دشمن تکون

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی اور بھارت میں خوف وہراس پھیلانے کا الزام عائد کیا۔ بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کو بڑھاتے ہوئے ان کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔
اس اگست میں پاکستا ن اور بھارت 68 سال کے ہوجائیں گے۔ چھ عشروں سے ان دونوں ہمسایہ ریاستوں نے اگرکچھ سیکھا ہے تو یہ اپنے مسائل اور ناکامیوں پر ایک دوسرے کو مورد ِ الزام ٹھہرانے کا ہنر ہے۔ مودی نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کو بہت فخر سے بتایا کہ 1971ء میں بنگلہ دیش کی ''جنگ ِ آزادی ‘‘ میں انڈیا نے عملی مداخلت کی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ پاکستان مخالف تقریر بنگالی وزیر اعظم حسینہ واجد کو بہت بھائے گی۔ دراصل حسینہ واجد نے 1971ء کی جنگ سے لے کر اب تک پاکستان کو معاف نہیں کیا۔ آپ کو یاد ہوگا، ان کی حکومت نے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان اپنی فوج کی طرف سے سابق مشرقی پاکستان میں کی جانے والی مبینہ زیادتیوں پر باضابطہ طور پر معافی مانگے۔ ہمارے دفتر ِخارجہ نے اس مطالبے کو مستر د کردیا تھا۔ اس کے بعد بنگلہ دیش نے یواین سے''1971ء کی جنگ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں ‘‘ کے ٹرائل کا مطالبہ کیا۔ ایسا لگتا ہے، حسینہ واجد وقت کی دھند سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔
میں آپ کو کچھ ماضی میں لیے چلتی ہوں۔ انتیس سال پہلے، شیخ حسینہ انتالیس برس کی تھیں اور میں نے پارلیمنٹ ہائوس ڈھاکہ میں ان سے انٹرویوکیا تھا۔ اُس وقت وہ بطور لیڈر آف اپوزیشن وزیر اعظم کا درجہ رکھتی تھیں۔ ساڑھی میں ملبوس حسینہ اپنے والد شیخ مجیب کے ایک بڑے سے پورٹریٹ کے نیچے بیٹھی تھیں۔ ان کی آنکھیں بھی اپنے والد کی طرح برائون اور چمکدار تھیںاور اُن میں پاکستان مخالف جذبات واضح دکھائی دیتے تھے جنہیں وہ چھپانے کی مطلق کوشش نہیںکررہی تھیں۔
یہ دسمبر 1986ء کی ایک خوبصورت صبح تھی اور جب میںاُن کے دفتر میں داخل ہوئی تومجھے احساس تھا کہ وہ جنگ سے زیادہ اپنے والد کے ساتھ مغربی پاکستان کے سلوک پر زیادہ شدت سے بات کریں گی۔ حسینہ نے اپنے خاندان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ پندرہ اگست 1975ء کے حملے میں صرف وہ اور ان کی بہن ریحانہ ہی بچ پائے کیونکہ وہ اُس وقت لندن میں تھے۔ میں نے پوچھا ، کیا اس حملے میںسی آئی اے کا ہاتھ تھا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ اُس وقت سنا تھا کہ اس کی ذمہ داری پاکستان اور امریکہ پر عائدہوتی ہے کیونکہ وہ مشرقی پاکستان کی آزادی نہیں چاہتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہ اب بھی ذاتی طور پر ایسا ہی سمجھتی ہیں تو اُنہوں نے ایک طویل وقفے کے بعد کہا: ''ہاں، کیوں نہیں؟‘‘ اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا : ''ہم پاکستانی عوام سے نفرت نہیں کرتے، ہم نے پاکستان سے اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے جنگ کی اور ہم جیت گئے،اب مزید کوئی نفرت باقی نہیں‘‘۔
اب بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے انتہائی جارحانہ بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ''دہشت گردوں کا مقابلہ دہشت گردی سے ہی کیا جاتا ہے۔ انڈیا 26/11 جیسے حملے روکنے کے لیے انتہائی اقدام اٹھائے گا‘‘۔ وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے بھارتی ہم منصب کے بیان پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ''یہ کسی بھی منتخب حکومت کے وزیر کا دوسرے ملک میں دہشت گردی کرنے کی وکالت کا پہلابرملا اعتراف اور دھمکی ہے‘‘۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا: ''یہ کسی ریاستی عہدیدار کا بدترین بیان ہے جس میں اپنی ہمسایہ ریاست کے خلاف سرکاری سطح پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کی دھمکی دی گئی ہے‘‘۔ حال ہی میں پاک فوج کے چیف جنرل راحیل شریف نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنی سالمیت کا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا: ''ہمارے دشمن برِصغیر میں تنائو بڑھانے کے لیے دہشت گردی کی حمایت کررہے ہیں تو ہم کسی بھی قیمت پر ان کے مذموم اور جارحانہ عزائم کو ناکام بنانے کے لیے تیار ہیں‘‘۔
گزشتہ دوعشروں سے امریکہ میں قیام کے دوران میں نے بہت سے شعبوں میں کام کرنے والے کامیاب بھارتی شہریوں کو دیکھا ہے۔ میں نے عام طور پر اُنہیں انتہائی قوم پرست اور سخت نظریات کا حامل پایا۔ اس دوران مسابقت سے لبریز امریکی معاشرے میں محنت سے اپنا مقام بنانے والے پاکستانیوںکا رد ِعمل بھی پراعتماد ہے اور وہ اپنے قومی موقف سے جڑے دکھائے دیتے ہیں۔ فطرتاً پاکستانی اور بھارتی، چاہے وہ عام شہری ہوں یا سفارت کار اور سیاست دان، دونوں اپنے اپنے موقف پر قائم رہنے والی قومیں ہیں۔ سرحد کے آرپار بہت سے سیاست دانوں بلکہ سیاسی جماعتوں اور سفارت کاروں کی دکان ایک دوسرے کے خلاف جذبات کو بھڑکانے اور جلتی پر تیل گرائے رکھنے سے چلتی ہے ؛ چنانچہ وہ اس عمل میں سستی اور غفلت کے شکار خال خال ہی ہوتے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم مودی گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات اور مسلمانوں کے بارے میں توہین آمیزاور جارحانہ بیانات دینے کی شہرت رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں بھی بھارت کے خلاف جارحانہ بیانات دینے والوں کی کمی نہیں ہے۔ آج کل ہمارے نجی ٹی وی چینلوں نے اپنی ایک الگ پانی پت سجا رکھی ہے۔ سرحد پار بھی یہی صورت ِحال ہے۔ حسینہ واجد کے انٹرویو سے جو بات میں نے اخذ کی تھی وہ یہ تھی کہ وہ چاہتی ہیں بنگلہ دیش کے قیام کو ایک تاریخی واقعہ سمجھ کر آگے بڑھا جائے۔ تاہم وہ خود بھی ماضی کی اسیر دکھائی دیتی تھیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ یہ تینوں ممالک اپنے ماضی کے آسیب سے نکل کر آگے دیکھتے اور اپنے اپنے عوام کا سوچتے اور سمجھ لیتے کہ ماضی کے کانٹے اکھاڑ کر مستقبل کی راہوں میں بکھیرنے سے کسی کا بھلا نہیںہوگا۔
امریکہ میں بھارتی سفارت کاروں کے نزدیک پاکستانی ذہن میں یہ چھ تصورات گڑے ہوئے ہیں: (1) پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کرنے پر بھارت کو موردِ الزام ٹھہرانا۔ (2) ہمیشہ بھارت کو ہزیمت پہنچانے کا سوچنا۔ (3) علاقائی بالا دستی کی دوڑ میں سبقت لینے کا خبط رکھنا۔ (4) بھارتی دفاعی قوت کے مقابلے میں جوہری ہتھیاروں کا بھاری ذخیرہ رکھنا۔ (5) بھارتی سیکولر پالیسی کو مسلم مخالف پالیسی سمجھنا۔ (6) کسی نہ کسی طریقے سے بھارت سے کشمیر چھین لینا۔ دوسری طر ف بھارتی ذہن میں موجود خدشات بھی ایسے ہی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان بھارت کے ٹکرے ٹکرے کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ پاکستانی جماعتیں ایک مرتبہ دہلی پر ''مغل تخت‘‘ دیکھنا چاہتی ہیں۔ پاکستانی ہمیشہ ہر ہندو کو ''ظالم بنیا‘‘ سمجھتا ہے حالانکہ عام ہندوستانی بھی معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔ پاکستانی مسلمانوں کی رگوں میں ترک اور ایرانی نسل کا خون خود کو عام ہندوستانیوں سے بالا ترسمجھتا ہے اور جہاد کو اپنا مذہبی فریضہ قرار دے کر اسے بھارت پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں بھارت بنگلہ دیش کو بھی کھینچ لایا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بر صغیر کی تنائو زدہ فضا میں ایک مخاصمانہ مثلث بننے جارہی ہے۔ اس کے دوکونے بھارت اور بنگلہ دیش اور ایک پاکستان ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں