سالِ رفتہ کو خیر باد کہتے ہوئے سالِ نو یعنی سال 2016ء کا خیر مقدم کیجیے۔ اگر آپ خود کو جوان کہہ سکتے ہیں اور آپ کا خیال یہ ہے کہ بڑھاپا ابھی آپ سے کوسوں دور ہے تو ذرا رُک کر سوچیے۔ ہم آپ کو ڈرانا نہیں چاہتے لیکن ایک تازہ ترین تحقیقی مطالعے کے مطابق جو لوگ بڑھاپے کے بارے میں مروجہ منفی خیالات کو اپنے دماغ میں جگہ دیتے ہیں ان کے الزائمر میں مبتلا ہونے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے جو یادداشت کے نقص کی ایک بیماری ہے۔ سائیکالوجی اینڈ ایجنگ نامی جریدے میں شائع ہونے والے اس تازہ ترین تحقیقی مطالعے میں لوگوں سے یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ بوڑھے افراد کے بارے میں ان کے احساسات کیا ہیں؟ اس سوال کے جواب سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آیا آپ الزائمر میں مبتلا ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ پہلی بار عمر رسیدگی کے بارے میں منفی خیالات اور الزائمر میں مبتلا ہونے کے خطرات کا باہمی ربط دریافت ہوا ہے۔ مطالعے کے پہلے مرحلے میں محققین نے ڈیمنشیا سے پاک ایک سو اٹھاون صحت مند افراد سے حاصل شدہ معلومات کا جائزہ لیا۔ عمر کے بارے میں جو مروجہ خیالات ہیں ان کے بارے میں لوگوں کے احساسات جانچنے کے لئے محققین نے'' بوڑھے لوگ غیر حاضر دماغ ہوتے ہیں‘‘ یا '' بوڑھے لوگ نئی چیزیں نہیں سیکھ پاتے‘‘ جیسے جملوں کا ایک سکیل استعمال کیا۔ یہ جوابات دیتے وقت لوگ چالیس کے پیٹے میں تھے۔ پچیس برس بعد جب یہی لوگ تقریباً اڑسٹھ برس کے تھے تو الزائمر کی جانب اشارہ کرنے والی دماغی تبدیلیوں کے تعین کے لیے ان کی سالانہ ایم آر آئی کا سلسلہ شروع کیا گیا جو ایک عشرے پہ محیط رہا۔ وہ لوگ جو بڑھاپے کے بارے میں زیادہ منفی خیالات رکھتے تھے، بوڑھا ہونے پہ ان میں ڈیمنشیا کے اثرات زیادہ پائے گئے۔ محققین کے مطابق بڑھتی عمر کے بارے میں منفی سوچ رکھنے والوں میں تین سال کے اندر ہی یادداشت کا تنزل شروع ہو گیا جبکہ اس کے مقابل مثبت سوچ رکھنے والوں میں یہ تنزل آٹھ برس بعد شروع ہوا، ان تمام حاصل شدہ نتائج میں ایک تسلسل کے ساتھ یہی بات دیکھی گئی۔ انسانی رویوں پر کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ جو لوگ عمر رسیدگی کے بارے میں مروجہ منفی خیالات رکھتے ہیں انہیں جب دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان کا کارڈیو ویسکولر رد عمل زیادہ ظاہر ہوتا ہے جو بڑھاپے میں دل کی تکلیف کے ظاہر ہونے کے ساتھ ایک ربط رکھتا ہے۔ ایسے لوگ یادداشت کی کمزوری سے بھی زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ امریکہ میں ڈیمنشیا بوڑھے افراد کا ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے۔ یادداشت کی کمزوری کے شکار لوگوں کے اہلِ خانہ کو ان کی موت تک مسلسل ان کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے۔ فی الحال ڈیمنشیا کے لیے احتیاطی دوا کوئی بھی ایجاد نہیں ہوئی۔ اس ضمن میں کوششیں بہر حال جاری ہیں لیکن کینسر کی طرح اس مرض کا علاج دریافت کرنے کے لیے بھی بہترین ریسرچ اور فارما سیوٹیکل کارپوریشنز اربوں ڈالر خرچ کر چکی ہیں لیکن ان دونوں بیماریوں میں سے کسی ایک کا علاج بھی دریافت کرنے کی ان کاوشوں کے تسلی بخش نتائج سامنے نہیں آ سکے ہیں۔ پرانے وقتوں سے ہم سنتے چلے آ رہے ہیں کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ اپنی جسمانی اور دماغی صحت کے لیے سب سے بہتر کام ہم یہی کر سکتے ہیں کہ اپنے طرزِ زندگی میں کچھ تبدیلیاں لے آئیں۔ لوگ جب عادتیں بدلنے کی بات کرتے ہیں تو ان سے وہ زیادہ تر خوراک اور ورزش وغیرہ جیسی عادات ہی مراد لیتے ہیں، لیکن اس کااصل مطلب ا س سے بہت زیادہ ہے۔ زندگی کی مسرتوں کے شعبے کے ماہرین بتاتے ہیں کہ عادتیں بنانے میں زیادہ وقت یا توانائی خرچ نہیں کرنی پڑتی لیکن ہماری زندگی کے ہر پہلو میں یہ ہماری بے حد مدد کرتی ہیں۔
گریچن روبن زندگی کی خوشیوں کے بارے میں اپنا بلاگ لکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عادتوں کے بارے میں سوچنے میں ہم نے سالوں صرف کیے ہیں لیکن ایک بہت چھوٹی سی عادت جس طرح ہماری زندگی میں خوشیوں کا محرک بن جاتی ہے اس پہ ہم آج بھی بہت حیران ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے چند چھوٹی چھوٹی عادتیں ہیں جو انہوں نے اپنائیں۔ بقول ان کے ان سب کو بنانے میں کوئی محنت صرف نہیں ہوئی لیکن انہیں اپنا کر وہ پہلے سے زیادہ خوش ہیں۔ ہم اپنی اپنی سوچوں میں اس قدر مگن ہوتے ہیں اور اپنے اپنے کاموں کو پورا کرنے میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ ان لوگوں کے لیے ہم کوئی وقت ہی نہیں نکال پاتے جو ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہر روز زندگی کی گہماگہمی میں نہایت اہم چیزوں کو نظر انداز کرنا ہمارے لیے بہت سہل رہتا ہے۔ ذیل میں ان عادات کی ایک فہرست ہے جو ہم سب آنے والے سال میں اپنا سکتے ہیں۔
1: صبح اٹھ کر سب سے پہلے اپنے جیون ساتھی یا گھر کے کسی بھی دوسرے فرد کو مسکرا کر دیکھیں اور رات کو اسے شب بخیر بھی ضرور کہیں۔ یوں اپنی مسکراہٹوں اور جذبات کا جدول بنانا شاید احمقانہ معلوم ہوتا ہو لیکن جدول سازی کی حکمتِ عملی ہی اس کی طاقت ہے۔
2: گھر کے افراد کو آتے اور جاتے سمے ایک دوسرے سے معانقہ کر کے خوش آمدید اور خدا حافظ ضرور کہنا چاہیے۔ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں ایک دوسرے سے حقیقی ربط کا سبب بنتی ہیں۔
3: والدین اور بہن بھائیوں کو اپ ڈیٹس دیتے رہنا چاہیے۔ یہ گریچن روبن کی والدہ کی تجویز تھی۔ ہر چند روز بعد لوگوں کو ''اپ ڈیٹ‘‘ کے عنوان کے تحت اپنے والدین اور دور دراز رہنے والے بہن بھائیوں کو ایک ای میل لکھنی چاہیے۔گریچن کہتی ہیں کہ ہم جو بھی کر رہے ہیں وہ سب چھوٹی چھوٹی جزئیات کے ساتھ ایک دوسرے کو لکھ کر بھیج دیتے ہیں اور ایسی ای میلز کا جواب شاذ ہی دیتے ہیں۔ ہمارا موٹو یہی ہے کہ کبھی کبھی دوسروں کے لیے اکتاہٹ کا سبب بن جانے میں کچھ غلط نہیں۔
4: ہر رات جب آپ کے بچے سونے جائیں تو ان کے ساتھ کچھ وقت بِتائیں۔ ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیں اور ان کے دن کے بارے میں ان سے باتیں کریں۔
5: کسی بھی دوست کو مبارکباد دینے یا پھر اس کی تعریف کا اگر کوئی موقع آئے تو اسے ضرور ای میل بھیجیں۔ گریچن روبن کہتی ہیں کہ پہلے وہ خود اس میں کافی سستی کرتی تھیں لیکن اب وہ ایسے رابطوں کے لیے عمداً کوشش کرتی ہیں۔ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑا اثر ڈالتی ہیں۔
مذکورہ بالا عادتیں اپنانا مشکل کام نہیں، ان کے ذریعے آپ کسی سے بھی بے حد خوشیاں، نیک جذبات اور دعائیں حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر کی نیت نیک ہی ہوتی ہے لیکن کسی کو صبح بخیر کہنے یا نیک جذبات کے اظہار کے لیے ہم کبھی وقت ہی نہیں نکال پاتے۔لمحے دنوں میں، دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدل جاتے ہیں اور پھر اس سے قبل کہ ہم کچھ جان سکیں، بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ بڑھاپا، بیماری اور موت ہماری زندگیاں نگل جاتی ہے۔ لکھنے والے نے کیا خوب لکھا ہے کہ ''ہم میں سے اکثر کی زندگی پہ غیر اہم چیزوں کی ضرورت طاری رہتی ہے۔ اگر ہم اپنے کاموں کو دن، سال اور موسم کے دورانیے کے لحاظ سے اہمیت کی بنیاد پر تقسیم کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ طویل المیعاد نوعیت کی اہم چیزوں کو ہم سب سے کم وقت دیتے ہیں اور انہیں کل پرسوں پہ ٹال کر رکھتے ہیں۔ ہم اہمیت کی بجائے ضرورت کی فکر زیادہ کرتے ہیں، چنانچہ جو اہم چیزیں ہیں وہ روزمرہ زندگی کے کاموں میں پسِ پشت جاتی رہتی ہیں۔
سال2016ء کی آمد مبارک ہو!