فیصلے قلم بند کرنے کی بجائے‘ جیسا کہ جج حضرات اکثر کرتے ہیں، بعض اوقات اچھا ہوتا ہے کہ نتائج پر پہنچنے سے پہلے زبانی بحث کرلی جائے تاکہ اُس کیس میں اگرکوئی ابہام ہوتو دور ہو جائے۔ اس بحث سے جج حضرات میں اتفاق ِ رائے پید ا ہونا ضروری نہیں اور نہ ہی اس کا یہ مقصد ہوتا ہے ، لیکن پھر بھی ایک دوسرے کے خیالات سے آگاہ ہونا ،اُن کی باتیں سننا اور باڈی لینگوئج کو دیکھنا مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ لکھا ہوا فیصلہ تو طویل اور بے کیف زبان میں ہوتا ہے اور شنیدن صرف گفتن اوربرخاستن تک ہی محدود نہیں ہوتی۔
حال ہی میں جب امریکی سپریم کورٹ کے نو جج صاحبان ایک لفظ ''Accompany‘‘کی وضاحت پر متفق نہ ہوسکے۔ ہم عام شہری،جو آئینی ڈکشنری سے ناواقف ہوتے ہیں، اتنا ضرور جانتے ہیں کہ آئینی اور قانونی موشگافیوں کے علاوہ عام زندگی میں بھی الفاظ کے معانی بدل جاتے ہیں۔ جب جج حضرات کو کسی لفظ کے معانی میں ابہام پیدا ہوجائے تو پھر یقینا چیف جسٹس صاحب کو آگے بڑھ کر معانی کی گتھی سلجھانی ہوتی ہے ۔اسی طرح آئین میں استعمال ہونے والی زبان کو سمجھنے کے لیے بھی ایک خاص ذہنی اپروچ درکار ہوتی ہے۔ عدالت میں پیش کیا جانے والا ہر کیس کسی نہ کسی خاص لفظ کے معانی پر بنیاد رکھتا ہے اور اس کے فیصلے کا دارومدار بھی کسی لفظ کی تشریح پر ہی ہوتا ہے۔عدالت میں وکلا کی مغز ماری اور جج حضرات کی توجہ کا ارتکاز انہی الفاظ کے گردہوتا ہے۔
اب واپس امریکی سپریم کورٹ میں جہاں نو جج صاحبان لفظ ''Accompany‘‘ کے معانی پر متفق نہ ہو سکے۔ 2008ء میں بینک لوٹنے کی ناکام واردات کے بعد لیری وائٹ فیلڈ ایک 79 سالہ عورت کے گھر میں داخل ہوا اورکہا کہ اُسے چھپنے کے لیے جگہ درکار ہے۔اُس معمر عورت نے پریشان ہوکر چلانا شروع کردیا۔ لیری وائٹ نے اُسے حکم دیا کہ وہ اُس کے ساتھ ڈرائنگ روم سے نکل کر اُس کمرے میں چلے جو کم و بیش نو فٹ کے فاصلے پر تھا۔ یہی فاصلہ اُس کی سزا کا موجب بھی بنے گا۔ امریکی فیڈرل قانون اُس مجرم کو کم از کم دس سال تک قید کی سزا دیتا ہے جو دوران جرم یا فرار ہوتے وقت کسی شخص کو''Accompany‘‘ پر مجبور کرتا ہے۔ مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران ایک جج نے کہاکہ ''Accompnay‘‘ ایک عام سا لفظ ہے۔ ڈنر کرتے وقت کہا جاسکتا ہے کہ۔۔۔"I accompany my wife to her table" اس میں زبردستی کا پہلو نہیں نکلتا۔ اس پر جیوری میں شامل ایک خاتون جج نے، جن کی عمر اسّی سال سے تجاوز کرچکی تھی، کہاکہ اگر کوئی نرس کسی مریض، جبکہ وہ بے ہوش ہو۔۔۔ گویا مریض کی مرضی کے بغیر۔۔۔ کو لے کر آئی سی یو میں جائے تو بھی کہا جائے گا۔۔۔ "The nurse accompanied a patient"...
اس پر چیف جسٹس مسٹر رابرٹس نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا اگر بینک میںایک ڈاکوگن لے کر آتاہے اور پانچ افراد پر گن تانتے ہوئے رقم کا تھیلا لے کر فرار ہوجاتا ہے تو پکڑے جانے پر اُس کی سزا کچھ اور ہوگی لیکن اگر کوئی ڈاکو کسی یرغمالی کو حکم دے کہ وہ رقم کا تھیلا لے کر اُس کی طرف آئے۔۔۔ گویا ''Accompany‘‘ کا پہلو نکلے، تو پھر دس سال سے کم سزا نہیں ہوگی۔ چیف صاحب کی رائے تھی کہ یہ احمقانہ بات ہے، قانون بنانے والوں کے ذہن میں اس لفظ کا یقینا یہ مطلب نہیں تھا۔ ایک اور جج صاحب نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ قانون بے سروپا دکھائی دے لیکن اس کی تصحیح کرنا ، یا اسے منسوخ کرنا عدالت کا کام نہیں ۔ ایک اور خاتون جج نے کہا کہ بنک ڈکیتیاں عام طور پر کیش کائونٹر پر ہی ہوتی ہیں اور ان کے دوران عملے یا بینک میں موجود صارفین کو حرکت کرنے یعنی ''Accompany‘‘ کی زحمت نہیں دی جاتی۔ آخری خبریں آنے تک عدالت میں اس لفظ پر بحث جاری تھی۔ہم نہیں جانتے کہ لیری وائٹ فیلڈ بینک لوٹنے میں ناکام رہنے کے بعد ایک معمر عورت کو لے کر دوسرے کمرے تک جانے کی پاداش میں دس سال قید بھگتے گا یا نہیں۔۔۔۔امریکی قانون کے مطابق تو اُسے یہی سزا ملنے کا امکان ہے تاوقتیکہ بحث میں مصروف جج صاحبان اس لفظ کی کوئی اور تشریح نہ کرلیں۔ تاہم اس کا امکان معدوم دکھائی دیتا ہے۔ لگتا ہے کہ وائٹ کے اگلے دس سال اندھیرے میں ہی بسر ہوں گے۔
دہلی کے عظیم شاعر کو بھی اسی ''Accompany‘‘ کا مسئلہ رہا۔۔۔''رات کے وقت مَے پیے، ساتھ رقیب کو لیے۔۔۔ آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ کرے خدا کہ یوں‘‘۔ خیر، مرزاغالب کی مزید ''Accompany‘‘کا خطرہ مول نہ لیتے ہوئے اب آجائیں سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی عدالت میں۔ کالم کی اشاعت کے چند روز بعد، ٹھیک سولہ دسمبر کو پانچ سال ہوجائیں گے‘ جب چیف صاحب نے این آر او کو کالعدم قرار دیا تھا۔ اُس وقت اس فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے عوام کی ایک بڑی تعداد نے جشن منایا تھاکیونکہ سابق آمر کا وضع کردہ این آر او اُن دنوںخاصا متنازع ہوچکا تھا۔ اس نے یکم جنوری 1986ء سے لے کر بارہ اکتوبر 1999ء کے دوران سیاست دانوں ، سیاسی کارکنوں اور سرکاری افسروں کی بدعنوانی ، غبن، قتل اور منی لانڈرنگ کو دھو کر صاف کردیا۔
جب چوروں، قاتلوں، ٹھگوں، لوٹ مار کرنے والے ڈاکوں اور غبن کرنے والوں کو سزانہ ملے تو پھر لوگوں کو قانون کا کیا خوف؟ اب شکوہ کیسا کہ ملک میں جرائم بڑھ رہے ہیں اور کوئی شخص پولیس یا قانون کا احترام نہیں کرتا۔ صرف مجرم ہی نہیں، عام شہری بھی قوانین، جیسا کہ ٹریفک کے قواعد کا احترام نہیں کرتے۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرین نے پولیس اور اس کے افسران کی بری طرح دھنائی کی۔ یہ ہمارے معاشرے میں معمول کے واقعات نہیں اور نہ ہی انہیں باقی معاملات سے جدا کرکے دیکھنا چاہیے۔ ہمارے ہاں آئین اور قانون کی دھجیاں بکھررہی ہیں۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت بھی عوام کی داد رسی کرنے میں ناکام رہے تو پھر وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں کیوں نہ لیں۔جب عوام جانتے ہیں اربو ں ڈالر لوٹنے والوں کو کچھ نہیں کہا جاتا، بینک قرضے واپس نہ کرنے والوں کو سزا تو درکنار شرمندگی تک نہیں ہوتی اور شاید ہم نے ضرورت سے زیادہ ہی پاک سرزمین حاصل کررکھی ہے جو بے گناہ شہریوں کے خون سے بھی آلودہ نہیں ہوتی تو وہ اس ملک کے قوانین کو خاطر میں کیوں لائیں۔ شنید ہے کہ آپریشن سے پہلے ملک کے کئی حصوں میں طالبان نے شرعی عدالتیں قائم کررکھی تھیں اور کچھ لوگ ان کے انصاف پر یقین کررہے تھے۔
میں بھی ان کالم نگاروں میں شامل تھی جنھوں نے جسٹس چوہدری اور اُن سترہ جج صاحبان کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا جنھوں نے وہ تاریخی فیصلہ کیا تھا۔ ہمیں امید تھی کہ ملک میں بے لاگ احتساب شروع ہوجائے گا اور ہم قومی دولت لوٹنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا دیکھیں گے لیکن پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اب تو دشت کو دیکھ کر بھی گھر یاد نہیں آتا۔ قارئین سے التماس سے کہ ملک کے حالات کی تفہیم کے لیے دن رات ٹی وی چینل دیکھنے کی بجائے کینیا کے مشہور مصنف جومو کنیاتا(Jomo Kenyatta) کی مشہور کہانی، ''جینٹل مین آف دی جنگل‘‘ ضرور پڑھیں۔۔۔ مسائل کے حل کے لیے نہیں، صرف ان کی تفہیم کے لیے۔