چلو چلو ، یو این چلو

پچھلے دنوں اقوامِ متحدہ میں بڑی انوکھی باتیں دیکھنے کو ملیں۔ پہلے ہم نے یہ سنا کہ جنرل اسمبلی کے ایک سابق صدر بہت بڑی کرپشن کے الزام میں گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ ان کا نام جان ایش ہے اور یہ صاحب ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں اربوں کما چکے ہیں۔ ان پر چین کے کاروباری افراد سے تیرہ لاکھ ڈالر سے زائد رقم بطورِ رشوت وصول کرنے کا الزام ہے۔کیا واقعی اقوامِ متحد ہ میںکرپشن کا کاروبار معمول بن چکا ہے؟ ہر سال ستمبر میں اس با وقار ادارے کے زیر اہتمام دنیا بھر سے 193 سربراہانِ حکومت اس کے اجلاس میں شرکت کے لئے نیویارک آتے ہیں۔ اجلاس میں مختلف زبانوں میں لمبی لمبی اکتا دینے والے تقاریر ہوتی ہیں۔ سامعین کی بڑی تعداد ان تقاریر کے دوران سوئی ہوتی ہے، اس کے باوجود عالمی رہنما سج دھج کر اس اجلاس میں شرکت کے لئے جاتے ہیں، ان کے ساتھ بڑے بڑے وفود بھی ہوتے ہیں جن کا سارا خرچ سرکاری خزانہ اٹھاتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے بھی یہ سب کچھ کیا۔کبھی کسی لکھاری نے ہمت کر کے اس اجلاس میں شریک ہونے والے ہمارے حکمرانوں کے بارے میںکتاب لکھنے کی ٹھان لی، تو امریکہ میں ہمارے حکمرانوں اور ان کے خوشامدیوں کا جو رویہ ہوتا ہے اور وہاں وہ سرکاری خزانے سے جو عیش کرتے ہیں، اس کی متعدد رنگین تفصیلات سامنے آجائیں گی۔ 
2008ء میں سابق صدر آصف زرداری جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے گئے تو نیویارک کے جس ہوٹل میں وہ ٹھہرے وہاں سارہ پالن بھی ان سے ملاقات کے لئے آئیں۔ اس ملاقات کے دوران جو کچھ زرداری صاحب نے کہا وہ یقیناً قارئین کو یاد ہوگا۔ پاکستان میں ان کی انہی باتوں کی وجہ سے مذہبی حلقوں کی جانب سے ان پر ''فتوے‘‘ بھی لگے۔ زرداری صاحب نے سارہ پالن کو دیکھ کر یہ کہا تھا کہ تصویروں کی نسبت اصل زندگی میں وہ ''کہیں زیادہ خوبصورت ہیں‘‘ اور اب انہیں معلوم ہوا کہ کیوں ''امریکی ان کے اس قد ر دیوانے ہیں‘‘۔ صرف یہی نہیں، انہوں نے سارہ پالن کے ساتھ مصافحے سے بڑھ کر معانقے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔ شیری رحمان ان دنوں وزیر اطلاعات تھیں۔ انہوں نے بھی سارہ پالن کے ظاہری حلیے پر یوں تبصرے کیے جیسے اس کے ساتھ ان کا برسوں کا دوستانہ ہو۔ نیویارک کے میڈیائی حلقوں میں ان باتوں کو خوب اچھالا گیا تھا۔
زرداری صاحب نے اپنا مزید تماشا اس وقت بنایا جب وہ اپنی مرحومہ اہلیہ کا قد آدم پورٹریٹ لے کر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے پہنچے۔ نجانے انہوں نے کیا سوچ کر ایسا کیا؟ کیا ان کا یہ خیال تھا کہ اپنی مرحومہ اہلیہ کی تصویر دکھا کر وہ سامعین کا دل جیت لیں گے؟ نتیجہ بہرحال ان کی توقعات کے برعکس رہا۔ امریکی میڈیا میں زرداری صاحب کے سارہ پالن کے ساتھ عشقیہ مکالمے کے سوا اور کسی چیز کو اہمیت نہ ملی۔ رحمان ملک اور زرداری صاحب کے ساتھ جانے والے دیگر وزیروں کی بعض تصویریں البتہ سوشل میڈیا پہ ضرور مقبول ہوئیں جن میں انہیں لمبی لمبی لیموزینز پرلطف اندوز ہوتے دکھایا گیا تھا۔ نجانے ہمارے لیڈروں کے سر پر لمبی لیموزینزکا خبط کیوں سوا ر رہتا ہے۔
ہمیں یاد ہے جب اپنے دوسرے دورِ حکومت میں نواز شریف صاحب اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے نیویارک آئے تو اپنے وفد میں شامل وزراء اور دیگر ساتھیوں کے لئے وہ بھی لگا تار لمبی لیموزینیں کرائے پر منگواتے رہے۔ شیروانیوں میں ملبوس یہ لوگ مین ہٹن میںگھومتے ہوئے انسانوں سے زیادہ پینگوئن معلوم ہوتے تھے۔ نیویارک کے مہنگے ترین ہوٹلوں میں ان کا قیام تھا جن کے بلوں کی ادائیگی سرکاری خزانے سے ہوئی۔ ہر سال اقوام ِمتحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتا ہے تویہ بے رحم رہنما ہمارا خون چوسنے نیویارک پہنچ جاتے ہیں۔ ہم اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کو''Hotel Fantasia‘‘کہتے ہیں کیونکہ موج مستی اور کھیل تفریح اس کے ایجنڈے میں سرفہرست ہوتی ہے۔
نجانے ہمارے لیڈر والڈراف ایسٹوریا کے عشق میں کیوں مبتلا ہیں؟ اس کا شمار نیویارک کے مہنگے ترین ہوٹلوں میں ہوتا ہے۔ نواز شریف اور ان کے ساتھی ہر سال وہیں ٹھہرتے ہیں۔ اگر صدر اوباما وہاں ٹھہرتے ہیں توٹھیک ہے، آخر امریکہ دنیا کا امیر ترین ملک ہے۔ پاکستان کا شمار تو غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اگرمودی صاحب بھی اس بار والڈراف ایسٹوریا ہی جا کر ٹھہرے تو کیا ہوا؟ یہ بھارت کا مسئلہ ہے، ہمارا نہیں۔ ہمیں اس کی پروا کیوں ہونی چاہیے؟ لیکن ٹھہریے، پروا شاید ہونی چاہیے! کیونکہ مودی اورنواز شریف دونوں نے ایک دوسرے پر اپنے ملک میں دہشت گرد بھجوانے کے الزامات اور جوابی الزامات لگائے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کا پلان تھا کہ وہ اپنے بھارتی ہم منصب کو خود براہِ راست ایک فائل تھمائیں گے جس میں پاکستان کے اندر بھارتی مداخلت اور دہشت گردی کے ملوث ہونے کے ثبوتوں پر مبنی دستاویزات ہوںگی۔ لیکن بد قسمتی سے دونوں رہنمائوں کی بالمشافہ ملاقات نہ ہو پائی۔ معاف کیجیے، لیکن کیا نواز شریف مودی صاحب کے فلور اور کمرے کا نمبر معلوم نہیں کر سکتے تھے؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ و ہ خود چل کر جاتے، مودی صاحب کے کمرے کے دروازے پہ دستک دیتے، ان سے علیک سلیک کرتے، یا معانقہ کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہ ہوتا! اور پھر باتوں کے دوران وہ فائل انہیں تھما دیتے۔ اس کی بجائے وزیر اعظم نے اقوامِ متحدہ میں پاکستانی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو یہ فائل پیش کریں۔ اس فائل میں
"India's interference and support to terrorism in Balochistan,FATA and Karachi through TTP " 
کے عنوان سے تین دستاویزات تھیں۔ قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز کے مطابق ہردستاویز پندرہ بیس صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ وقت آنے پر ان دستاویزات کا متن میڈیا میں بھی جاری کر دیا جائے گا۔
جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں نواز شریف نے کہا،'' عقل کا تقاضا ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک پاکستان میں عدم استحکام کو ہوا دینے سے باز رہے۔ دونوں ممالک کو تنائو کے اسباب پر غور کر کے ان کے حل کی کوشش کرنی چاہیے اور اسے مزید طول پکڑنے سے روکنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے چاہئیں‘‘۔ جواب میں مودی صاحب نے اپنے خطاب کا آغاز ہی اس بات سے کیا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ سنجیدہ دو طرفہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے پاکستان کو ''موزوں ماحول‘‘ تخلیق کرنا ہوگا۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی اپنے وزیر اعظم کی باتیں دہرائیں اور پاکستان پر الزام لگایا کہ یہ بھارت کے ساتھ مذاکرات بھی چاہتا ہے اور دہشت گردی کی معاونت بھی کرتا ہے۔ نتیجہ کیا رہا؟ بھارت اور پاکستان کے ٹیکس دہندگان ان لیڈروں کے والڈراف ایسٹوریا جیسے مہنگے ہوٹلوں میں قیام کے خرچے اٹھاتے ہیں لیکن فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ دونوں ممالک کے درمیان تنائو جوں کا توں ہے اور یہ برسوں سے جو الزام تراشیاں ایک دوسرے پر کر رہے ہیں، صرف انہی کوپھر سے دہرایا گیا۔ دونوں ممالک کے وسائل اور زر مبادلہ کس قدر ضائع ہوئے۔ یہ سارا پیسہ دونوں ممالک میںکئی دوسری مدوں پر خرچ ہو سکتا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم کے امریکی دورے کی ایک دل چسپ بات یہ رہی کہ وہ کیلی فورنیا میں واقع فیس بک کے ہیڈکوارٹرزگئے اور وہاں اس کے سی ای او مارک ذکر برگ سے ملاقات کی جس پر بھارت میں غصے کی لہر نظر آتی ہے اورکافی احتجاج بھی ہوا۔ نریندر مودی پر یہ الزام ہے کہ 2002ء میں جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، مسلم کش فسادات میں ملوث تھے۔ الائنس فار جسٹس اینڈ اکائونٹیبلٹی سے وابستہ کارکنان نے ایک ویب سائٹ بنا ڈالی جس کا نام ہے "Zuck, wash your hands!"۔ اس ویب سائٹ پر ذکر برگ سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ چونکہ ایک ایسے شخص سے ملے ہیں‘ جس نے قتل عام کروایا اس لیے اب انہیںاپنے ہاتھ دھونے ہوںگے۔ سب جانتے ہیں مارک ذکر برگ دنیا کہ کم عمر ترین ارب پتی ہیں۔ مودی کے ساتھ مصافحے کے بعد ان کے ہاتھ پر لگے خون کے دھبوں کو مٹانے کے لئے لوگ انہیں جراثیم کش محلول کی بوتلیں بھجوا رہے ہیں۔ ہر بوتل پر گجرات کے فسادات میں ہلاک ہونے والوں میں سے کسی ایک کا نام درج ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں