دھرنوں اور ریلیوں کا ملک

جس دوران دنیا کو بہتر، خوشگوار اور زیادہ صحت مند بنانے والے باصلاحیت افراد کے شاندار کارناموں کو عملی طور پر سراہنے کے لیے نوبل انعام پانے والوں کے ناموں کا اعلان کیا جارہا ہے، پاکستان کے پاس دنیا کو دکھانے کے کیا ہے؟ اس کے دفتر میںپیش کرنے کے لیے کیا ہے؟ بالکل کچھ نہیں، صفر کے سوا کچھ نہیں۔ ہماری اہم ترین پیش کش سیاست دان ہیں جو نیم غنودگی کے عالم میں پاکستان کو دنیا کا نمبر ون ملک بنانے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن مزید قرضے لینے اور قومی وسائل کی لوٹ مار کو اپنا شعار بنالیتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ غنودگی، نیم یا دبیز ، کے عالم میں ہرگز نہیںہوتے۔ 
سیاسی جماعتوںکی لُوٹ مار سے عوام کی حالت بہت پتلی ہوچکی ہے اور ان کے پاس تفریح کا کوئی موقع نہیں ، اس لیے چند ہزار افراد، آدمی، عورتیں، بچے جلسوں میں جاکرخوشی منالیتے ہیں کیونکہ آج کل جلسوں میں رقص و موسیقی اور کھانے پینے کا اہتمام ہوتا ہے۔ کچھ شرکا ء کو کیش دے کر لائے جانے کی بھی شنید ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عوام کا کچھ تو بھلاہورہاہے اور پھر غریب عوام کی تفریح طبع کا کچھ توسامان ہونا چاہیے تاکہ معاشی اور سماجی مسائل مع بجلی کے بل، ان کی کمر نہ توڑدیں۔شام کے وقت روشنیوںسے سجے، موسیقی اور سیاسی نعروںسے گونجتے ہوئے گرائونڈ، جس کے چاروں طرف میڈیا کی گاڑیاں اور فضا میں چکرلگاتے ڈرون کیمرے ہوں جبکہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوںنے شوخ اور دلکش رنگ کے ملبوسات زیب تن کیے ہوئے ہوں، سے بڑھ کر کون سی جگہ ہوسکتی ہے؟ اور پھر۔۔۔ ''ایک ہنگامے پر موقوف ہے گھر کی رونق۔‘‘ مرزا کا وقت ان جلسوں سے بہت پہلے لد گیا تھا ورنہ وہ نغمۂ شادی کے متمنی نہ ہوتے۔ میں شرط لگا کرکہہ سکتی ہوں کہ لوگ اس پر بہت کم توجہ دیتے ہیں کہ بلٹ پروف شیٹس کے پیچھے چھپے پا بلند کنٹینروں پر ایستادہ مقررین کیا کہہ رہے ہیں اور نہ ہی وہ ایسا کچھ سننے جاتے ہیں۔ جو کچھ پنڈال میں دکھائی یا سنائی دیتا ہے(تقریروں کے علاوہ) وہ اُس پر ''چشم ما روشن ، دل ِ ما شاد‘‘ کہتے اور اگلے جلسے کی تاریخ اور مقام نوٹ کرتے ہوئے واپس آجاتے ہیں۔ 
عظیم الشان ، تاریخ ساز اور نہر سویز کے اس پار فقید المثال جلسے میں عوام کی تعداد کو میڈیا جس طرح رپورٹ کرتا ہے یا دکھاتا ہے، اُس کی حقیقت خواص تو کیا گھر بیٹھے ہوئے عام افراد بھی جانتے ہیں۔ قلم اور کیمرہ کچھ بھی کرسکتے ہیں!عوام کو چکما دینے کا سلسلہ جاری اور عوام بھی۔۔۔''بک جاتے ہیں ہم آپ متاع ِ سخن کے ساتھ، لیکن عیار طبع خریدار دیکھ کر۔‘‘ دنیا کے ہمارے حصے میں ایسے عیارطبع خریداروں کی کمی نہیں۔ پہلے دو ادوار میں نواز شریف کی طرف سے عوام سے کیے گئے جھوٹے وعدے یادداشت کا حصہ ہیں۔ اُس وقت وہ پاکستان کو ایشین ٹائیگر کہا کرتے تھے۔ جب مشرف اقتدار میں آئے تو ان کی اہم ترین پیش کش شوکت عزیز تھے جنھوں نے قوم کو معاشی خوشحالی کے خواب دکھائے۔ اُس وقت لفظ ''ٹائیگر ‘‘ مستعمل نہ تھا ، ا س لیے موٹر سائیکلوں اور موبائل فونوں کی تعداد گن کر خوشحالی کا اندازہ لگاتے رہے ۔ جہاں تک زرداری صاحب اور ان کی ٹیم کا تعلق ہے تو اُنھوں نے کوئی وعدہ نہیں کیا، بس کام کیا۔۔۔۔ رات دن کام ، کام اور صرف کام۔ جلد ہی ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا لیکن جمہوری حکومت کی مدت کی تکمیل کی خوشخبری عوام کے کانوںمیں رس گھولتی رہی۔ اب صاحبزادہ صاحب بلاول بھٹو زرداری میدان میں کود پڑے ہیں۔۔۔ کہا جارہا ہے کہ ''لانچ ‘‘ کردیے گئے ہیں۔ وہ چلاچلا کرکہہ رہے ہیں کہ وہ شیر کو جال میں ڈالنا جانتے ہیں ۔ 
جلسوںسے ہٹ کر دیکھیں تو بدعنوانی اور نااہلی کے ہاتھوں جاں بلب معیشت بھی ایک کونے میں تھر تھر کانپ رہی ہے ، لیکن جلسوں اور متحرک دھرنوں کے جوش سے زمین لرز رہی ہے۔ شاعر ِ لاہور ساغر صدیقی نے بہت جرأت سے کام لے کر کہا تھا۔۔۔ ''معبدوں کے چراغ گُل کردو، قلب ِ انسان میں اندھیرا ہے۔‘‘ لیکن آج غریب آدمی کی معاشی سکت تو ایک بلب کا بل ادا کرنے کے قابل نہیں لیکن جلسوں کی چمک سے نگاہیںخیرہ ہیں۔عام آدمی کی قوت ِخرید ختم لیکن سیاسی رہنمازندہ اور پائندہ تر اور اُن میں سے جو اس دنیا سے چلے گئے ہیں، کے مزارات کے جاہ وجلال کے سامنے زندہ انسان ماتھا رگڑ رہے ہیں۔ یہ کون سی جمہوریت ہے، کون سی روایات ہیں۔ دنیا کے اور کس ملک میں جمہوریت کے نام پر ایسی شخصیت پرستی ہوتی ہے؟قومی ہیروہرقوم میںہوتے ہیں لیکن وہ زندہ انسانوں کے ملک ہوتے ہیں۔ 
آج ایشین ٹائیگرز کو بھول جائیں، آج ہمارے درمیان طالبان اور داعش کا سرایت کرتا ہوا نظریہ ہے۔ کیا یہ مانا جاسکتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو علم ہی نہ ہو کہ کیا ہورہا ہے۔ تمام ذمہ داران جانتے ہیںکہ پاکستان کے چاروں طرف دہشت گرد اور انتہاپسند گھیرا تنگ کررہے ہیں ۔ ان کا نظریہ ملک میںجمہوری عمل کو چیلنج کررہا ہے لیکن ہم صرف بندوق سے لڑرہے ہیں۔ بندوق سے انتہا پسندی کا End User ہی واصلِ جہنم ہوتا ہے، لیکن اس سے پہلے ان کے انفراسٹرکچر سے لڑنا کس کی ذمہ داری ہے؟ سیاسی اورسول قیادت مفلوج ہو تو فوج کہاں تک ان سے لڑے گی؟ ہمارے حکمران اپنے مورچوں میں دھنسے ہوئے ہیں اور سیاسی جماعتیں دھرنوں اور جلسوںمیں توانائی ضائع کررہی ہیں۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے دھرنوں کی نگرانی کرتے کرتے تھکاوٹ کا شکار ہیں۔ کیا طالبان کے لیے شہری علاقوں میںاپنے نظریات کی یلغار کے لیے اس سے زیادہ کوئی اور سنہری موقع ہوگا؟
اپنے آخری وقت پر جنرل ضیاکو خطرے کا احساس ہوچلا تھا اور وہ ہرممکن طریقے سے انہونی سے بچنے کی کوشش میں تھے۔ جولوگ اُس وقت ان سے آرمی ہائوس راولپنڈی میں ملتے تھے، وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں۔ تاہم موت فضائوں میںبھی ان کے تعاقب میں تھی۔ آج ہمارا حال اُن سے بھی برا ہے کیونکہ ہم پچاس ہزار افراد کی ہلاکت کے بعد بھی خطرے کو بھانپنے کے لیے تیار نہیں۔ آج یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ہم مصر ، عراق یا شام نہیں ہیں۔ بالکل درست، ہمارے عسکری ادارے بہت طاقتور ہیں لیکن داعش بھی طالبان نہیں ۔ وہ ہم پر خودکش حملے کرنے کے موڈ میں نہیں، بلکہ ہمارے تعلیمی اداروں اور اہم اداروں میں سرائیت کرنا اور عوام کو جمہوریت سے ہٹا کر خلافت کے لیے قائل کرنا ان کا ٹارگٹ ہے۔ اس کے خلاف کون مورچہ بند ہے؟ کیا بلاول؟ کیا زرداری؟ کیا ڈاکٹرقادری ؟کیا عمران؟اور رہے نواز شریف تو وہ تو ان سے اورکچھ ناروا نعروںسے چھپنے کی کوشش میںہیں۔ اس لیے انتہا پسندوںکے لیے میدان صاف ہے۔ 
افسوس جس وقت پاکستان انتہا ئی خطرات سے گھرا ہوا ہے، اس کے رہنما بلاول اور نواز شریف ہیں۔ جس دوران ہمیں مالی مشکلات نے گھیراہواہے ،سوئس بینک کے واقف ِحال کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے لیکن پاکستانی نہیں۔ ان کے اٹھائیس ٹریلین روپے ان کے ہاں پڑے ہوئے ہیں۔ چند سال پہلے ایک پاکستان نے مجھے بتایا کہ اگر ہمارے رہنما اپنی دولت واپس لے آئیں اور ملکی خزانے میں بے شک جمع نہ کرائیں لیکن یہاںانویسٹ کر دیں تو اگلے تیس سال تک کے لیے پاکستان ٹیکس فری بجٹ بنا سکتا ہے۔ ہم ساٹھ ملین نئی ملازمتیں پیدا کرسکتے ہیں اور تمام ملک میں سڑکوں کا جال بچھ سکتا ہے۔ تاہم ہمارے حکمرانوںکی پہلی ترجیح آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لے کر پاکستانیوں کی زندگی اجیرن بنانا ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں