کرکٹ کا زوال

یہ بات میں نے پہلے بھی کسی کالم میں عرض کی تھی ، اسے دہرانے کی اجازت چاہتی ہوں کہ اگر کرکٹ میں بہتری کے خواہاں ہیں تو اس کے سرپرست ِ اعلیٰ کو کنٹرول کریں۔ اصل خرابیوں کی جڑا س کا سرپرست ہی ہوتا ہے، ہاں میچ ہارنے کی صورت میں عتاب کا نشانہ چیئرمین بنتا ہے۔ یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاںپی سی بی(پاکستان کرکٹ بورڈ) کا سرپرست ہمیشہ ملک کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے۔ اس وقت جبکہ پے درپے شکستوں کے بعد عوام غصے سے کھول رہے ہیں، وزیراعظم نواز شریف کو اب تک احساس ہوجانا چاہیے کہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا چنائو اُن بنیادوں پر نہیں ہونا چاہیے جن پر اُنھوں نے اسّی سال سے تجاوز کرجانے والے شہریار خان کا انتخاب کیا ہے۔ کیا دنیا کے کسی ملک میں اتنے معمر شخص کو کرکٹ یا کوئی بھی سپورٹس بورڈ چلانے کے لیے منتخب کیا جاسکتا ہے؟ صرف یہیں پر ہی بس نہیں، حکمران عدالت کی ہدایات کو پس ِ پشت ڈالتے ہوئے نجم سیٹھی کو پھر سامنے لے آئے اور پاکستان میں کرکٹ کے معاملات کو کنٹرول کرنے والی طاقتور کمیٹی کا سربراہ بنا دیا۔
اس سے پہلے ایک صنعت کار، ذکا اشرف، کو پی سی بی کا چیئرمین صرف اس وجہ سے بنا دیا گیا تھا کہ اُن کی سابق صدر آصف زرداری سے دوستی تھی۔ وہ مئی 2013ء تک اس پرکشش عہدے پر موجود رہے۔ اس کے بعد کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے لیے پہلی مرتبہ ہونے والے انتخابات کا انعقاد دیکھنے میں آیا۔ وہ الیکشن برائے نام تھا کیونکہ ذکا اشرف کو ''فاتح‘‘ قرار دے دیا گیا۔ تاہم اسلام آبادہائی کورٹ کو سلام کہ اس نے اُنہیں یہ کہتے ہوئے معطل کردیا کہ وہ انتخابی عمل شفافیت سے عاری تھا۔ اس کے بعد چوہے بلی کا کھیل شروع ہوا۔۔۔ ایک طرف زرداری صاحب کے متعین کردہ ذکااشرف اور دوسری طرف نواز شریف صاحب کے حمایت یافتہ نجم سیٹھی۔ آخر کار دس فروری 2014ء کو نواز شریف صاحب نے پی سی بی کے گورننگ بورڈ کو تحلیل کردیا ۔ ذکا اشرف کی چھٹی ہوگئی اور شہریار خان اور نجم سیٹھی کو کرکٹ کے معاملات چلانے کے لیے آگے بڑھایا گیا۔
کرکٹ کے معاملات میڈیا کی دنیا کے بڑے نام، نجم سیٹھی کے سپرد کرنے پر اعتراضات سامنے آئے۔ کھیل سے محبت کرنے والے حلقوںنے اس پر احتجاج بھی کیا۔کامران رحمت نے معاصر اخبار میں لکھا۔۔۔ ''اپنے نئے کردار پر نجم سیٹھی بے چین رہے ہیں۔ اُنہیں اعتراف ہے کہ نوسو ملازموںپر مشتمل فوج پی سی بی پر بہت بڑے بوجھ کی مانند ہے۔ ان کی وجہ سے یہ جہاز غرقاب ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے مختلف سربراہوں کی ترجیحات اور مقاصد مختلف بلکہ متحارب ہوتے ہیں۔‘‘ اپوزیشن کے کچھ رہنمائوں نے بھی اس تقرری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس سے ''من پسند افراد کو نوازنے‘‘ کی ایک مثال قرار دیا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اگر عدالت نے سیٹھی صاحب کی تقرری کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ اپنا منصب چھوڑ دیں گے۔ تاہم فیصلے آگئے لیکن سیٹھی صاحب اب بھی کرکٹ کی زمام ِ اختیار سنبھالے ہوئے ہیں۔ یقین کرلیںوہ کہیں نہیں جارہے ، کیا ہوا اگر ورلڈکپ سیریز میں پاکستان بھارت اور ویسٹ انڈیز سے بری طرح ہار گیا ہے۔
اس سلسلے میں میری عاجزانہ گزارش ہے کہ کرکٹ کے سرپرستِ اعلیٰ، وزیراعظم نواز شریف اور بعد میں آنے والے، اپنے کردار کو صرف اخلاقی، نہ کہ انتظامی، ذمہ داری سمجھیں۔ کبھی کبھار کیک کاٹنے یا کسی ٹورنا منٹ کا افتتاح کرنے آجائیں اور وی آئی پی باکس میں بیٹھ کر میچ دیکھ لیں۔ یا غیر ملکی ٹیموں (اگر کبھی کوئی یہاں آئے) کے اعزاز میں اچھا سا عشائیہ دے دیا کریں۔۔۔۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ باقی معاملات پیشہ ور افراد، جو کرکٹ کو سمجھتے ہوں ،کو چلانے دیں۔ ہم نے کچھ عرصہ سے کرکٹ بورڈ میں سیاسی بنیادوں پر تقرریاں دیکھی ہیںاور ان کا خمیازہ بھگتا ہے۔ تاحال عوام کے دل آنے والے میچوں کے بارے میں سوچ کر دھڑک رہے ہیں کیونکہ وہ نسبتاً آسان ٹیموں کے خلاف ہیں لیکن ان میں بھی کامیابی یقینی نہیں ہے۔
پی سی بی کا سربراہ بننے والے دولت، اختیار اور بہت سی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پی سی بی نے بورڈ ممبرز کو آسٹریلیا جاکر ورلڈکپ دیکھنے کے لیے تین لاکھ روپے فی کس دیے ہیں۔ یقینا بورڈ بہت دولت مند اور طاقتور ہے۔ کیا اس کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟پتلے جلانا اور سوشل میڈیا پر تنقید کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ اُوپر سے لے کر نیچے تک سب کا بے لاگ احتساب ہونا چاہیے۔ اسی دوران تین کھلاڑیوں، جو آئوٹ ہونے میں مطلق دیر نہیں لگاتے اور اگر اُن سے کبھی کیچ پکڑاجائے تو بڑی بات ہوتی ہے، کی طرف سے ڈسپلن کی خلا ف ورزی کرنے کا واقعہ بھی پیش آیا۔ اس پر ، میڈیا رپورٹ کے مطابق، شہریار خاں نے ٹیم مینیجر نوید اکرم کو کہا کہ وہ اس معاملے کی تحقیق کریں۔ اندازہ لگائیں کہ ٹیم کے ساتھ آفیشلز کی بھاری کھیپ موجود ہے اور مسٹر شہریار یہاں،پاکستان ، سے ہدایت دے رہے ہیں کہ اس معاملے کی چھان بین کی جائے۔ اگر سب کچھ میڈیا پر دیکھ کر شہریار خان نے ہی کرنا ہے تو پھر وہ آفیشلز کس لیے وہاں گئے ہیں؟ ٹیم کے چیف سلیکٹر معین خان بھی ٹیم کے ساتھ ہیں (تھے)۔ کیا کوئی بتاسکتاہے کہ ٹورنا منٹ کے دوران چیف سلیکٹر کا کیا کردار ہوتا ہے؟ اُس نے ملک میں دستیاب کھلاڑیوںکو منتخب کرکے کپتان کے حوالے کردیا۔ اس کے بعد اُس کا وہاں کیا کام؟یہ سب لوگ اپنی بیگمات کے ہمراہ اس مقروض قوم کے ٹیکسوں کی رقم پر وہاںکیا کررہے ہیں؟
آپ مندرجہ ذیل کرکٹ چیفس کی کیا ریٹنگ کریں گے ؟ شہریار خان، نجم سیٹھی، ذکااشرف، اعجاز بٹ، نسیم اشرف، جنرل توقیر ضیا، مجیب الرحمن، نسیم حسن شاہ۔ ان افراد کا کرکٹ سے دور دور کاکوئی تعلق ہے تو بتادیں۔ اگر سفارت کار، بینکار، سرمایہ دار، معالج، جج، جنرل اور گاڑیاں فروخت کرنے والے کرکٹ کے معاملات چلائیں گے، تو پھر بقول شعیب بن عزیز۔۔۔''اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں۔‘‘ کرکٹ کی بحالی کا معاملہ بہت آسان ہے لیکن اس کے لیے ذاتی پسند نا پسند کے چکر سے باہر نکلنا ہوگا۔ پی سی بی کو اعلان کرنا چاہیے کہ ہر وہ لڑکا جو 145+ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے لگاتار بائولنگ کراسکتا ہے، ٹیم کے لیے آٹومیٹک چوائس سمجھا جائے گا۔ کرکٹ کے چیئرمین کو ان کی تلاش کرنی ہے اور اُنہیںسپورٹ کرنا ہے۔ ان کی عمر بائیس سال سے زیادہ نہ ہو۔ بلے باز پچیس سال سے کم کے نہ ہوں۔ اُن کے پاس مضبوط ڈیفنس ٹیکنیک اور گرائونڈ شارٹس کھیلنے کی صلاحیت موجود ہو۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں