ستمبر کی ایک شام

چھ ستمبر کا دن آیا اور گزر گیا۔ کالم نگاروں نے 1965ء کی جنگ کے بارے میں بہت کچھ لکھا۔ بعض نے اسے ایک غلط جنگ قرار دیا اور بعض نے الزام اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے خارجہ سیکرٹری عزیز احمد کے سر دھرا کہ ان دونوں نے صدر ایوب کو غلط مشورہ دیا تھا۔ اس جنگ کے لئے ہمارے فوجی اور سویلین دونوں قسم کے لیڈروں کی عدم تیاری کے ہم خود عینی شاہد ہیں۔ 5 ستمبر کی شام ہم سب راولپنڈی کی مری روڈ پر واقع ویسٹ پاکستان ہاؤس میں جمع تھے، اس وقت کے وزیر خزانہ محمد شعیب کے بیٹے کی شادی کی تقریب تھی۔ ایوب خان بھی موجود تھے۔ وہ ایک خوبصورت شام تھی۔ مہمانوں کے لئے نشستوں کا انتظام باہر باغیچے میں کیا گیا تھا۔ اس وقت کے مقبول گانے بجائے جا رہے تھے۔ ایوب خان کی پوری کابینہ بھی وہیں تھی۔ بری و بحری افواج اور فضائیہ کی اعلیٰ قیادت بھی موجود تھی۔ اچانک ایک اہلکار آیا اور اس نے صدر ایوب کے کان میں سرگوشی کی۔ صدر ایوب کا چہرہ لال ہوگیا۔ وہ اسی اہلکارکے پیچھے پیچھے ایک کمرے کی جانب چل دیے۔کسی نہایت اہم شخصیت کی جانب سے انہیں فوری نوعیت کی ٹیلی فون کال کی گئی تھی۔ انہیں بتایا گیا کہ بھارت لاہور پر حملہ کرنے والا ہے۔ اس کے بعد صدر ایوب شادی کی تقریب میں لوٹ کر نہیں آئے۔ وہیں سے سیدھے آرمی ہاؤس چلے گئے جو چند میل کی دوری پر تھا۔ مہمانوں میں بھی چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں اور رفتہ رفتہ آوازیں بلند ہونے لگیں۔ مہمانوں میں بے چینی بڑھ گئی۔ ہم میں سے اکثر کو محسوس ہوگیا کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑضرور ہے۔ مہمان بھی رخصت ہونا شروع ہوگئے۔ 
پنڈی کی سول لائنز میں ہمارا گھر ذوالفقار علی بھٹوکے گھرکے پاس ہی تھا۔ ہمارے بالکل سامنے محمد شعیب رہتے تھے۔ اپنی گلی میں اس روز ہم نے کوئی غیر معمولی سرگرمی نہیں دیکھی تھی۔ ہمارے گھر میں بھی کوئی پریشان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ رات کے کھانے کے وقت ہمارے والدین بھی معمول کے مطابق گپ شپ کر رہے تھے۔ پھر ہم سب سونے چلے گئے۔ آدھی رات کے قریب ایک زور دار دھماکے کی آواز نے ہم سب کو جگا دیا۔ ہم سب لائونج کی طرف دوڑے تاکہ دیکھیںکیا ہو رہا ہے۔ کھڑکیوں سے ہم نے آسمان پر تیز روشنی کی ایک لپک دیکھی جس کے بعد بہرہ کر دینے والی دھماکے دار آواز سنائی دی۔ چند ہی لمحوں بعد ہم نے گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنی، یہ ویسی تڑتڑاہٹ تھی جو جہاز سے داغی گئی گولیوں کی ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چند منٹ جاری رہا اور پھر سناٹا چھا گیا۔ اس رات عوامی انتباہ کے لئے کوئی سائرن نہیں بجائے گئے تھے، گھروں کی بتیاں بجھائے رکھنے کی کوئی ہدایات بھی ہمیں نہیں دی گئی تھیں۔ بھارتی فضائی حملے کے دوران اعلیٰ قیادت سمیت پنڈی کے عوام بالکل غیرمحفوظ تھے۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہندوستانی بمبارجنہیں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو تباہ کرنے بھیجا گیا تھا، اپنا ہدف پانے میں ناکام رہے۔ اس رات خدا نے ہی ہمیں بچایا۔ اگلی صبح ہم نے سنا کہ دو بھارتی بمبار پاکستان میں داخل ہوکر اس وقت ہمارے دارالحکومت راولپنڈی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ چکلالہ ایئر پورٹ ان کا ہدف تھا۔ وہ نیچی پرواز کر رہے تھے، اس لیے اپنا ہدف ان سے چھوٹ گیا اور اس کے بجائے سیٹیلائٹ ٹائون کے قریب ایک کھلے میدان میں بم گرادیے۔ اطلاعات کے مطابق چند افراد جاں بحق بھی ہوئے؛ تاہم ہمارے جنگی جہاز بھارتی بمباروں کو بھگانے میںکامیاب رہے۔ 
6ستمبر کی دوپہر صدر ایوب خان نے ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت سے ہماری جنگ چھڑ چکی ہے۔ سہ پہر تک ہمارے گھر کے پچھواڑے میں خندق کھودنے کے لئے لوگ پہنچ چکے تھے۔ جنگ کی دوسری رات مکمل بلیک آئوٹ کیا گیا تھا۔ ہم نے کھڑکیا ں بھی سیاہ کاغذ سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ خطرے کا سائرن بجا تو ہم جلدی سے خندقوں میں جا چھپے اور جب تک خطرہ گزر جانے کا سائرن نہیں بجا، ہم وہیں چھپے رہے۔ لاہو رکا محاذ جنگ بہت گرم تھا۔ اس کے بعدکئی دنوں اور مہینوں تک بیگم نصرت بھٹو اور دیگر وزرا و افسران کی بیگمات پنڈی کلب میں جمع ہوکر محاذ پہ لڑنے والے جوانوںکے لئے پیکیجز تیارکرتی رہیں۔
1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے مایہ ناز ہیرو ایئرکموڈور (ر) سجاد حیدر نے ایک نئی کتاب لکھی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ہائی کمان نے اس جنگ میں پاکستان فضائیہ کو اعتماد میں لینے سے گریزکیے رکھا۔ انہوں نے پاکستان کی بری اور فضائی فوج کے ان افراد کے نام بھی بتائے ہیں جو بقول ان کے''خود اپنے سائے سے بھی لرزاں‘‘ رہتے تھے۔ انہوں نے 
پاکستان کی فضائی فوج کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کو بھی مایوس کیا۔کوئی معتبرنوعیت کی گہری تحقیقات نہیں ہوئی۔ جو لوگ دھوکہ دہی کے مرتکب پائے گئے انہیں کوئی سزا بھی نہیں دی گئی۔ سجاد حیدر کہتے ہیں: ''اس کے برعکس اسی طرح کے لوگوں نے ہماری کامیابیوں کا سہرا اپنے سر پر باندھا اور شجاعت کے اعلیٰ ترین اعزازات حاصل کیے‘‘۔ ایئرکموڈور(ر) سجاد حیدر سکوارڈن نمبر 19کی قیادت کر رہے تھے جس نے واہگہ پر ہندوستانی پائلٹوں کو بھاگنے پر مجبورکر دیا تھا اور بعد میں پٹھانکوٹ پر بمباری کر کے وہاں کھڑے بھارتی جہازوں کو بھی تباہ کر دیا تھا۔
لگ بھگ یکم ستمبر کو ایوب حکومت کے ایک سینئر سرکاری افسر سے برطانوی سفیر نے ملاقات کی جو پہلے سے طے شدہ نہیں تھی۔ برطانوی سفیر نے اس افسرکو بتا دیا کہ ''بھارت پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے، اپنے صدر کو آگاہ کر دیجیے‘‘۔ برطانوی سفیرکے رخصت ہوتے ہی اس افسر نے اپنا مخصوص فون اٹھا کر یہ پیغام ایوان صدر تک پہنچا دیا تھا۔ ہمارے صدر صاحب غیر یقینی کیفیت کا شکار رہے، یہاں تک کہ چھ ستمبرکی شب راولپنڈی نے بھارتی غضب کا اولین ذائقہ چکھا۔ بھارتی بمبار ہمارے سروں پر منڈلاتے رہے، بمباری کرتے رہے۔اس کے بعد لاہورکی باری تھی۔ 
سیکرٹری خارجہ اپنے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ اپریل سے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں سات ہزار رضاکارجنگجوئوں کی دراندازی کی منصوبہ بندی پر عمل درآمد کر رہے تھے۔ اسی سے بھارت کو پاکستان پر حملے کی تحریک ملی۔ سجاد حیدر لکھتے ہیں کہ ہمارے فوجیوں کو خوراک اور اسلحے کی فراہمی کے حوالے سے کسی کو کوئی ہمدردی نہیں تھی اور نہ ہی اس بارے میںکوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ ہمارے بہت سے لوگ جاں بحق ہوگئے کیونکہ ہمارے 'فیلڈ مارشل‘ کوئی فیلڈ مارشل رومیل نہیں تھے۔ بھارتی ایئر فیلڈز پر حفاظتی حملوںکا ایک گرینڈ پلان پاک فضائیہ کے پاس موجود تھا۔ فضائیہ کے سبکدوش ہونے والے سربراہ اصغر خان نے اسے تیارکیا تھا۔ اس شدید ترین جنگ کا لمحہ لمحہ یاد کرتے ہوئے سجاد حیدر لکھتے ہیں کہ اگر اس پلان پر عمل ہو جاتا تو بھارتی فضائیہ کو چھ ستمبرکے حملے کے پہلے ہی گھنٹے میں ہم مفلوج کر کے رکھ سکتے تھے، لیکن ہمارے دونوں سب سے بڑے ہوائی اڈوں ماڑی پور اور سرگودھا کے کمانڈروں نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھا۔
سجاد حید ر جنگی ہیرو بھی ہیں اور ہمارے دوست بھی! انہیں حکومت پاکستان ستارۂ جرأت سے بھی نواز چکی ہے۔ ان کی آواز شاید خلوص، معقولیت اور صداقت کی واحد آواز ہے۔کہاں کہاں، کن کن لوگوں کے غلط فیصلوں نے کیسے کیسے ہمیں فتح یاب ہونے سے روکے رکھا، اس بارے میں حقائق بتلا کر ریکارڈ کی درستی کو وہ اپنی زندگی کا مقصد بنا چکے ہیں۔ یہ ہمارے مؤرخین کی خود غرضی ہے کہ وہ ہماری کامیابیوں کو تو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو اور عزیز احمدکی سنگین غلطیوں پر کوئی روشنی نہیں ڈالتے۔ سجاد حیدر قصہ گوئی کا قدرتی ملکہ رکھتے ہیں۔ 1965ء کی جنگ کی داستان کی آنکھوں دیکھی تفصیل وہ ہمیں اپنی بیسٹ سیلر کتاب "Flight of the Falcon" میں سنا رہے ہیں۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی صداقت ہے۔ ہمیں اس کی قدر کرتے ہوئے کچھ سبق سیکھنا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں