سی ایس پی افسران کی عظمتِ رفتہ

سید منیر حسین کی کتاب Surviving the wreck عمومی طور پر سول سروس اور خاص طور پر ایک سول افسر کے عروج اور زوال کی داستان ہے۔ ساٹھ کے عشرے میں ہماری اپنی والدہ سمیت ہر ماں کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ اس کی بیٹی کی شادی کسی سی ایس پی افسر سے ہو۔ بہترین اور ذہین ترین نوجوان سوِل سروس آف پاکستان کا امتحان دینے کی طرف زیادہ رجحان رکھتے تھے۔ آئی سی ایس (یعنی انڈین سول سروس کے) افسران کے جانشینوں کے طور پر ان سی ایس پی افسران کو جونہی کسی ضلعے، ڈویژن یا سرکاری محکمے کی سربراہی سونپی جاتی تو ان کی شاندار زندگی کا آغاز ہو جاتا۔ یہ لوگ مرکز یا پھر متعلقہ صوبے کے گورنر کی جانب سے تفویض کردہ اختیارات کی بدولت اپنے اپنے علاقوں کے مختار کل سمجھے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اگر سبھی نہیں تو اکثر سی ایس پی افسران کی انائوں کا بت بھی بہت بلند ہو جایا کرتا تھا۔ ان میں سے بعض تو خود اپنے بارے میں بہت سنجیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ بعض کا رویہ بڑا خود سرانہ ہوا کرتا تھا اور کیوں نہ ہوتا؟ آخر اتنی ''نایاب جنس‘‘ جو تھے! مالدار گھرانوں کی حسین اور پُرکشش لڑکیاں ہی انہیں حاصل کر پاتی تھیں اور ان کی بیویوں کی حیثیت میں اپنے مقام اور رتبے کا انہیں بھی بڑا احساس رہتا تھا۔ ان کے شوہروں کے ماتحت ملازمین ''بیگم صاحب‘‘ سے بھی خوف زدہ رہا کرتے تھے۔ سی ایس پی افسران کے بچے بھی اپنے والد کو حاصل طاقت، اختیارات اور مراعات کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے تھے۔ ان کے خاندان اور خاندان سے باہر دور کے جاننے والوں کی بھی کوشش ہوتی کہ اپنے چھوٹے موٹے کام کروانے کے لئے ان کے تعلقات کو استعمال کر لیا جائے۔ یہاں یہ بات یقیناً قابلِ ذکر ہے کہ اس زمانے کے سی ایس پی افسران کم از کم کرپٹ نہیں تھے اور ایک دو کے استثنا کے ساتھ عمومی طور پر ان میں اہم عہدوں کے حصول کی دوڑ میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی عادت بھی نہیں تھی۔ یہ لوگ اکتا دینے کی حد تک دفتری کاغذات کی جانچ میں ہی مصروف رہتے اور انہیں افسرِ شاہی کے بابوئوں کا خطاب دیا گیا تھا۔ ان میں سے جو زیادہ محنتی ہوتے وہ گہری جانچ اور فوری فیصلے کے متقاضی معاملات سے متعلق فائلوں کا انبار گھر بھی اٹھا لاتے۔ سرکاری کاموں کی بروقت ادائیگی شروع ہی سے ان کو دی گئی تربیت کا ایک لازمی جزو ہوا کرتی تھی۔ بھلے ان کی گردن اکڑی ہوتی اور 1947ء میں انگریزوں کے کوچ کر جانے کے باوجود یہ لوگ بدستور صاحبانہ طرز کے مالک تھے، لیکن عام آدمی کی بات بہرحال وہ فوری اور شفاف طور پر اور منصفانہ انداز میں سن لیا کرتے تھے۔ سکول کے زمانے میں ہماری ایک سہیلی تھی زینوبیہ خورشید، اس کی شادی بھی ایک سی ایس پی افسر سے ہوئی تھی۔ رفیق اخوند ان کا نام تھا اور ہماری سہیلی سے عمر میں وہ پندرہ برس بڑے تھے۔ وہ اپنے شہر کے مقبول ترین غیر شادی شدہ نوجوان تھے۔ ہماری سہیلی سے انہیں پہلی ہی نظر میں محبت ہو گئی تھی۔ کسی تقریب میں انہوں نے اسے دیکھا اور فی الفور اپنے گھر والوں کو رشتہ لینے لاہور بھیج دیا۔ اگلے پینتالیس برس تک وہ دونوں ساتھ رہے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان کے کئی حکمرانوں کا عروج اور زوال دیکھا۔ رفیق اخوند سندھی تھے لیکن ملازمت کا زیادہ عرصہ انہوں نے پنجاب اور مرکز ہی میںگزارا۔ گورنر کالاباغ کو وہ خاص طور پر بہت پسند تھے اور انہوں نے رفیق اخوند کو محکمہ صنعت کا سیکرٹری مقرر کر دیا تھا۔ ایک شریف صنعتکار ان کے دروازے پر دو کروڑ روپے نقد لے کر آیا۔ اسے اپنی فائونڈری کے لئے لائسنس چاہیے تھا۔ پچھلے ماہ جب ہم رفیق اخوند کے انتقال پہ تعزیت کے لئے زینوبیہ سے ملنے گئے تو اس نے ہمیں بتایا کہ رفیق نے اتنی بڑی نقد رقم پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی، وہ نہیں جانتے تھے کہ اس کے ساتھ کیا کیا جائے۔ رفیق اخوند فنانس اور اکنامک ڈویژن کے فیڈرل سیکرٹری کے طور پر ایک ہوشیار اور ذہین سول افسر تھے۔ جن سول و فوجی حکمرانوں کی ماتحتی میں وہ کام کرتے رہے ان میں سے کبھی کسی کے دبائو میں وہ نہیں آئے۔ ایوانِ اقتدار میں یوں بھی وہ ایک شائستگی کا دور تھا۔ زینوبیہ کہتی ہیں کہ ''اس زمانے میں بیوروکریٹس کی بڑی عزت ہوا کرتی تھی۔ رفیق کی دیانت، محنت اور بددیانتی کے لئے ان کی عدم برداشت کی میں خود گواہ ہوں‘‘۔ وہ ضیا اور شریفوں کو بڑا سراہتی ہیں لیکن زیادہ تر لوگ شاید اس بارے میں ان سے اتفاق نہیں کریں گے۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ اقتدار میں رفیق اخوند اقتصادی شعبے میں اپنی مہارت کی بدولت فنانس کے سیکرٹری بنائے گئے، لیکن جب انہوں نے آصف علی زرداری کے غلط احکامات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو ان کا ملازمتی معاہدہ منسوخ کر دیا گیا۔ زینوبیہ بتاتی ہیں کہ انہیں فی الفور سرکاری مکان خالی کرنے کو کہہ دیا گیا۔ تاہم یہاں سے پھر رفیق اخوند کے ایک اور شاندار کیریئر کی ابتدا ہوئی۔ وہ منیلا اور پھر کراچی میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ وابستہ رہے اور سرطان کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہارنے تک وہ بطورِ کنسلٹنٹ وہیں کام کرتے رہے۔ ''خدا حافظ‘‘ وہ آخری جملہ تھا جو انہوں نے اپنی اہلیہ سے کہا۔
ہمارے رشتے داروں میں سید منیر حسین واحد سی ایس پی افسر تھے۔ وہ اور ان کی اہلیہ ملیحہ ایک بڑا ہی شاندار جوڑا دکھائی دیتے تھے۔ انسان جن گلیمرس ترین عہدوں کا تصور کر سکتا ہے ان سبھی پہ وہ تعینات رہے۔ ہم نے ایک بار سنا تھا کہ ہماری والدہ ان سے ہمارے لئے بھی کوئی اچھا سا سی ایس پی افسر ڈھونڈنے کے لئے کہتی رہی تھیں۔ 1977ء کے انتخابات کے دوران سید منیر حسین این ڈبلیو ایف پی (اب کے پی کے ) کے چیف سیکرٹری تھے۔ جب ضیا نے بھٹو کا تختہ الٹایا تو اس کے بعد انہوں نے سید منیر حسین سے یہ کہا کہ وہ گواہی دیں کہ بھٹو نے انہیں ستتر کے انتخابات میں دھاندلی کرنے کا کہا تھا۔ سید منیر حسین نے ایسی جھوٹی گواہی دینے سے انکار کر دیا اور ان کا یہ انکار ایک ایماندار افسر کے طور پر گزارے گئے ان کے پچیس سالہ کیریئر کو لے ڈوبا۔ اپنی کتاب Surviving the Wreck - A Civil Servant's Personal History of Pakistan. میں وہ لکھتے ہیںکہ ''خود کو بچانے کا واحد راستہ یہی تھا کہ میں بھٹو صاحب کی مبینہ غیر قانونی حرکتوں کا انکشاف کروں۔ بیچارے بے بس سول افسران سے یوں زبردستی ان کے گزشتہ افسران کے خلاف بیانات لینے کے اس قابلِ نفرت عمل نے ان کے اخلاق اور کردار پہ بہت برا اثر ڈالا‘‘۔ سید منیر حسین کی یہ واحد نافرمانی جنرل ضیا نے کبھی معاف نہیں کی۔ وہ اب اسی کے پیٹے میں ہیں اور اپنی اس کتاب کی تالیف میں انہوں نے دانستہ تاخیر کی تھی کیونکہ جو لوگ ابھی تک زندہ ہیں ان کے لئے سچ تکلیف دہ ہو سکتا تھا۔ تاہم یہ تکلیف دہ فیصلہ انہوں نے کر ہی لیا اور بڑی محنت سے یہ کتاب لکھ ڈالی۔ اس کتاب میں تمام ایسے لوازمات موجود ہیں جن کی بدولت پاکستان کے حکمرانوں کے بارے میں مزید جاننے کے لئے قارئین کی دلچسپی برقرار رہے گی، خاص طور پر غیر ملکی صحافیوں سے بات چیت کے لئے جنرل ضیا کے شوق کا ذکر بہت دل چسپ ہے۔ ایک بار انہوں نے ایک فرنچ ریڈیو کی جونیئر صحافی کو بہ اصرار اپنا انٹرویو لینے پہ آمادہ کیا تھا اور انٹرویو کے بعد جنرل ضیا خود اسے گاڑی تک چھوڑنے گئے اور اس کی آمد پر اس کا بے حد شکریہ بھی ادا کیا اور اسے کہا کہ پاکستان میں اپنے قیام کے عرصے میں وہ سرکاری مہمان رہے گی۔ جب سید منیر حسین بلوچستان کے چیف سیکرٹری تھے تو سبی میں ایک بار ذوالفقار علی بھٹو نے ان سے پوچھا تھا کہ ''میرے استقبال کے لئے جنرل ضیاء اس قدر کیوں جھکے؟ وہ فوج کے سربراہ ہیں، ان کا رویہ ایک جرنیل کی طرح ہونا چاہیے‘‘۔ وقت کے ساتھ ساتھ بیوروکریٹ ایک ناپسندیدہ لفظ بنتا گیا۔ لوگ سول سرونٹ کو سول ''سرپنٹ‘‘ (یعنی سانپ) کہنے لگے۔ بقول منیر حسین سول سروس بتدریج کرپشن، نااہلی اور ذاتی مفادات کے لئے کئے گئے فیصلوں اور سطحی عزائم کے باعث ابتری کا شکار ہوتی گئی۔ آج لفظ سی ایس پی اپنی تمام تر گزشتہ عظمت سمیت منظر سے غائب ہو چکا ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں