دورے سے پہلے کی تیاریاں

جس وقت یہ سطور آپ کے زیرِ ملاحظہ آئیں گی، وزیر اعظم نواز شریف اپنے امریکی دورے پر ہوں گے۔ اس کا نتیجہ تو دورے کے اختتام پر معلوم ہوگا کہ صدر اوباما اور وزیر اعظم نواز شریف کے مابین کن امور پر بات چیت ہوئی اور کن نکات پراتفاق ہوا۔ اس دورے سے قبل امریکی اور بھارتی میڈیا یکدم متحرک ہوگیا ہے۔ اوباما انتظامیہ کی جانب سے دی گئی معلومات اور سابق پاکستانی اہلکاروں کی زبان نے انہیں ایک محرک فراہم کیا ہے۔ پاکستانی اہلکار غیر ملکی میڈیا کو انٹرویوز دے کرخبروں میں رہنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ تازہ ترین بم ہمارے سابق وزیر دفاع چودھری احمد مختار نے پھوڑا ہے۔ ایک بھارتی چینل کو دیے گئے انٹرویو کی جھلکیوں میں وہ ہمیں اس خیال سے متفق نظر آتے ہیں کہ 2011ء میں امریکی فوجیوںکی کارروائی سے بہت پہلے پاکستان کی اعلیٰ سطحی سویلین اور فوجی قیادت اس بات سے باخبر تھی کہ اسامہ بن لادن اسی ملک میں قیام پذیر ہے۔ چودھری صاحب کی الفاظ کی ادائیگی ویسے بھی عموماً ابہام کا شکار رہتی ہے؛ تاہم اب وہ اس بات کی تردید کر رہے ہیں کہ انہوں نے ایسا کچھ کہا ہے کہ ہمارے سابق صدر آصف زرداری، سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جائنٹ چیف آف سٹاف سبھی پاکستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا علم رکھتے تھے۔ انہوں نے بندوق سے گولی داغ دی ہے لیکن اب کسی طرح اسے واپس بندوق میں ڈالنا چاہ رہے ہیں۔ تاہم اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ کسی بھارتی چینل کو انٹرویو دینا کسی فساد کو ہی جنم دے سکتا ہے کیونکہ ان کے الفاظ کو مسخ کر کے یا پھر سیاق وسباق کے بغیر پیش کیا جا سکتا ہے۔ نجانے انہیں یہ مشورہ کس نے دیا تھا کہ وہ کسی بھارتی کو انٹرویو دیں۔ کیا یہ ان کے اس باس کی تجویز تھی جو دبئی جا چکے ہیں؟۔
اگر آپ کو یاد ہو تو اس سال موسمِ گرما کے اوائل میںہمارے ایک اور سابق جرنیل اور آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سابق ڈائریکٹر جنرل اسد درانی نے بھی الجزیرہ ٹیلی وژن کو انٹرویو دیا تھا جس میں انہوں نے یہ الزام لگایا تھا کہ آئی ایس آئی ایبٹ آباد میں اپنے ایک محفوظ ٹھکانے میں اسامہ بن لادن کی حفاظت کر رہی تھی۔ چودھری احمد مختار ہی کی طرح اسد درانی نے بھی انکارکیا کہ انہوں نے امریکی صحافی سیمور ہرش سے ایسی کوئی بات کہی تھی کہ ایک آئی ایس آئی اہلکار نے ایک دن اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے جا کر سی آئی اے کو یہ بتایا تھا کہ اسامہ بن لادن کہاں روپوش ہے اور یہ بھی کہ آئی ایس آئی نہ صرف یہ جانتی ہے کہ اسامہ کہاں ہے بلکہ وہ اس کی حفاظت بھی کر رہی ہے۔ پچھلے اتوار کو دی نیویارک ٹائمز میگزین کے سر ورق پر اسامہ بن لادن کا ایک خاکہ چھپا تھا جس کے ساتھ یہ سرخی دی گئی تھی کہ 
"The mysteries of Abbotabad.What do we really know about the killing of Osama bin Laden?" اس سارے معاملے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ملوث ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ اسامہ بن لادن کے قصے میں ایک دم امریکی اور بھارتی میڈیاکی دلچسپی کیونکر بڑھ گئی ہے۔ یقیناً ان کا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح پاکستان کو ایک غیر معتبر حلیف ظاہر کیا جائے تاکہ امریکی اعتبارجیتنے کے لئے اس پر دباؤ پڑے۔ 
ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ صدر اوباما وزیر اعظم نواز شریف کو قائل کرنے میں کامیاب رہیں گے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں۔ بالفاظِ دیگر نواز شریف پر دباؤ ڈالا جائے گا کہ چونکہ ماضی میں بن لادن والے قصے میں پاکستان ایک دہرا کھیل کھیل چکا ہے اس لیے اب انہیں امریکی تجویز قبول کرنی ہی پڑے گی۔ 
امریکی میڈیا میں آج کل پاکستان اور امریکہ کے درمیان جوہری معاہدے کا بھی چرچا ہے۔ ڈیوڈ سینگر کو پاکستانی امور کا ''ماہر‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ نیو یارک ٹائمز میں اپنے کالم کا آغاز انہوں نے ا س جملے سے کیا: ''اوباما انتظامیہ پاکستان کے ساتھ ایک ایسے معاہدے کی تیاری کر رہی ہے جو اس ملک کے جوہری ہتھیاروںکے سکوپ کو محدود کر دے گا۔ پاکستانی جوہری ہتھیاروں کے سکوپ کی وسعت کی شرح اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ عبدالقدیر خان کے دنیاکو جوہری ٹیکنالوجی کی فروخت میں ملوث پائے جانے کے بعد کے دس برسوں میں اس ضمن میں ہونے والی یہ پہلی بات چیت ہوگی‘‘۔ ان پاکستان مخالف ابتدائی کلمات کے بعد موصوف نے اگلے پیرا گراف میں مزید زہر یہ اگلا کہ امریکہ کو اس امر پر تشویش ہے کہ ''پاکستان اب ایک چھوٹا جوہری ہتھیار بنانے والا ہے جس کی حفاظت اس ملک کے بڑے جوہری ہتھیاروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل ہو گی‘‘۔ ناموں کے اِخفا کے ساتھ ڈیوڈ سینگر نے''غیر ملکی ماہرین‘‘ کا حوالہ بھی دیا جنہوں نے اس ضمن میں بے یقینی کا اظہار کیا ہے کہ '' پاکستان اپنے جوہری پروگرام کی حد بندی پر راضی ہو سکے گا کیونکہ یہ پروگرام اس قوم کا فخر ہے، اور سے بھارت کے خلاف اپنا واحد دفاع سمجھا جاتا ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ یہ ڈیوڈ سینگر ہے کون؟ ہم کئی برسوں سے اس کی تحریریں پڑھ رہے ہیں۔ اس کی رپورٹیں زیادہ تر پاکستان مخالف ہوتی ہیں۔ نیویارک ٹائمز کا آرکائیوزدیکھ لیجیے، ڈیوڈ سینگر کی ساری معلومات کا ''اصل ماخذ‘‘ نیشنل انٹیلی جنس کا سابق ڈائریکٹر جے مائیکل میکانیل ہے ۔ پاکستان کا ایک اور مخالف لارنس ایف کیپلان بھی ڈیوڈ سینگر کی بڑی تعریف کرتا ہے کہ کس طرح وہ امریکی انتظامیہ کے اہلکاروں سے خفیہ معلومات حاصل کرنے میں ماہر ہے اور اپنی رسائی کی تشہیر بھی وہ کبھی نہیں کرتا۔ ایسا قطعاًنہیں ہے۔ ڈیوڈ سینگر کی کتاب
''The Inheritance‘‘ ملاحظہ فرمائیے، یہ پوری کتاب ان خفیہ معلومات سے چنی گئی باتوں پر مبنی ہے ( اس میں پرویز مشرف اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل کیانی کے درمیان ہونے والی ٹیپ شدہ گفتگو بھی شامل ہے) جو نیشنل انٹیلی جنس جیسی امریکی جاسوس ایجنسیوں نے اس کے سامنے ڈھیرکر دی تھیں۔ اپنی کتاب میں سینگر نے پرویز مشرف کو ایک ڈبل ایجنٹ قرار دیا جو بقول ان کے بیک وقت امریکیوں اور طالبان دونوں کے لیے کام کر رہے تھے۔ پاکستان کے بارے میں اس نے لکھاکہ ''اس کی حکومت کمزور اور کرپٹ ہے اور اسے قومی دیوالیہ پن کا سامنا ہے۔ ایک بغاوت دارالحکومت کے دروازے پہ دستک دے رہی تھی لیکن پاکستانی حکومت (مشرف) کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے کوئی جامع حکمت علی نہیں تھی اور نہ ہی ایسی کوئی حکمت عملی پانے کی انہیں خواہش تھی۔ بارک اوباما جب صدر نہیں تھے، پاکستان کے بارے میں میکانیل نے انہیں یہ بریفنگ دی تھی‘‘۔
وزیر اعظم نواز شریف کے امریکی دورے میں ان تمام باتوں کا ایک اثر سامنے آئے گا۔ منیر اکرم پاکستان کے ایک بہترین سفیر ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کو توانائی کے شعبے کی ضروریات سے نمٹنے کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کی فراہمی کے بدلے میں اپنے جوہری پروگرام کی حد بندی کے حوالے سے امریکی دباؤ کے سامنے جھکنا نہیں چاہیے۔ ایسے وعدے امریکہ پہلے بھی پاکستان سے بہت کرچکا ہے۔ منیر اکرم نے گزشتہ ماہ امریکی قومی سلامتی کی مشیر سوسن رائس کی اسلام آباد آمد کا بھی ذکرکیا ہے۔ انہوں نے یہ دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز نہ کیں تو امریکہ انسدادِ دہشت گردی کے لئے اپنی امداد ی رقم کی فراہمی روک دے گا۔گزشتہ ماہ نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکہ نے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ مزید سختی کا برتاؤ کیا۔ امریکی وزیر خارجہ عموماً گرمجوشی اور شرافت کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن اپنے مؤقف کا سختی سے اظہار کرنے کے لیے انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ گفتگو کے دوران میز پر مکے چلائے اور وزیر اعظم کو ان کے ذاتی نام سے پکارا۔ پاکستانی خارجہ سیکرٹری کے ساتھ اپنی ملاقات میںصدر اوباما کے خصوصی معاون کا رویہ واضح طور پر اس سے بھی زیادہ جارحانہ تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں