وہ باتیں تری ، وہ فسانے ترے

نیوجرسی میں اپنے گھر کے بیس منٹ میںہم ٹی وی پر گھنٹوں پاکستانی چینلز دیکھتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ اسلام آباد میں نواز شریف اور عمران خان کے درمیان کشیدگی اب کیا رخ اختیار کررہی ہے اور معاملات کس نہج پر ڈھل رہے ہیں۔ہم ٹی وی پروگراموں کے شرکا کی طویل گفتگو سنتے ہیں، تاہم اس گفتگو میں شور شرابا تو بہت ہوتا ہے لیکن کوئی جاندار تجزیہ نہیں ہوتا۔ ہر کوئی یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ عمران خان، ڈاکٹر قادری، نواز شریف، افضل خان یا جاوید ہاشمی کو کتنے قریب سے جانتا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اس طرح کی ذاتی ''آشنائی ‘‘ کی بنیاد پر کی گئی بات چیت کو سیاسی تجزیہ کہا جاسکتا ہے۔ بعض احباب کو تو دوران ِ پروگرام اہم شخصیات کے ٹیکسٹ میسج بھی آتے رہتے ہیں اور وہ بہت فخر سے دوسروں کو بتاکر ان کا دل جلاتے ہیں۔ اس کی بجائے کسی صورت ِحال کا غیر جانبداری سے بے لاگ اور معروضی انداز میں جائزہ لینا ہی ایک سیاسی تجزیہ کار کی ذمہ دار ی ہوتی ہے۔ چونکہ زیادہ تر تجزیے ذاتی آشنائی اور ''اُس موقعے پر میں بھی موجود تھا‘‘ کی بنیاد پر ہوتے ہیں، اس لیے جہاں یہ دونوں ''سہولیات ‘‘ میسر نہیں ہوتیں وہاں افواہوںاور افسانہ گری سے کام چلایا جاتا ہے۔ 
نیویارک ٹائمز کے بل کیلر (Bill Keller)نے ایک مرتبہ اپنے میڈیا کے کنبے کو'' بے کیف لکھاری، عقلمندبلاگ لکھنے والے اور کیف آفریں باتیں کرنے والے‘‘ گروہ کے طور پر بیان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافی بنتے ہی انسان آپے سے باہر ہونے کا مرض پال لیتا ہے، خاص طور پر جب وہ خود کو ایک کونے میں گھرا ہوا پائے۔ جہاںوطن ِ عزیز میں ''دیسی مسحور کن باتیں کرنے والے تجزیہ کاروں‘‘ کا تعلق ہے تو ان گفتگو میں تحقیق و جستجو کی کمی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں تحقیقاتی رپورٹنگ کا رواج کم کم ہے، حالانکہ اس سے وہ مواد سامنے آتا ہے جس کا تجزیہ کیا جانا ہوتا ہے۔ جب شرکاء کی باتیں سنیں تو سب سے پہلا یہ احساس جاگزیں ہوتا ہے کہ بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے سے اختلاف کرنے والے اس گروہ میں کم از کم ایک قدر مشترک ہے۔۔۔ ان میںسے کسی نے بھی آئین ِ پاکستان کو پڑھنے کی زحمت نہیںکی۔
آج نواز شریف کو اقتدار میں آئے ہوئے کم و بیش سولہ ماہ ہوگئے ہیں۔ اس عرصے میں اُن کی کارکردگی کیا ہے؟ انہوں نے اپنے انتخابی وعدوں کو کہاں تک نبھایا ہے؟وہ اپنے منشور پر کہاں تک عمل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟کیا ذاتی الزام تراشی کے علاوہ تجزیہ کاروں میںسے کسی نے قوم کی رہنمائی کی کہ نواز شریف حکومت اپنے منشور کی روشنی کامیابی کی طرف جارہی ہے یا ناکامی کی طرف؟صحافی کا فرض کہانیا ں گھڑنا نہیں بلکہ عوام کو باخبر رکھنا ہے۔ اگر اُنھوںنے دیومالائی کہانیاں ہی پڑھنی یا سننی ہیں تو پھر بہتر ہے وہ ہیری پورٹر یا لارڈ آف رنگز پڑھ لیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے زیادہ اینکرز اور سینئر صحافی نرگسیت کا شکار ہیں۔ وہ اپنی ذاتی رائے کوہی حتمی سمجھ کر ڈٹ جاتے ہیں اور ٹی وی سٹوڈیومیں اس قدر چیخ وپکار کرتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں مچھلی منڈی ایک پرسکون جگہ محسوس ہوتی ہے۔ 
اس وقت جبکہ قوم ٹی وی سکرین پر نگاہیں جمائے بیٹھی ہے، اینکرحضرات اور تجزیہ کار مہمانوںکے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ہیجان خیز ی کی بجائے قوم کو حقائق سے آگاہ کریں اور یہ بھی بتائیں کہ ان دھرنوں کی وجہ سے قومی کو معاشی طور پر کتنا نقصان پہنچا ہے۔ اس کے لیے اندازہ نہیں بلکہ مستند اعداد و شمار پیش کیے جائیں اور دھرنا دینے والے قائدین اور ان کے نمائندوںسے اس نقصان کی تلافی کی بابت پوچھا جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سازش کی تھیوریوں سے اجتناب کیا جائے تاکہ عوام کا میڈیا پر اعتماد بحال ہوسکے۔ 
دھرنا دینے والے گزشتہ دو تین ہفتوںسے اپنے گھروں سے باہر ہیں۔ کیا ان افراد کے اہل ِ خانہ سے میڈیا نے رابطہ کیا ہے؟ کیا دھرنا کے شرکا کی مرضی معلوم کی ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان میں شامل بہت سی خواتین ایسی ہوں جو واپس جانا چاہتی ہوں لیکن اُنہیںان کے رہنما اجازت نہ دے رہے ہوں؟ہمیں ان مظاہرین کی سوچ سے آگاہی حاصل کرنی ہوگی کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں اور ان کی منزل کیا ہے؟
میڈیا میں یہ بات بھی کہی گئی کہ سول اور حساس اداروں پر لگنے والے الزامات کی تحقیق ہونی چاہیے۔ بالکل درست، لیکن یہ کام کرے گا کون؟ یہ ایک پرخطر کام ہے اور شاید کوئی صحافی بھی اس میں ہاتھ ڈالنا پسند نہ کرے۔ تاہم ایک اور عملی اور مثبت کام جس میں میڈیا عوام کی رہنمائی کرسکتا ہے، وہ معاشرے کو سازش کی تھیوریوں سے نجات دلاناہے۔ مہذب معاشروں میں میڈیا کو ترقی دینے کا بنیادی مقصد افواہوں اور مفروضوں کا قلع قمع کرتے ہوئے عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا تھا۔آج ہمارے میڈیا پر یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی رہنمائی کریں اوراُنہیں حالات کے دھارے میں بہہ کر جذباتی ہونے کی بجائے معروضی انداز میں اُنہیں پرکھنا سکھائیں۔ آج کل جب کہ جمہوریت اور انتخابی عمل کی تطہیر کی بات ہورہی ہے، ضروری ہے کہ حکومتی اخراجات کم کرنے کی بھی بات کی جائے۔ کیا ہمیں اتنی بھاری بھرکم کابینہ کی ضرورت ہے ۔کیا سیاسی جماعتوںکو ساتھ ملانے کے لیے وزارتیں دینے کی حوصلہ شکنی نہیں ہونی چاہیے؟چین کی آبادی ڈیڑھ ارب سے تجاوز کررہی ہے لیکن وہاں چودہ وزراء کام سرانجام دے رہے ہیں۔ بھارت ایک ارب ستائیس کروڑ کی آبادی رکھتا ہے لیکن وہاں کی لوک سبھا میں صرف بتیس وزرا ہیں۔ بتیس کروڑ کی آبادی رکھنے والے امریکہ میں چودہ، تیرہ کروڑ کی آبادی کے ساتھ برطانیہ میں بارہ وزرا کام کررہے ہیں لیکن سترہ کروڑ کی آبادی والے پاکستان کے وزرا کی تعداد اگر کوئی حکومتی اہل کار بھی بتادے تو مان جائیں۔ہر ایک پاکستانی وزیر پر ریاست 1.9 ملین ڈالر سالانہ خرچ کرتی ہے۔ 
ان اخراجات کے علاوہ ان شرفا کو بہت سی سہولیات ملتی ہیں۔ ہر وزیر کو سالانہ پچاس ہزار یونٹ بجلی مفت ملتی ہے ۔ ان کے ہاں لوڈ شیڈنگ بھی نہیں ہوتی۔ ہر ایک کو پینتالیس وی آئی پی ائیرٹکٹ مفت ملتے ہیں جبکہ ہر ماہ ایک لاکھ تک کا موبائل فون کا بیلنس ان کی خدمت میں مرحمت کیا جاتا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ میڈیا اور عدلیہ کو ان حقائق کا علم ہوگا۔ اس کے علاوہ سیاست دانوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کے اپنے ذاتی کاروبار ہوتے ہیں۔یہ لوگ بہت بڑی جائیدادوں، فیکٹریوں، کاروباروں اور سرمائے کے مالک ہیں۔ ان میںسے اکثر کا سرمایہ غیر ملکی بینکوں میں بیرون ِ ملک محفوط ہوتا ہے۔ یہ لوگ کچھ عرصہ پہلے دولت مند نہیںتھے لیکن انہوں نے اپنی سیاسی حیثیت اور سرکاری عہدے سے فائدہ اٹھاکر دولت کے ڈھیرلگا لیے ۔ اگر حکمران طبقے اور عوام کے درمیان کوئی سیاسی رابطہ نہ ہو تو سیاست یا جمہوریت محض لوٹ مار ہی رہ جاتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں