جنوبی کوریا سے سبق سیکھیں

کوریا کے ایئرلائٹ86نے نیویارک کے جے ایف کینیڈی انٹر نیشنل ایئرپورٹ سے پرواز بھری۔ اس پرواز میں ایئرلائن کے چیئرمین کی بیٹی چائو(Cho)بھی سفر کررہی تھی ۔ وہ فرسٹ کلاس میں تھی۔ اُس کا پارا اُس وقت چڑھ گیا جب فلائٹ اٹینڈ نٹ نے اس کے سامنے macadamia نٹس رکھے۔ وہ اس لیے مشتعل تھی کہ اُس اٹینڈنٹ نے پروٹوکول کی خلاف ورزی کی تھی۔ یہ نٹس فرسٹ کلاس مسافروں کے لیے نہیں تھے۔ اُس نے کہا کہ وہ فلائٹ کے فرسٹ کلاس مسافروں کا مینو لائے اور پڑھے کہ کیا اُس میں یہ نٹس موجود ہیں۔ مینو میں macadamia نٹس موجود نہیں تھے، چنانچہ مس چائو نے اُسے حکم دیا کہ اُسے فلائٹ سے اتار دیا جائے۔ اُس وقت طیارہ فضا میں بلند تھا،لیکن اس میں سوار دوسو پچاس مسافروں کو آگاہ کیے بغیر پائلٹ نے پرواز کا رخ موڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کی وجہ سے دوسوپچاس مسافروں کو کم از کم بیس منٹ تاخیر سے اپنی منزل پر پہنچنا پڑا اور سخت ذہنی کوفت بھی ہوئی۔ 
مس چائو کے طرزِ عمل کی تمام جنوبی کوریا میں با زگشت سنائی دی۔ میڈیا نے چالیس سالہ چائو کوشہزادی قراردیا۔پڑنے والے دبائو کی وجہ سے اُسے کورین ایئر کے نائب صدر کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ اس سے پہلے چائو نے عوام سے معافی مانگی تھی کہ وہ اشتعال کے لمحے میں حد سے گزرگئی تھی، اُسے اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہیے تھا۔ اُ س نے سر جھکاتے ہوئے رپورٹرز سے کہا‘ وہ بہت ندامت محسو س کرتے ہوئے دل کی گہرائیوںسے معافی مانگتی ہے؛ تاہم چائو کے باپ، جو ایئرلائن کا چیئرمین ہے، نے اپنی بیٹی کے پُرغرور رویے کو برداشت کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ اب پچھتانے یامعافی مانگنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جی ہاں، آج کل مس چائو دس سال قید بھگت رہی ہیں۔ جنوبی کوریا کی ٹرانسپورٹ کی وزارت نے اعلان کیاکہ وہ تحقیقات کررہی ہے کہ آیا مس چائو کے اقدام سے مسافروں کی سلامتی کو تو خطرہ لاحق نہیں ہوا؟ یا اس کے اس چلا کر بولنے سے کسی کے احساسات کو ٹھیس تو نہیں پہنچی؟
اب کورین فلائٹ سے اتر آئیں اور اپنی ایک ائیرلائن میں جھانک کر دیکھیں کہ یہاںقوم کے خون پر پلنے والے وی آئی پی کیسا رویہ دکھاتے ہیں۔ ان کی وجہ سے بیچارے مسافروں کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جب تک مابدولت تشریف نہ لائیں جہاز دم بھرنے کا مجاز نہیں ہوتا۔ یہ لاجواب لوگوںکے بغیر پرواز کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اس دوران یہ فضائی کمپنی خسارے کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کے قریب رہتی ہے۔ ہمارے ہاں ناروا رویے پر نہ کوئی معافی مانگتا ہے ، نہ کسی کوندامت ہوتی ہے، نہ کوئی اس پر ا عتراض کرتا ہے۔ شاید ہم نے اسے اپنی قومی فطرت کا ناگزیر پہلو سمجھ لیا ہے۔ یہ بڑے افراد قانون کی خلاف ورزی کرنا اپنا استحقاق سمجھتے ہیں اور اگر ان کے خلاف کبھی قانون حرکت میں آبھی جائے تو اسے سیاسی مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں جمہوریت جرائم کی اس طرح پردہ پوشی نہیں کرتی جیسی یہ ہمارے ہاں کرتی ہے۔ 
تاہم حالیہ دنوں پاکستان کے افق پر کچھ نئے مناظر دیکھے جارہے ہیں۔ چند ہفتے پہلے ایک سابق وزیر کو مسافروں نے جہاز سے اتار دیا کیونکہ اُنہیں شک تھا کہ جہاز کی پرواز میں تاخیر ملک صاحب کی وجہ سے ہوئی۔ چونکہ یہ پاکستان کے ماحول میں انوکھا واقعہ تھا، اس لیے اس کی بازگشت پوری دنیا میںسنائی دی۔ نیویارک ٹائمز نے بھی اس کہانی کو شائع کیا تھا۔ دیار ِ غیر میں رہنے والوں نے اس پر طمانیت کا اظہار کیا کہ مسافروںنے رحمان ملک اور حکمران جماعت کے ایک رکن ِ اسمبلی کو جہاز سے اتاردیا کیونکہ یہ حضرات اُن کا وقت ضائع کرنے کا موجب بنے تھے۔ تاہم مسٹر کمار اور مسٹر ملک نے جنوبی کوریا کی چائو جیسے رویے کامظاہرہ کرتے ہوئے معافی نہ مانگی بلکہ جس شخص نے اس واقعے کی ویڈیو بنائی ، اُسے ملازمت سے فارغ کروا دیا گیا۔ 
ہمارے ارباب اختیار اتنا ظرف نہیں رکھتے کہ تاخیر کی صورت میں مسافروں سے معافی مانگیں۔۔۔ پوری دنیا میں معافی مانگنا تہذیب کی علامت سمجھا جاتا ہے؛ تاہم ہمارے افسران اس کے روادار نہیں ہوتے۔ وہ نہ تو وی آئی پی شخصیات کو قانون کا احساس دلاکر وقت کی پابندی پر مجبور کرتے ہیں اور نہ ہی وہ مسافروں سے معذرت طلبی کا ظرف رکھتے ہیں۔ خیال آتاہے کہ کیا اس طیارے کے پائلٹ کو خود ہی طیارہ اُڑانے کا فیصلہ نہیں کرلینا چاہیے تھا؟۔۔۔ اگر واقعی کوئی فنی خرابی نہیں تھی اور صرف دو وی آئی پیز کے انتظار میں مسافروں کو زحمت دی جارہی تھی۔ پھر سوچ آتی ہے کہ پائلٹ کو سیاسی انتقام کا نشانہ بننا پڑتا اور پھر اُسے کہیں بھی ملازمت نہ ملتی۔ بہرحال اس واقعے کے اختتام پر دو قربانی کے بکرے تلاش کرکے معطل کردیئے گئے۔ 
اب نواز حکومت کے پاس ایک نایاب موقع ہے کہ وہ اس فضائی ادارے کے مالی خسارے کو کم کرسکے۔ یاد رہے، نواز شریف صاحب نے اگست 2013ء میں ایک شخص کو ادارے کا نگران چیئرمین مقررکیا تھا، لیکن فاضل عدالت کے حکم پر اُسے مستعفی ہونا پڑا۔ سوال یہ نہیں کہ ان معاملات میں عدالت کی مداخلت کا خیر مقدم کیا جائے یا نہیں، بات یہ ہے کہ ایسے افراد کے تقرر کی نوبت ہی کیوں آتی ہے؟گزشتہ سال ایک واقف کار نے مجھے بتایا تھا کہ اس ایئرلائن کو ہرماہ تین بلین روپے خسارے کا سامنا ہے۔ ایک اور صاحب نے اطلاع دی کہ اس ایئرلائن کا ایک افسر نیویارک اور پیرس میں ہوٹل چلاتا ہے اور وہ کینیڈا کی شہریت کا حامل بھی ہے۔ 
بدعنوانی، اقربا پروری اور چہیتے افراد کو نوازنے میں یہ حکومت گزشتہ تمام ریکارڈ توڑنے پر تلی ہوئی ہے۔ ہے کوئی جو اسے اس کامیابی سے روکے؟ایک مارکیٹ پروموشن بورڈ میں کی جانے والی اکتالیس تقرریوں کی میرٹ لسٹ آخری لمحے تبدیل کردی گئی۔ متاثر ہ افراد عدالت میں چلے گئے۔ عدالت نے اس ایئرلائن کو ان اکتالیس افراد کی پروموشن کا حکم دیا، لیکن ایک افسر پس و پیش سے کام لے رہا ہے۔ یہ کہانیاں پاکستان کے ہر محکمے میں معمول کی بات ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیا پاکستان کب بنے گا جس میں میرٹ کا خیال رکھا جائے گا۔ دراصل جمہوریت صرف انتخابی عمل تک ہی محدود نہیں ہوتی، بلکہ انصاف اور قانون کی حکمرانی اس کی روحِ رواں ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی طاقت کے بل بوتے پر قانون کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ یعنی ہم جان بچانے والی ادویات سے خود کشی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں