وصولی ناممکن ہے!

اگر موجودہ صدر یا وزیر اعظم قومی خزانہ لوٹ رہے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ انہیں پکڑا جائے تو اس ضمن میں کچھ سیکھنے کے لئے اپنی توجہ ملائیشیا پر مرکوز کیجئے، جہاں وزیر اعظم نجیب رزاق پر یہ الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ سوئس بینکوں میں موجود ان کے ذاتی اکائونٹس میں لاکھوں کروڑوں ڈالرز منتقل ہو چکے ہیں۔ اس سے ہمیں وہ ساٹھ ملین ڈالر یاد آگئے جو بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری نے اپنے سوئس اکاؤنٹس میں جمع کرائے تھے۔ جب نواز شریف دوسری بار وزیر اعظم بنے تو انہوں نے چوری کی گئی یہ رقم منجمد کرا دی تھی؛ تاہم جنرل مشرف کے این آر اوکی بدولت یہ رقم غیر منجمد ہوکر بے نظیر اور زرداری کو واپس مل گئی اور قصہ ختم ہوا!
پاکستان میں آپ کو بڑی چکنی گفتگوکرنے والے وزیرخزانہ نظر آئیں گے۔ نام ہے ان کا اسحاق ڈار۔ انہوں نے بڑے فخر سے اعلان فرمایا تھا کہ ان کی حکومت نے سوئس بینکوں میں چھپائے گئے دو سو بلین ڈالر پاکستان واپس لانے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ جی ہاں! آپ نے درست پڑھا! دو سوبلین ڈالر جو سب سوئس بینکوں میں چھپا کے رکھے گئے ہیں۔ لیکن ا ن کی اس لاف وگزاف کی تردید اسلام آباد میں سوئٹزرلینڈ کے سفیر نے فوراً کردی تھی۔ سوئس سفیر مارک جارج نے میڈیا کو بتایا تھاکہ حکومت کی جانب سے کسی نے بھی چوری کی گئی رقم کی واپسی کے لئے ان کے ملک سے رابطہ نہیںکیا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا: ''پاکستان کی طرف سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی گئی‘‘۔ کیا میڈیا نے اسحاق ڈار سے ان دوسو بلین ڈالرز کے بارے میں پوچھا؟ سال گزر گیا لیکن کہاں ہے وہ رقم جوبقول ان کے واپس لائی جا رہی تھی؟ وہ عوام کو ایسے بیانات سے بیوقوف کیوں بناتے ہیں جبکہ ان پر عمل کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر اسحاق ڈار صاحب کو دو سو بلین ڈالرکا علم کہاں سے ہوا؟ یہ ٹھیک ہے کہ وہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں، لیکن وہ فرانزک ماہر نہیں کہ انہوں نے مالیاتی دستاویزات جانچ کر عشروں میں چوری شدہ رقم کا سراغ لگانے کی زحمت کی ہوگی۔ اگرآپ چوری شدہ رقم کی مقدار بتا رہے ہیں تو آپ کے پاس اس کا ثبوت بھی لازمی طور پر ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ ڈار صاحب کو ثبوت کہاں سے ملا؟ اور زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ان دو سو بلین ڈالرزکے مالک کون سے پاکستانی ہیں؟ ہمیں بے معنی دعوے نہیں، واضح جوابات چاہئیں! ہمارے وزیر خزانہ نے دو سو بلین ڈالرز کی مقدار بتائی، اس بارے میں سوئس سفیر مارک جارج سے پوچھا گیا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا: ''ہمیں علم نہیں کہ یہ اعداد و شمار کہاں سے آئے یا ان کے ذرائع کیا ہیں‘‘۔ 
ہمارے وزیر خزانہ کو ملائیشیا سے کچھ سیکھنا چاہئے جہاں وزیر اعظم کے عہدے پر متمکن شخص پر عائد ان الزامات کی تحقیقات ہو رہی ہے کہ انہوں نے قومی خزانے سے لوٹا ہوا پیسہ سوئس بینکوں میں جمع کرا رکھا ہے۔ اس سکینڈل میں سوئس بینک تعاون کر رہے ہیں جبکہ نجیب رزاق کی حکومت تحقیقات کا راستہ روکنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق کئی تحقیق کار کھڈے لائن لگا دیئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم سے برسر پیکار ایک نشریاتی ادارے کے جرائدکی اشاعت معطل کر دی گئی ہے اور ایک نائب وزیر اعظم جو بے شمار سوالات اٹھانے کے مرتکب ٹھہرے ہیں، انہیں بھی برطرف کر دیا گیا ہے۔ لیکن ملائیشیا کے عوام کا عزم برقرار ہے۔ وہ سڑکوں پر نکل کر وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی اپنی جماعت کے افراد بیرون ملک جا کر غیر ملکی حکومتوں اور ایجنسیوں سے کہہ رہے ہیں کہ ان کے وزیر اعظم کے خلاف لگائے گئے ان الزامات کی تحقیقات کی جائے کہ انہوں نے اختیارات ذاتی مفادکے لئے استعمال کرتے ہوئے اورکالے دھن کو سفید کرایا۔ نیویارک ٹائمزکی رپورٹ کے مطابق سوئس حکام پہلے ہی نجیب رزاق کے اثاثوں کی چھان بین کر رہے ہیں۔
ہانگ کانگ کی پولیس کہہ رہی ہے کہ وہ بھی سوئس بینک میں جمع کرائی گئی رقوم کی تحقیقات میں مصروف ہے۔ چھ برس قبل وزیر اعظم نجیب رزاق نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر اقتصادی ترقیاتی فنڈ شروع کیا تھا جس کے ایک ارب ڈالرگم ہو چکے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں ایک سرکاری سرمایہ کاری فنڈ مبینہ طور پر اس سکینڈل کی تحقیقات کر رہا ہے۔ نجیب رزاق کی اپنی جماعت کے ایک رکن خیرالدین ابو حسن گزشتہ تین ماہ میں سوئٹزرلینڈ، برطانیہ، فرانس، ہانگ کانگ اور سنگا پورکے دورے چکے ہیں جن کا مقصد متعلقہ لوگوںکو اس سکینڈل کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے۔ایک انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ یہ ان کے ملک کا سب سے بڑا مالیاتی سکینڈل ہے۔ افسوس، پولیس ان لوگوںکو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کر رہی ہے جواس رقم کے سلسلے کی کڑیاں کھوجنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ خیرالدین ابو حسن کو ملائیشیا کے با رسوخ سیاستدانوں اورناراض سرکاری حکام کی حمایت اورپشت پناہی حاصل ہے۔
اب واپس آتے ہیں اپنے ملک میںکئی عشروں سے لوٹ مار میں مصروف سیاستدانوں کو گرفت میں لینے کے لئے ہونے والی کوششوں کی جانب۔ نواز شریف جب دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے پوری کوشش کی کہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو ساٹھ ملین ڈالرزکی مبینہ چوری کے الزام میں سزا دلوائی جائے۔ یہ رقم سوئس بینکوں میں پڑی تھی اور حکام نے اسے'' ناجائز دولت ‘‘ قرار دے کرمنجمد بھی کر دیا تھا۔ اس کرپشن کے بارے میں پاکستانی اخبارات میں سیکڑوں کالم لکھے گئے اور نواز حکومت نے یہ رقم وطن واپس لانے کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کئے۔ کیا ہمارے پریس والے 2006ء کے موسم بہار کی وہ پریس کانفرنس بھول گئے جو اس وقت نیب کے نائب چیئرمین حسن وسیم افضل نے اسلا م آباد میں کی تھی؟ اسے تمام نیٹ ورکس پر براہِ راست نشر بھی کیا گیا تھا۔ موصوف نے نیب کی تحقیقاتی رپورٹوں کی نقول میڈیا کو فراہم کی تھیں جن میںبڑی بڑی اور معروف مچھلیوں کا ''ذکرِ خیر‘‘ تھا۔ اگلے دن کے اخباروں میں ان تحقیقات کی تفاصیل شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی تھیں۔ نیب کی آفیشل ویب سائٹ پر بھی اس کرپشن کی تفصیلات نمایاں طور پر چسپاں کی گئی تھیں، لیکن پھر ایک دن وہ ساری تفصیلات وہاں سے غائب ہوگئیں جیسے ہوا میں تحلیل ہوگئی ہوں۔ 
سوئس لوگ اپنی بے باکی اور بے تکلفی کے لئے مشہور ہیں۔ ہمارے لیڈروںکے برعکس وہ حقائق کو پوشیدہ رکھنے کے قائل نہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ چند برس قبل اسلام آباد میں سوئس سفیر سے ہماری بات چیت ہوئی تھی۔ یہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت کی بات ہے۔ سفیر صاحب نے ہمیں بتایا تھا کہ پاکستان کے '' زوجین اول‘‘ نے ساٹھ ملین ڈالر سوئس بینکوں میں رکھے ہوئے ہیں۔ ہم یہ سن کر حیران رہ گئے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ہم یہ بات ان کے نام کے حوالے کے ساتھ چھاپ دیں گے۔ انہیں اس پر قطعی کوئی اعتراض نہیں تھا، بلکہ وہ اس پہ بھی رضامند تھے کہ بعد میں کسی وقت سفارت خانے جاکر ہم ان کا انٹرویو کر لیں۔ یہاں ہم ایک امریکی صحافی، قلم کار، دانش ور، بزنس مین اور''مالیاتی جرائم کی تحقیقات کے شعبے کے معتبر ماہر‘‘ ریمنڈ بیکر کی تحریر کردہ کتاب 'Capital's Achilles Heel:Dirty Money and How to Renew the Free-Market System' کا حوالہ بھی دینا چاہیںگے۔ اس وقت یہ موصوف واشنگٹن ڈی سی میں گلوبل فنانشل انٹیگریٹی نامی ریسرچ اینڈ ایڈووکیسی آرگنائزیشن کے سربراہ ہیں۔ یہ تنظیم رقوم کی ناجائز ترسیلات کے انسداد کے لئے کام کرتی ہے۔ ریمنڈ بیکر نے اس کتاب میں ایک پاکستانی بینکار کا قول نقل کیا ہے جس نے انہیں بتایا تھا کہ'' ہم پاکستانی جائز اور ناجائز کی تفریق سے قاصر ہو چکے ہیں۔ جن لوگوں نے ناجائز ذرائع سے رقوم ہتھیائی ہیں، ان سے کوئی بھی نفرت نہیں کرتا۔ ہمارا معاشرہ نگہداری کا کردار ادا نہیں کر رہا‘‘۔ بے نظیر و زرداری اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی کرپشن کاکچا چٹھا جو ریمنڈ بیکر نے اپنی کتاب میں کھولا تھا، اس کو بھی اب دس برس بیت چکے ہیں۔ سو دوسو بلین ڈالرزکو بھی ہمیں بھول جانا چاہئے۔ ہم ان کی وطن واپسی کا نظارہ کبھی نہیں کر سکیںگے کیونکہ یہ اربوں ڈالرز بھی واقعتاً ''بر باد‘‘ یعنی ہوا کے دوش پہ اڑتے ہوئے کہیں غائب ہو چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں