عظیم شخصیات اور پاکستانی رویہ

ملالہ یوسف زئی کو ملنے والے نوبل انعام نے اس کے مداحوں اور نقادوں کو میدان میں ایک دوسرے کے خلاف صف آراکردیا ہے کہ آخر اسی نوجوان لڑکی کو وہ انعام کیوں مل گیا ہے۔ جب اس کی خواہش پوچھی گئی توسترہ سالہ ملالہ نے کہا۔۔۔'' میں ایک اچھی سیاست دان بننا چاہتی ہوں۔ ‘‘ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کیا اُس کا پاکستان لوٹنے کا خواب پورا ہوتا ہے یا قتل کردیے جانے کا خوف اُسے بیرون ِ ملک پناہ لیے رکھنے پر ہی مجبور کردیتا ہے۔ کیا وہ سیاست کے میدان میں آسکتی ہے یا کسی کی سیاست کا شکار ہوجاتی ہے؟
جس دوران پاکستان میں یہ بحث پوری شدومد سے جاری ہے کہ ملالہ سے زیادہ عبدالستار ایدھی اس انعام کے زیادہ حقدار تھے، ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہم نے پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ شخص کے ساتھ کیا کیا؟ اُنہیں بھی ملالہ کی طرح ملک چھوڑنا پڑا اور جب وہ اس جہان سے رخصت ہونے کے بعد اس وطن میں دفن کیے گئے تو ان کی قبر بھی ہمارے انتقام کا نشانہ بنی۔ ان کی یاد کو اس طرح بھلا دیا گیا جیسے وہ کچھ تھے ہی نہیں۔ آج پاکستان کے کتنے لوگوں کو علم ہے کہ یہ ڈاکٹر عبدالسلام تھے، جنھوں نے ''خدائی ذرات‘‘ (God particle) کی دریافت میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسال پہلے اس مشن پر کام کرتے ہوئے اس ذرے کا عملی طور پر پتہ لگالیا گیا۔ اس ذرے کے بارے میں کہا گیا کہ یہ تخلیق کے مراحل کی تفہیم کا ایک گمشدہ ''باب‘‘ تھا جو مل گیا ہے۔ اس کو تلاش کرنے کے لیے سات ہزار سائنسدانوں نے دس بلین ڈالر کے اخراجات کے ساتھ دوسال تک کام کیا۔ یہ تجربہ فرانس اور سوئس سرحد کے نزدیک زیر ِ زمین بنکر میں کیا گیا۔ آخر کارسائنسدان کائنات کی بنیادی اساس کی جھلک پانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس سے انہیں پتہ چلا کہ کائنات میں ایک ایسی نادیدہ توانائی موجود ہے جو خالی جگہ کو پُرکرتی ہے۔ 
اس توانائی کا خالق کون ہے؟اس خدائی ذرے کا نام دراصل ہگز بوسن ہے۔ اسے ایڈن برگ یونیورسٹی کے پیٹر ہگز اور ایک بھارتی ریاضی دان، ستند را ناتھ بوس ، کے نام سے منسوب کیا گیا ۔ ان دونوں نے 1964ء میں اس ذرے کی تلاش شروع کی۔ تاہم اس دوران ہم نے ڈاکٹر عبدالسلام کو فراموش کردیا۔ Sebastian Abbot of Associated Press کی رپورٹ کے مطابق ۔۔۔'' پاکستان کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان، عبدالسلام کی اس میدان میں کی جانے والی پیش رفت نے خدائی ذرہ تلاش کرنے میں مدد دی،لیکن مرحوم سائنسدان کی اپنے وطن میںکوئی پذیرائی نہیں۔ اُنہیں نصابی کتب سے بھی نکال دیا گیا ہے۔‘‘پرویز ہودبھائی نے اے پی کو بتایا۔۔۔''جس طرح عبدالسلام کے ساتھ ہم نے برتائو کیا وہ ایک سانحے سے کم نہیں۔ اُنہیں پاکستان میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اگر وہ کبھی یہاں آتے تو قتل کردیے جاتے۔ ‘‘جب وہ ذرہ دریافت ہوا تو ہمیں چاہیے تھا کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے اور ہمارے وزیر ِ اعظم اور صدر ِ مملکت آگے بڑھ کر ان کی سائنس کے میدان میں خدمات کو سراہتے اور اس دریافت کاسہرا پاکستان کے سر باندھتے۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر صاحب ،جس دنیا میں بھی ہیں، کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہوتا ، بلکہ وہ اعلیٰ ظرف انسان کے طور پر اپنے اور اپنی قبر کے ساتھ روارکھی جانے والی بدسلوکی کو بھی فراموش کردیتے۔ 
ہمارے موجودہ وزیر ِ اعظم، نواز شریف صاحب حالیہ دورہ ِ نیویارک کے دوران ایک مہنگے ہوٹل میں قیام کی یادوں میں محوہوں گے۔ اب لاہور ہائی کورٹ وزیر ِا عظم کو ہدایت کررہی ہے کہ وہ ہوٹل اخراجات کے بل پیش کریں۔ افسوس، وزیر ِ اعظم کو یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں ، لیکن اس کی ذمہ داری ان کے سوا کسی اور پر عائد نہیںہوتی۔ کیا وہ بھارتی وزیر ِ اعظم کی طرح سادگی سے نیویارک میں نہیں رہ سکتے تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے ڈاکٹر عبدالسلام کے خلاف عوام کے جذبات کو بھڑکایا، وہ بھی مذہبی اعتبار سے کوئی بہت مثالی انسان نہ تھے۔ اب یہی ذہنیت ملالہ کے خلاف ہے۔ جب ہگز بوسن ذرات فزکس کے میدان میں انقلابی تبدیلی لاتے ہوئے نئی ٹیکنالوجی کو فروغ دیںگے تو کیا یہ لوگ ، جن کے ہاتھ میں نئے قیمتی موبائل فون اور ان کے استعمال میں مہنگی گاڑیاں ہیں، اُس ٹیکنالوجی سے استفادہ نہیں کریں گے؟کیا ہماری منافقت کا سفر کہیں ختم ہوگا؟
کائنات میں توانائی موجود ہے اور یہ توانائی کسی الہامی ذریعے سے آتی ہے۔ اسے ضائع کرنا گناہ اور اسے دریافت نہ کرنا کوتاہی کے زمرے میں آتاہے۔ یہ توانائی انسانیت کی فلاح کے لیے ہے۔ اسے دریافت کرنے والے کون ہیں؟خدانے انسانوں کے دلوں میں محبت، بردباری، تحمل، ایمانداری اور انسان دوستی کا جذبہ بھی رکھا ہے۔ ان جذبات کا اظہارنہ کرنا بھی گناہ ہے۔ ہم سائنس کی دنیا میں تو بہت پیچھے تھے ہی،یہ اچھے جذبات بھی ہماری زندگی میں گزر نہیں رکھتے۔ آخر ہم کیا ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں؟ملالہ سے کون سا گناہ سرزد ہو گیا ہے جس کی معافی نہیں ہے۔ بعض مذہبی علماء خودساختہ روایات کا سہارا لے کر اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ہماری مقدس کتاب اس کائنات پر غور کرنے کے لیے دعوت ِ فکر دیتی ہے لیکن ہم سائنس کوخود پر حرام کیے ہوئے ہیں۔ اس رویے کی وجہ سے ہم کئی صدیوںسے دنیا میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔کیا کوئی اس کی ذمہ داری اٹھائے گا ؟ ہم نظریات سے انکار، سائنسی حقائق کورد لیکن ان کے نتیجے میں وجود میں آنے والی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے میںکوئی حرج نہیں سمجھتے۔ وہ تمام افراد، جو ملالہ کو مغربی ایجنٹ قرار دے رہے ہیں، وہ خود کسی بھی قیمت پر یہ مقام حاصل کرنے کے لیے تیار ہو جائیںگے۔ 
دراصل آج کا پاکستان جب تبدیلی کے مراحل سے گزررہا ہے، ہمیں سیاسی ارتقا کے ساتھ ساتھ اس طرف بھی دیکھنا ہے۔ جب تک ہم موجودہ ذہنیت سے جان نہیں چھڑاتے، دقیانوسیت، سازش کی تھیوری اور دنیا کو فتح کرنے کے جذبے جان نہیں چھڑاتے، ہمارے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہے گا۔ اس ضمن میں پاکستانیوں کے پاس سیاسی رہنمائی نہ ہونے کے برابر ہے، ہمارانصاب دقیانوسی اور طریقہ تدریس دنیا سے صدیوں پیچھے ہے، ہم فکری رہنمائی کے لیے کس طرف دیکھیں۔ درحقیقت قیام ِ پاکستان کے بعد ہمارے پاس ایک اچھا موقع تھا کہ ہم سائنس اورتعلیم پر سرمایہ کاری کرتے ہوئے دنیا کو بتاتے کہ یہ ہے اسلام کی فتح کہ ہمارے پاس دین کی طاقت بھی ہے اوردنیا بھی۔ بابائے قوم کے پیش ِ نظر یہی ہوگا لیکن بعد میں ، آنے والے عشروں میں ہماری سوچ جاگیرداروں اور ملائوں کے پاس رہن رکھی گئی۔ اسے آزاد کیسے کرایا جائے؟ کیا آج ایک مرتبہ پھر ملالہ ہماری سوچ کے لیے لٹمس ٹیسٹ تو نہیں؟کیا ہم اس امتحان میں ایک مرتبہ پھر فیل ہونے جارہے ہیں؟ یاد رہے، یہ امتحان مغرب کی طرف سے نہیں ، فطرت کی طرف سے ہے۔ اس نے اقوام کی جانچ کرنی ہوتی ہے۔ ہم اس جانچ میں پاس ہوں گے یا فیل؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں