بے کار کی باتیں چھوڑئیے!

نجانے ہمارے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان صاحب پر کیسے بیٹھے بٹھائے یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ ان کی حکومت اُن این جی اوزکوکام کرنے کی اجازت نہیں دے گی جو پاکستان کے مفادات کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہیں ؛ حالانکہ پچھلے کئی برسوں سے تو میڈیا میں تواتر سے غیر ملکی این جی اوز کے بارے میں خبریں آتی رہی ہیں جو پاکستان میں ایک الگ ایجنڈے کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ صد افسوس ہماری موجودہ اور گزشتہ حکومتوں پرکہ یہ اس سرزمین پر ضرورت مندوںکی مدد کی آڑ میں جاری قوم مخالف سرگرمیاں روکنے میں ناکام رہیں۔''ملک مخالف سرگرمیوں‘‘ میں ملوث ہونے کی بنیاد پرغیر ملکی این جی او 'سیو دی چلڈرن‘ پر پابندی کی ضرورت چودھری صاحب کو اب کیوں محسوس ہوئی؟ چار سال پہلے یہ معلوم ہوگیا تھا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی اسی این جی او کے ساتھ وابستہ تھے اوراسی کی مدد سے سی آئی اے ایبٹ آبادکے اس کمپاؤنڈ تک پہنچی جس میں اسامہ بن لادن اپنے بیویوں اور بچوں سمیت رہائش پذیر تھے۔ سوال یہ ہے کہ اسی وقت کیوں کچھ نہ کر لیا گیا؟ یہ ماننا تو مشکل ہوگاکہ کسی بالاتر ہستی کے کہے بغیر نواز شریف حکومت نے یہ قدم از خود اٹھایا ہے۔
یہاں ہم قارئین کو یاد دلا دیں کہ اکتوبر2005ء کے زلزلے کے کچھ عرصہ بعد ہم نے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر سے انٹرویو لیا تھا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ کس طرح اس وقت کے امریکی سفیر ریان کروکر نے امدادی کارروائیوں کی کمان اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لئے ایک چال چلی تھی۔ کروکر نے کسی طرح مشرف صاحب کو یہ یقین دلایا ہوا تھا کہ ضرورت کی اس گھڑی میں پاکستانیوں کے لئے بہترین سہارا صرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہی ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کا واضح مطلب یہی تھا کہ ہم امریکی، پاکستانیوں سے بہتر کام کر سکتے ہیں۔ چنانچہ کروکر صاحب اور ان کے فوجیوں کی ٹیم نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ہیڈکوارٹر کی تشکیل کے لئے وزیر اعظم ہائوس میں نزول فرمایا! جس جنرل صاحب سے ہم انٹرویو لے رہے تھے، انہوں نے بتایاکہ اپنے موبائل فونز اور واکی ٹاکی سنبھالے بھاری بھرکم جثوں والے امریکی کرنل اس وقت وزیر اعظم ہائوس کی راہداریوں میں منڈلاتے پھرتے اور ہم پر اپنا حکم چلاتے تھے۔ ڈری سہمی مرغیوں کی طرح ہم ادھر ادھر بھاگتے کہ کہیں ان کے قدموں تلے روندے نہ جائیں۔ خوش قسمتی سے معقول افراد کے مشورے مان لئے گئے اور بالآخر امریکیوںکو وہاں سے رخصت کر دیا گیا۔
اس کے بعد مئی 2009ء میں سوات میں فوجی کارروائی کا آغاز ہوا تو ایک بار پھر اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے والوں نے وزراعظم یوسف رضا گیلانی سے رابطہ کیا اور لاجسٹک کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ جناب کروکر کی جانشین کے طور پر این پیٹرسن کی تعیناتی ہوئی تو انہیں گیلانی صاحب نے جواباً کیا کہا؟ یہ راز تاحال طشت از بام نہیں ہوا؛ تاہم اگر سازشی نظریات کو دیکھا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ گیلانی صاحب نے اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد سے نمٹنے کا مکمل اختیار خیبر پختونخواحکومت کوکیوں سونپ دیا تھا؟ اس کے فوراً ہی بعد سینٹر فار ہیومینی ٹیرین ڈائیلاگ(HD) نامی جینوا کی ایک ثالث تنظیم نے فاٹا اور خیبر پختونخوا کی این جی اوز، سیاستدانوں اورپاکستانی حکومت کے نمائندوں اور اقوام متحدہ اور ہلال احمر کی عالمی تنظیم کے مابین ملاقات کا اہتمام کر ڈالا۔ HD نے اس ملاقات میں شامل ہونے والے دس پاکستانی مندوبین کے فضائی سفر اور جنیوا کے لگژری ہوٹلوں میں قیام کا خرچ برداشت کیا۔ یہ ورکشاپ ہفتہ بھر چلی اور اس کا اہتمام جنیوا میںاس وقت ہمارے سفیرکی آشیر باد سے کیا گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب دفتر خارجہ سے بالا بالا ہوا۔ ہم تو یہی جانتے ہیں کہ خارجہ سیکرٹری کا کردار اس وقت نہایت محدود کر دیا گیا تھا۔ ویسے بھی اس وقت کے صدر یعنی زرداری صاحب دفتر خارجہ کے افسروں کوکوئی زحمت دیے بغیر اپنے غیر ملکی میزبانوںکے ساتھ ہر قسم کے معاہدوں پر خود ہی دستخط کیا کرتے تھے۔
پختونخوا سے جنیوا جانے والے مندوبین میں وزیروں اور سینیٹروں کے علاوہ مقامی این جی اوزکے نمائندے شامل تھے۔ وہاں سے جو پریس ریلیز جاری کی گئی اس میں کہا گیا تھا کہ'' HD سینٹر کے زیراہتمام انسانی بنیادوں پرکی جانے والی امدادی کارروائیوں کی محفوظ عمل پذیری اور امدادی کاموں میں مصروف اہلکاروں کے تحفظ کے حوالے سے بات چیت کے لئے ایک منفرد ماحول فراہم کیا گیا۔ اس تقریب کے شرکا کے درمیان اس نکتے پر اتفاق رائے ہوگیاکہ امدادی اداروںکی جانب سے امدادی کارروائیوںکی مؤثر فراہمی مکمل حکومتی تعاون، رضامندی اور آگاہی کے تحت عسکریت پسند کرداروںکے ساتھ ایک شفاف اور منظم مذاکراتی عمل پر انحصار رکھتی ہے‘‘۔
بہ الفاظ دیگر پختونخوا حکومت نے اپنی خودمختاری اور بالادستی کے اختیارات اقوام متحدہ کے اداروں کو سونپ دیے تھے۔ اقوام متحدہ اور غیر ملکی این جی اوزکو سلامتی سے متعلق ان حساس امور میں مداخلت کی چھوٹ دے دی گئی تھی جو میڈیا تک کے لئے علاقہ ممنوعہ ٹھہرائے گئے تھے۔ یعنی زرداری حکومت نے پاکستان کا اقتدار اعلیٰ تحریری طور پر غیر ملکی این جی اوزکے حوالے کر دیا تھا۔ امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے HD سینٹرکے مشیر اور مذکورہ ورکشاپ کے مہتمم ڈینس میک نمیرا کا فرمانا تھا کہ ''یہ تو صاف ہے کہ جب صورت حال ایسی ہو جیسی کہ ہے یعنی جب سویلین لوگ ایسے تنازعے میں پھنس جاتے ہیں تو امدادی کارروائیوں کی بحفاظت فراہمی میں سہولت کی غرض سے عسکریت پسند عوامل کے ساتھ انسانی بنیادوں پر مذاکراتی عمل کا آغاز ضروری ہو جاتا ہے‘‘۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ تھا کہ میک نمیرا نے پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کے لئے عسکریت پسندوں کے ساتھ ''انسانی بنیادوں پر مذاکرات‘‘ کا راستہ کھول دیا تھا۔ اگر یہ ریاستی خود مختاری غیر ملکیوںکی تحویل میں دینا نہیں تو پھر اسے اورکیا نام دیا جانا چاہئے؟ دنیا کا کون سا ایسا ملک ہے جو اپنے سلامتی کے امور میں مذکورہ اداروں کو مداخلت کی اجازت دے گا؟ کون سا ملک ہے جو غیر ملکیوں کے ساتھ اپنی خفیہ معاملات کا تبادلہ چاہے گا؟ لیکن پاکستان میں یکے بعد دیگر آنے والی حکومتیں بے شرمی کے ساتھ ملک و قوم کو غیر ملکیوں کے ہاتھ بیچتی رہی ہیں۔جس ریٹائرڈ جرنیل کا ہم نے انٹرویوکیا تھا ، وہ کہہ رہے تھے کہ ''پاکستانیوں میں کوئی شرم نہیں اور نہ ہی انہیں قومی مفادکی کوئی پروا ہے‘‘۔ انہوں نے قانون ساز اداروںکے ان اراکین، مقامی این جی اوز اور غیر ملکی امدادی اداروںکے نام بھی بتائے جن کے درمیان پوشیدہ طور پر ایک تگڑم قائم ہے۔
اب ذرا یہ بھی سن لیجئے: سوات میں ہماری فوج نے آپریشن راہِ راست کے نام سے جو کارروائی کی تھی اس کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد یعنی آئی ڈی پیزکی تعداد پختونخوا حکومت اور اقوام متحدہ کے اداروں کی جانب سے بڑھ چڑھ کر دکھائی جاتی تھی۔ پختونخوا حکومت نے اپنے گزشتہ تخمینے کو دگنا کر کے آئی ڈی پیزکی کل تعداد پچیس لاکھ بتائی جبکہ UNHCR کے مطابق یہ تعداد دس لاکھ سے کچھ اوپر تھی۔ دوسری طرف آفات سے نمٹنے والے قومی ادارے NDMA کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق آئی ڈی پیزکی تعداد اس سے بہت کم تھی۔ NMDA اور باقی دونوں اداروں کی جانب سے فراہم کئے گئے اعداد و شمار میں اتنا تفاوت کیوں تھا؟ اس لئے کہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی آئی ڈی پیز کی اس فرضی تعداد کو پیش کر کے اپنی جیبیں بھر رہا تھا۔ ان کی امداد کے لئے جو خطیر رقوم فراہم کی جا رہی تھیں، اس میں سے اپنا حصہ وصول کر رہا تھا! ہمیں یقین نہیں کہ میاں نواز شریف کی حکومت کرپشن اور بدانتظامی کا قلع قمع کر سکے گی۔ زرداری حکومت میں بھی ایسا نہیں ہو سکا تھا۔ افسوس کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کی نہ تو ساکھ اچھی ہے اور نہ ہی یہ گڈگورننس کے حامل ہیں۔ اونچے سنگھاسن پر براج کر اخلاقیات اور غیر ملکی این جی اوز کے حوالے سے ایک قابل قبول دائرہ کار کے بارے میں چودھری صاحب جو بھاشن دے رہے ہیں، وہ کافی کھوکھلا محسوس ہوتا ہے۔کیا ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمان میں اتنے سارے سال قائد حزب اختلاف یا پھرایک طاقت ور وزیر کے طور پر گزارنے کے باوجود انہیں ابھی تک کر پشن یا غیر ملکی این جی اوزکی ملک مخالف سرگرمیوں کی کوئی خبر نہیں تھی؟ ان کی تنبیہات، ان کی دھمکیاں اور پارسائی کی تبلیغ کوئی معنی نہیں رکھتی۔ سیو دی چلڈرن کے بارے میں بول بول کر بے کار میں وقت ضائع نہ کریں، چودھری صاحب!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں