فکرِ فردا

وہ صبح سویرے جاگی تھی۔ سب سے پہلے اس نے نماز پڑھی، پھر اپنی بچی کو دودھ پلایا، اس کا ڈائپر بدلا، اس کے بعد اپنے لیے اور اپنے شوہر کے لیے ناشتہ بنایا۔ پھر وہ اپنے شوہر کے ساتھ بیٹی کو اپنی ماں کے گھر چھوڑنے گئی‘ اور چند گھنٹوں بعد دونوں میاں بیوی کرائے پہ لی گئی ایس یو وی میں مردہ پڑے تھے۔ پولیس کے ساتھ ان کا شدید مقابلہ ہوا تھا۔ شہادت ان کا مطلوب و مقصود تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ایک کرسمس پارٹی میں چودہ افراد کو مار کر یہ خود سیدھا جنت پہنچ جائیں گے۔ کیا انہوں نے اپنی چھ ماہ کی بیٹی کے بارے میں کچھ سوچا تھا کہ اس کا کیا ہو گا؟ وہی بیٹی جس سے تاشفین بہت پیار کرتی تھی! اس بچی کے بستر، اس کے بے بی آئل کی بوتل، اس کے باتھ روم میں لگے آتشی گلابی رنگ کے باتھ ٹب اور اس کے کھلونوں کو اب اس کی ماں کے ہاتھ کبھی چھو نہیں پائیں گے۔ بچی کی ماں کا چہرہ بہت خوبصورت تھا اور ایسا لگتا ہے کہ وہ باریک بین نگاہ رکھتی تھی۔ گھر کی سجاوٹ سے اس کا ذوق بھی دکھائی دیتا ہے۔ جامنی پھولوں والے شاور کے پردے‘ جس کے ساتھ ہم رنگ باتھ میٹس بھی تھے، مختلف نوعیت کا صفائی کا سامان، کچن کائونٹر اور ڈائننگ ٹیبل پر پڑے منی پلانٹس اور کیکٹس کے آرائشی پودے، بیڈز پر بچھی گلابی پھولوں والی چادریں اور تکیے۔ ان سب چیزوں کو اب وہ لوگ استعمال نہیں کر سکیں گے جو کبھی اس گھر کے مالک تھے۔ اپنی زندگی کی آخری رات انہوں نے نجانے کیسے گزاری ہو گی۔ وہ جانتے تھے کہ صبح اٹھ کر اور پھر خود اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملنے سے قبل انہیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مارنا ہو گا۔ اس دنیا سے جانے کے بعد کوئی واپس آ کر یہ 
نہیں بتاتا کہ یہاں سے جانے کے بعد کیا ہوتا ہے۔ بس موت کی خاموشی چھا جاتی ہے۔ سرخ بو والے سلور رنگ کے ننھے منھے جوتوں کو دیکھ کر دل دکھتا ہے کہ اس بچی کی ماں اب کبھی اپنی بیٹی کو یہ جوتے پہنے نہیں دیکھ سکے گی۔ تاشفین اور فاروق کا کوئی فردا باقی نہیں رہا۔ یہ نوجوان جوڑا امریکی خواب جی رہا تھا‘ لیکن پھر بھی انہوں نے زندگی پر موت کو ترجیح دی۔ اپنی بیٹی کا مستقبل دیکھنے سے قبل ہی یہ دونوں مر چکے ہیں۔ فاروق کی بہن سائرہ خان اور بہنوئی فرحان خان اس یتیم بچی کو گود لینے کی سوچ رہے ہیں۔ اس کی پھپھو کہتی ہے کہ وہ اسے ایک مستحکم پرورش دینا چاہتی ہے: ''فی الوقت ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنی معصومیت کا لطف اٹھائے۔ ہم نہیں چاہیں گے کہ اسے سب کچھ معلوم ہو‘ لیکن میرا خیال ہے کہ آخر کار اسے سب کچھ خود ہی معلوم ہو جائے گا‘‘۔
امریکی صدارتی انتخاب کے لیے ری پبلکن جماعت کے امیدواروں کی دوڑ میں سرفہرست ڈونالڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ امریکہ آنے والے 1.6 بلین مسلمانوں کا اب کوئی مستقبل نہیں ہونا چاہیے۔ جہاد پرستی میں مبتلا ہونے والے اس نوجوان جوڑے کو یہ موصوف ''جانور‘‘ کہتے ہیں۔ امریکہ میں معقول افراد ڈونالڈ ٹرمپ کو ''فسطائی‘‘ قرار دیتے ہیں۔ سینیٹر برنی سینڈرز کہتے ہیں: ''ہماری تاریخ میں متعدد لوگ ہم امریکیوں کو رنگ، نسل اور قومی اصلیت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کر تے رہے ہیں۔ اگر ہم نے خود کو نسلی تعصب اور غیروں سے نفرت کے ذریعے تقسیم ہونے دیا تو ہم کمزور ہو جائیں گے‘‘۔ ہو سکتا ہے یہ بات سچ ہو لیکن پھر بھی ڈونالڈ ٹرمپ زیادہ تر امریکیوں کو مسلمانوں سے خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے حالات غیر یقینی ہیں لیکن کوئی اپنی زندگی کیسے گزارتا ہے؟ یہ ہر ایک کا انفرادی فیصلہ ہوتا ہے۔ نئے سال کے آغاز میں دس دن باقی ہیں۔ آپ اپنا رزق کمانے گھر سے باہر جاتے ہوں یا شوہر اپنی بیوی اور بچوں کے پیار کے سحر میں گرفتار ہوں، چاہے آپ کے بالوں میں چاندی جھلک رہی ہو اور آپ درمیانی عمر کے بحران سے گزر رہے ہوں یا آپ کے چہرے پہ عمر کے آثار ظاہر ہو چکے ہوں یا پھر آپ ریٹائرمنٹ کی زندگی کی تیاریاں کر رہے ہوں، ذرا رک کر سوچیں اور پچھلے سال کا جائزہ لیں اور پھر وقت کا صفحہ پلٹ کر ''زندگی‘‘ نام کے نئے باب کا آغاز کریں۔ 1976ء میں ڈاکٹر وائن ڈائر نے Your Erroneous Zone نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ اچھی سوچ رکھیں گے تو اچھی چیزیں یقیناً آپ کو حاصل ہوں گی۔ ان کی یہ کتاب راتوں رات عالمی سطح پر 
بیسٹ سیلر بن گئی۔ جو لوگ اپنا فارغ وقت لائبریریوں میں گزارا کرتے تھے انہیں نیلے کور والی یہ کتاب ضرور یاد ہو گی جس پہ مصنف کا مسکراتا ہوا چہرہ دکھائی دیتا تھا۔ ڈاکٹر ڈائر Father of Motivation یعنی بابائے محرکات کے طور پر مشہور ہو گئے تھے۔ چالیس برس تک وہ ہمیں اپنی کتابوں اور لفظوں کے ذریعے متاثر کرتے رہے۔ وہ کہتے تھے کہ اپنے ہر دن کے آخری پانچ منٹ اپنے لیے نکالیں اور ان میں اپنی توجہ ہر اس چیز پر مرکوز کریں جو آپ کو اپنی زندگی میں درکار ہے۔ پھر خود سے یہ کہیے ''میں ٹھیک ہوں، پوری طرح صحت مند ہوں، میرے پاس سب کچھ ہے اور میں خوش ہوں‘‘۔ اس کے بعد آٹھ گھنٹے سوتے رہیں، جب آپ جاگیں گے تو آپ ان چیزوں کو اپنی زندگی میں لانا شروع کر دیں گے جو آپ کے لاشعور میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر ڈائر اب خود بھی فکرِ فردا سے آزاد ہو چکے ہیں۔ اسی سال اگست میں پچھتر برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ کئی سالوں سے خون کے سرطان میں مبتلا تھے۔ ان کی راکھ سمندر میں بہائی گئی۔ ان کے اہلِ خانہ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ جب ان کی راکھ سمندر میں بہائی گئی تو پانی میں ان کا عکس بن گیا تھا۔ ڈاکٹر وائن ڈائر کہا کرتے تھے کہ معجزے لحظوں میں رونما ہوتے ہیں، لہٰذا ان کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ آپ میں سے اکثر یہی کہیں گے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور ہمیں یہاں آپ سے اتفاق بھی ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں ہر لمحے کے چھوٹے سے چھوٹے حصے میں بھی بریکنگ نیوز یکدم جمع ہو جانے والے ہجوم کی مانند رونما ہو کر فوراً ہمارے اعصاب کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ زیادہ تر یہ بریکنگ نیوز بری خبروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ خوشیاں شاذ ہی اچانک آتی ہیں۔ صحت، پیسے، خاندان کے مسائل، کیریئر کے اتار چڑھائو اور زندگی کے دیگر
ناخوشگوار پہلو ہمیں کبھی تفکرات سے آزاد رہنے نہیں دیتے۔ جسمانی اور دماغی لحاظ سے ہمیں مسلسل دبائو سے نبرد آزما رہنا پڑتا ہے۔ ہم میں سے زیادہ لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ آج ہی سب کچھ ہے۔ ایسی بے رنگ و رونق زندگی میں ہمیں یہ سکھ کیونکر نصیب ہو سکتا ہے کہ ہر روز ہی ہمارے خوابوں، ہماری امیدوں کا جنم ہوتا رہے۔ آپ کو کئی ایسے خوش مزاج لوگ دکھائی دے سکتے ہیں یا آپ ان کی کتابیں پڑھ سکتے ہیں یا پھر انہیں آپ مختلف ذرائع سے سن سکتے ہیں جو آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ آپ کو زندگی کے عارضی ترین عجائب سے روشناس کرو ا دیں گے۔ کیا یہ لوگ جو کہتے ہیں وہی کرتے بھی ہیں؟ یقیناً نہیں! یہ سب وہ لوگ ہیں جو ہم سے پیسہ کما کر دولت مند بنتے ہیں۔ ان کا اور ہمارا رشتہ خالصتاً کاروباری ہوتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کی کتابیں، ان کی سی ڈیز اور ان کے آن لائن کورسز خریدیں۔ ایک ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ آئینہ لے کر اپنا چہرہ دیکھیں۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ آپ جان جائیں گے کہ جو بھی آپ کو چاہیے وہ آپ کا ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے آپ کو اپنے بارے میں اپنے احساسات کو اپنی خواہشات کے ساتھ یکساں خطوط پر لانا ہو گا۔
کرسٹین نارتھپ نامی ایک اور ڈاکٹر ہیں جن کی اصل عمر تو کچھ اور ہے لیکن چہرے کی جراحی کی مہربانی سے وہ جوان نظر آتی ہیں۔ وہ خواتین کو یہ بتاتی ہیں کہ ان کی عمر چاہے کچھ بھی ہو، وہ ان کی مدد کے لیے ہمیشہ حاضر ہیں۔ بقول ان کے ''ہم عورتوں کی عمر جب بڑھتی ہے تو یہ ہمارے لیے بڑی شاندار بات ہوتی ہے۔ ہمارا اعتماد بڑھ جاتا ہے۔ کسی کو ناں کہنے میں ہمیں زیادہ تکلیف نہیں ہوتی اور نہ ہی اس پہ کوئی احساسِ جرم ہوتا ہے۔ ہم تخلیق اور لطف کی اس گہرائی تک پہنچ جاتے ہیں جس کے بارے میں کم سنی میں ہمیں کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا‘‘۔
سنِ یاس کو پہنچی عورتوں کو وہ جنس کے علاوہ اور کس قسم کے لطف کے اشارے دے رہی ہیں؟ بہرحال، ان کے مشورے بھی سب کو قیمتاً دستیاب ہیں!
بہتر یہی ہے کہ انسان ایک بہتر کل کے لیے اپنی یادیں خود بنائے۔ جو چیز دل میں محفوظ ہو جائے اس کو انسٹاگرام یا سوشل میڈیا کے کسی دوسرے وسیلے سے لوگوںکو دکھانا ممکن نہیں ہوتا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں