جاچکا تھا اور لوگ ان سے مایوس ہوچکے تھے۔ میںنے لکھا۔۔۔''اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ عمران خان بہت نیک وکار ہیں اور ان کے ساتھ صرف فرشتہ صفت افراد ہی شامل ہوںگے تو آپ غلطی پر ہیں۔ یقینا وہ اچھے کردار کے مالک ہیں لیکن ان میں اتنا صبر اور تحمل نہیں ہے جو ریاست کے معاملات چلانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اگرقوم اُنہیں نجات دہندہ مان لے توبھی ان کے پاس ایسی ٹیم نہیں ہے جو معاملات چلانے کی اہلیت رکھتی ہو۔ ‘‘میرا خیال تھا کہ اگر سچائی کے پیمانے پر جانچ کی جائے تو شاید کوئی رہنما بھی پورا نہ اترے۔ اس لیے پاکستان میں ہمیں فرشتوں کی بجائے نسبتاً باصلاحیت افراد کی طرف دیکھنا چاہیے۔
پاکستانی سیاست دانوں میں مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کا پسِ منظر اُنہیں فوجی اداروں کے قریب لے جاتا ہے۔ عمران نے بھی کسی طور مشرف کی حمایت کی تھی، تاہم پاکستان کے معروضی حالات میں‘ کوئی سنگین جرم نہیں اور نہ ہی لائقِ تعزیر ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو انقلابی قسم کے رہنمائوں کی بھی ضرورت نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں اتنے انقلابی ہیں کہ پاکستانی قوم کو ان پر کوئی اعتماد نہیں رہا۔ ہر کوئی پاکستان کو ایشین ٹائیگر۔۔۔ لندن، پیرس اور خداجانے۔۔۔ کیا کچھ بنانے کا دعوے دار رہا ہے۔ یہا ں عوام کو بجلی کیسے فراہم کرنی ہے اور ٹیکس دینے اور نئے ڈیم بنانے کے لیے کیسے آمادہ کرنا ہے، یہ کسی کو پتہ نہیں ۔ معمولی جراحت کسی کے پاس نہیں لیکن مردہ کو زندہ کرنے کا دعویٰ سب کرتے ہیں۔
عمران خان نے بھی لاہور کے جلسے کے بعد یہ تاثر ابھارا کہ صرف وہی پاکستان کو مشکلات کے گرداب سے نکال سکتے ہیں۔ اس لیے یہ نیک فریضہ سرانجام دینے سے پہلے تمام سیاسی نظام کو چوپٹ کرنااور تمام سیاسی کھلاڑیوں کو میدان سے آئوٹ کرنا ضروری ہے۔ جب میں نے عمران پر اعتراض کیا تو مسعود شریف خٹک، جو اُس وقت عمران کی جماعت میں شریک ہوچکے تھے، نے مجھ سے اتفاق نہ کیا۔ انھوںنے مجھے ای میل بھیجی۔۔۔''مجھے عمران خان پر غیر متزلزل اعتماد ہے۔ ان کا چاہے کتناہی سیاسی نقصان نہ ہوجائے، وہ کبھی بھی چلے ہوئے کارتوسوں اور وفاداری تبدیل کرنے والے لوٹوں کو اپنی جماعت میں نہیں لیں گے۔ پی ٹی آئی میں بدعنوان افراد کے لیے کوئی جگہ نہیں۔‘‘ اس کے ایک سال بعد مسٹر خٹک نے پی ٹی آئی سے کنارہ کشی اختیارکرلی۔
آج عمران ہزاروں کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ وہ موجودہ اسمبلیوں کو نہیں مانتے(فی الحال استعفے دینے کی غلطی نہیں کی )۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ وزیرِ اعظم سے استعفیٰ لیے بغیر واپس نہیں جائیںگے۔ اس طرح اُنہوںنے انتہائی موقف اپنایا ہے اور تادمِ تحریر اس میںکوئی لچک دکھانے کے روادار نہیں۔ اس دھرنے نے ملک کو سیاسی بحران میں مبتلا کردیا ہے۔ اس کی معاشی قیمت بھی ادا کرنی پڑرہی ہے۔ تاہم عمران خان کو جمہوریت کے پٹری سے اترجانے کا بھی کوئی خدشہ نہیں کیونکہ ان کے نزدیک ملک میں جمہوریت نامی کوئی چیز موجود ہی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جمہوریت ہوگی تو پٹری سے اترے گی۔
اس وقت ٹی وی پر تجزیہ کار اس بات پر رات دن ایک کیے ہوئے ہیں کہ اس بحران کا حل کیا ہے؟ یہ جمود کیسے ٹوٹے گا؟ اگر حکومت سختی کرے تو جانی نقصان ہوگا اور اگر نہ کرے تو یہ جمود زندگی کو مفلوج کردے گا۔ عمران وہاں اکیلے نہیں، بلکہ علامہ طاہرالقادری بھی سترہ شہیدوں کا بدلہ لینے اور نظام کی اصلاح کرنے کا بیڑا اٹھاکر وہیں موجود ہیں۔ حکومت کے پاس آپشنز کم ہوتے جارہے ہیں۔ ہر گزرنے والا دن بحران کی سنگینی کو بڑھارہاہے۔
اس وقت اگر عمران ایک بات کی تفہیم کرناچاہیں تو وہ یہ ہے کہ حریف کو مکمل طو رختم کرنے کی بجائے اسے ڈرانا زیادہ سود مند ہے۔ اگر وہ نواز شریف حکومت کو اس احتجاج کے نتیجے میں ختم کردیتے ہیں تو پھر لکھ رکھیں،وہ چاہے انتخابات جیت کیوں نہ جائیں، نوازشریف اُنہیں حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ حکومت میں نوازشریف کے پاس احتجاج کرنے والے کارکن نہیں ہیں لیکن ایک مرتبہ آپ اُنہیں اپوزیشن میں دھکیل دیں تو پھر ان کی احتجاجی اور انتقامی سیاست کے رنگ دیکھئے گا۔ تاہم اگر عمران حکمران جماعت کی طرف سے دی جانے والی زیادہ سے زیادہ رعایتوں کو کافی سمجھیں تو وہ حکمران جماعت ان کی آنکھ کے اشارے سے بھی خائف رہے گی اوروہ مزے سے اپوزیشن میں رہتے ہوئے جوچاہے منوا لیں گے۔ اس کے بعد جب وہ کبھی انتخابی کامیابی حاصل کرتے ہیں تو نوازشریف ان کے خلاف کبھی بھی لانگ مارچ نہیں کر سکیں گے۔ اب یہ فیصلہ عمران نے کرنا ہے کہ کیا اُنہیں ایک خائف سیاسی حریف چاہیے یا جارحانہ دشمن؟بطور فاسٹ بائولر وہ جانتے ہیں کہ کسی فاسٹ بائولر کوبائونسر مارنے کا کیا انجام ہوتا ہے؟