تصوراتی دنیا کو خیر باد کہیے!

''میں جھوٹ نہیں بولوں گا کہ مجھے کوئی خوف نہیں، لیکن مجھ پر غلبہ تشکر کے جذبات کا ہے۔ میں نے مطالعہ بھی کافی کیا ہے، بہت گھومتا پھرتا بھی رہا ہوں، میری ایک سوچ ہے جسے میں ضبطِ تحریر میں بھی لا چکا ہوں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس خوبصورت سیارے پر ایک ذی شعور اور با فکر مخلوق بن کر جیا ہوں۔ یہ بذاتِ خود ایک بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔ یہ سارا سفر کسی ایڈونچر سے کم نہیں رہا‘‘۔ یہ الفاظ ایک بر لبِ مرگ طبیب کے ہیں۔ یہ صاحب اب وفات پا چکے ہیں۔کاش ہمارے لیڈروں کا رویہ بھی ایسا ہوتا جیسے اس کرۂ ارض پر یہ ان کا آخری دن ہے۔ ہم ایسے لیڈروں کو جھیل رہے ہیں جنہیں اپنی مصنوعی عظمتوں کی واہ واہ سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ اپنی کامیابیوں کے تصورات میں کھو کر یہ لوگ ایسا ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ ایک عظیم الشان تحفہ ہیں‘ جو خدا کی جانب سے پاکستان پر نازل کیا گیا ہے۔یقیناً اب یہ صورت حال رفتہ رفتہ بدل رہی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقاریر پر پابندی لگا دی ہے۔ اس سے پہلے لوگ گھنٹوں ان کی تقریریں جھیلنے پر مجبور ہوا کرتے تھے، مگر ہمارے معزز جج صاحبان کے فیصلے کے مطابق اب مزید ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ چنانچہ پیمرا والوں نے بھی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی تقاریر، تصاویر اور بیانات نشر کرنے پر پابندی عائدکر دی ہے، چاہے یہ براہِ راست ہوں یا ریکارڈ شدہ۔ پہلے کوئی ٹی وی چینل الطاف حسین کی تقریر نشر کرنے سے انکار کی جرأت کرتا تو اسے پتا ہوتا تھا کہ ایم کیو ایم کے مشتعل کارکن ان پر حملہ کر دیںگے۔ شکر ہے، اب کسی کو حملوں کا خوف نہیں ہے۔ یہ حکمنامہ آنے میں اتنی دیرکیوں ہوئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ہمارے سب سیاستدان ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں، آپس میں کمال کا گٹھ جوڑ بھی رکھتے ہیں۔ سو، بالآخر عدلیہ ہی کو آگے آ کر یہ تماشا روکنا پڑا۔ ہم اس اقدام کی تعریف ہی کریںگے۔ 
بہتر ہوتا، آصف زرداری صاحب کے بے معنی بیانات پر بھی پابندی لگا دی جاتی۔ اپنے ترجمان فرحت اللہ بابر کے توسط سے تازہ گل افشانی کرتے ہوئے موصوف نے الطاف حسین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ منفی سیاست سے دور رہیں کیونکہ اس سے ایم کیو ایم کو نقصان اٹھا نا پڑ رہا ہے، اس کے لئے بہتر ہوگا کہ منجدھار کی سیاست میں شامل ہو کر سندھ اور پاکستان کے عوام کی خوشحالی اور ترقی کے لئے کام کرے۔کیا زرداری صاحب بھول چکے ہیں کہ کچھ ہی عرصہ پہلے انہوں نے خود بھی فوج پر الزامات لگائے تھے‘ جس کے بعد وہ لندن فرار ہوگئے۔ یہ ایسا ہی ہے، چھلنی چھان سے کہے کہ تم میں چھید ہیں۔ زرداری صاحب اپنے آپ کو ایسا ظاہرکر رہے ہیں جیسے کوئی فرشتہ ہیں اور ان کی جماعت میں بھی سب ایسے ہی پرہیزگار ہیں‘ جنہوں نے سندھ کو منقسم ہونے سے بچایا اور کراچی کے امن کو یقینی بنایا ہوا ہے۔ وہ کسے احمق بنا رہے ہیں؟ سبھی جانتے ہیں کہ پی پی پی نے اپنے ذاتی مفادات کی ترویج کے سوا اورکچھ نہیںکیا اوراس سارے عمل میں مالی فوائد زرداری صاحب اور ان کے اعزہ و اقربا کو حاصل ہوتے رہے۔ 
اب کچھ ذکر میاں نواز شریف صاحب کا ہو جائے۔ یہاں ہم ایک نقلی خط کا کچھ حصہ دینا چاہیں گے جو جنرل راحیل شریف کی جانب سے وزیر اعظم صاحب کو لکھا گیا۔ حقیقت میں یہ ڈاکٹر شاہد قریشی کی تحریر ہے‘ جو دی لندن پوسٹ نامی اخبار میں شائع ہوئی۔ اس خط میں سفاکانہ بے باکی سے کام لیتے ہوئے پی ایم ایل (ن) کے لیڈروںکی کرپشن دکھائی گئی ہے۔ یہاں ہم مختصراً اس خط سے چند سطریں تحریر کریں گے‘ جن سے قارئین سمجھ سکیںگے کہ اس خط میں کیا طرزِ تحریر اختیارکیا گیا ہے۔۔۔۔۔''مجھے یقین ہے کہ جب آپ مکہ جاتے ہیں تو اپنے کردہ گناہوںکی معافی طلب کرنے کے ساتھ ساتھ ان فوجیوں کے لئے بھی دعائیں کرتے ہوں گے جومحاذ جنگ پر مصروف ہیں۔۔۔۔ یعنی آپ ہمارے لئے دعائیں کر رہے ہیں اور ہم آپ کے لئے مر رہے ہیں‘‘۔ ہر روز اخبارات ایسی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں کہ ہمارے لیڈر کس طرح ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف جنرل راحیل شریف واحد فرد ہیں‘ جو اس ملک کو کرپٹ سیاستدانوں سے پاک کر سکتے ہیں؟ جواب نفی میں ہے۔ ہم لوگ جو دیکھتے اور پڑھتے ہیں کہ عام لوگوں کو کس کس طرح جمہوریت کے نام پہ دھوکے دیئے جا رہے ہیں، اس میں ہمارا کیا بھلا ہے؟
قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ ہفتے ہم نے کچھ اصلی لوگوں کے بارے میں چند باتیں لکھی تھیں۔ آج اسی فہرست میں ہم چند مزید ناموں کا اضافہ کریں گے۔ یہ ان لوگوں کے نام ہیں جن سے ہماری ملاقات اپنے مشرقِ وسطیٰ کے دورے میں ہوئی تھی۔ وہاں ہمارا ڈرائیورطارق نامی اردنی نوجوان تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ہم نیویارک سے جو چاکلیٹ اس کے لئے لائے ہیں، وہ انہیں کھانہیں سکتا کیونکہ ان میں الکوحل ہے۔ ہم نے اسے بتایا کہ ایسا کچھ نہیں۔ ساتھ ہی ہم یہ بھی سوچ رہے تھے کہ اکثر مسلمانوں کی امریکہ سے برگشتگی کا یہ عالم ہے کہ ہر امریکی چیز انہیں غیر اسلامی لگتی ہے۔ ہم نے وضاحت کرنی چاہی لیکن وہ کچھ سمجھنے سے ہی انکارکر رہا تھا۔ اس کی پیدائش اسرائیلی مقبوضہ شہرالخلیل میں ہوئی تھی۔ ابھی وہ بچہ ہی تھا کہ اس کے اہلِ خانہ عمان ہجرت کر گئے۔ اپنی جنم بھومی کو واپس لوٹنا اس کے لئے اب ممکن نہیں حالانکہ وہ صرف پچاس میل کی دوری پر واقع ہے۔ بقول اس کے، میں کیوں یہ چاہوں گا کہ اسرائیل کی بارڈر پولیس کے ہاتھوں ذلیل ہوتا رہوں؟ میری وفاداریاں اب اردن کے ساتھ ہیں۔ راستے میں ہمیں ایک وسیع میدانی علاقہ دکھائی دیا جس کے ارد گرد دائرے کی صورت میں برف جیسے سفید بلند و بالا پہاڑ کھڑے تھے۔ طارق کا کہنا تھا کہ یہ وہ میدان ہے جہاں بروزِ قیامت قبروں سے مردوں کو اٹھا کر جمع کیا جائے گا۔ اسرائیلی مقبوضہ یروشلم کی بلند ترین چوٹی جبل الزیتون پر کھڑے ہو کر ہم نے سارے شہر اور اس کے اطراف کے مبہوت کن نظارے بھی دیکھے۔ پہاڑیوں کے نشیب کی جانب ہمیں سیکڑوں کی تعداد میں کتبے بھی دکھائی دیئے۔ ایک فربہی مائل نوجوان نے آکر ازخود ہمارے گائیڈ کے فرائض سنبھالتے ہوئے ہمیں آگاہ کیا کہ یہ یہودیوں کا قدیم ترین قبرستان ہے اور دائیں جانب مسلمانوں کا قدیم ترین قبرستان ہے۔ جدید عہد نامے کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ یہاں آرام اور عبادت کے لئے آکر ٹھہرے تھے۔ یہیں سے انہوں نے الاحد الشعانین کو یروشلم کی جانب اپنے فاتحانہ سفر کا آغاز کیا تھا۔ راستے میں وہ مستقبل میںاس شہرکی ہونے والی تباہی پر روتے بھی رہے تھے۔ یہیں پر انہوں نے اپنے حواریوں کو وہ خطبہ دیا تھا جس میں انہوں نے اپنی آمد ثانی کی نوید دی تھی۔ تاہم یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کا مسیحا جبل الزیتون پر نزول کرے گا اور شہرِ قدیم کے باب زریں سے یروشلم میں داخل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ زمانہ قدیم سے یہودی انہی پہاڑیوں کے نشیب میں دفن ہوتے آئے ہیں۔ ہم یروشلم کی جامعہ عبریہ میں داخل ہوئے توآس پاس سے ظہر کی اذان کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ یہ اسرائیل کی قدیم ترین اور بہترین یونیورسٹی ہے۔ البرٹ آئن سٹائن سمیت آٹھ نوبل انعام پانے والوں کی یہ مادرعلمی رہی ہے۔ آئن سٹائن اس یونیورسٹی کے بانیوں میں شامل تھے۔کیمپس سنسان پڑا تھا کیونکہ طلبا گرمیوں کی تعطیلات پر جا چکے تھے۔ ایک طالب علم ریسرچر(محقق) سے البتہ ہماری ملاقات ہوئی جو''روح جدید‘‘ کے انٹرن شپ پروجیکٹ میں شریک تھا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ ہمیں عملی مہارت دی جاتی ہے تاکہ ہم ہائی ٹیک ، ماس کمیونی کیشن، پالیسی اور حیاتیاتی طب جیسے شعبوں میں اچھی ملازمتیں حاصل کر سکیں۔ نیٹ ورکنگ کے ذریعے کاروباری رابطے وہ پہلے ہی سے استوار کر چکا ہے۔ یروشلم کے ایک ہوٹل میں جب ہم داخل ہوئے تو وہاں ہماری ملاقات ایک عرب اسرائیلی نوجوان لڑکی نروانہ سے ہوئی۔ اس نے ہماری کافی مدد کی۔ اس نے ہم سے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے ہمارے اس دورے کو یادگار بنا دے گی، اور ایسا اس نے کیا بھی۔ نوجوانوں اور ہم جیسے سن رسیدہ لوگوں میں فرق اسی جوش و ولولے کا ہوتا ہے۔ ہماری عمریں چاہے جس چیز کی بھی علامت ہوں، لیکن لوگ بہرحال پیچیدہ ہوتے ہیں اور ان کی آسانی سے ''اصطلاح بندی‘‘ ممکن نہیں ہوتی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں