محنتی، دیانت دار اور پیشہ ور افراد مطلوب ہیں!

آج اگر پی آئی اے کی انتظامیہ میں اوّل تا آخر پیشہ ور افراد ہی شامل ہوتے تو صورتحال اس افسوسناک نہج تک نہ پہنچتی۔ ہمارے گزشتہ حکمران‘ چاہے وہ سویلین تھے یا فوجی آمر سبھی نے ہماری اس قومی ایئرلائن کو ذاتی لونڈی بنائے رکھا تھا۔ یہ لوگ یہاں من چاہی بھرتیاں کرتے رہے۔ بے نظیر بھٹو اور پھر آصف زرداری نے پی پی پی کے تینوں ادوار میں ہزاروں بھرتیاں پی آئی اے میں کروائیں۔ یہ لوگ ایک ایسے ادارے میں ملازمتیں تخلیق کئے جا رہے تھے‘ جہاں ملازمتوں کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ شریف برادران نے بھی اپنے تینوں ادوار میں یہی کچھ کیا۔ جن کو بھی وہ ممنونِ احسان کرنا چاہتے‘ انہیں ملازمت دلوانے کے لئے آسان ترین جگہ یہی تھی۔ اس ساری صورتحال کا نتیجہ اب ہمارے سامنے ہے۔ امریکہ سے وطن واپس آنے کے لئے ہمیشہ ہم نے پی آئی اے سے پرواز کو ہی ترجیح دی؛ تاہم پچھلے سال اپنے سفر کے آغاز سے انجام تک جو تجربہ ہمیں ہوا وہ ہم کبھی بھول نہیں سکتے۔ یہ داستان پھر کبھی سہی‘ فی الحال قارئین کو ہم یہ ضرور بتانا چاہیں گے کہ اس وقت اس سارے احتجاج کی قیادت کرنے والے کیپٹن سہیل بلوچ ہی پی آئی اے کی اس پرواز کو نیویارک سے لاہور لے کر آئے تھے۔ لاہور میں انہوں نے وہ طیارہ بہ حفاظت اتار دیا تھا حالانکہ گہری دھند چھائی ہوئی تھی اور حدِ نگاہ تقریباً معدوم تھی۔ ہمارے اس طیارے کو اترنا اسلام آباد میں تھا لیکن آخری منٹ میں کیپٹن صاحب نے اعلان کر دیا کہ وہ ہمیں لاہور لے کر جا رہے ہیں۔ بعد میں ہم نے ان سے پوچھا بھی کہ ایسا انہوں نے کیوں کیا؟ ہمارا خیال ہے کہ ایسا کرنے کا حکم انہیں اپنے بڑوں سے ملا تھا کیونکہ اسلام آباد اترنے کی صورت میں پھر پی آئی اے کو 
لاہور تک جانے والے مسافروں کا بھی انتظام کرنا پڑتا جن کی تعداد سو تھی جبکہ جن مسافروں کی منزل اسلام آباد ہی تھی ان کی تعداد ہمیں اور ہماری فیملی کو ملا کے صرف پانچ بنتی تھی۔ کیپٹن صاحب نے جواب تو خیر جو بھی دیا لیکن متاثر ہم ان سے بہرحال ہو گئے تھے کہ ان کی مہارت قابلِ بھروسہ تھی؛ تاہم اس سال ہم نے قسم کھا لی تھی کہ آئندہ ہم پی آئی اے سے پرواز نہیں کریں گے۔ ہمیں وطن صحیح سلامت پہنچنا تھا؛ چنانچہ ہم نے اور ہماری فیملی نے ایک دوسری ایئرلائن کا انتخاب کیا اور بغیر کسی زحمت کے اسلام آباد پہنچ گئے؛ البتہ اس ایئرلائن کا کھانا بے حد خراب تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کے ایسے کھانے اس میں دیے جا رہے تھے جو پاکستانیوں کو مرغوب نہیں ہو سکتے۔ پی آئی اے کے حق میں کم از کم یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ تمام تر بدانتظامی اور گرائونڈ سٹاف کی تمام تر نااہلی کے باوجود اس کا کھانا اور سروس ہمیشہ بہتر رہی ہے۔ پچھلے دنوں اسلام آباد سے کراچی ہم پی آئی اے کے ذریعے ہی گئے اور واپسی بھی اسی کے ذریعے ہوئی۔ دورانِ پرواز طیارے کا عملہ نہایت ہی شائستہ، مہربان اور مہمان نواز تھا۔ ان کا ہماری نازبرداریاں کرنا ہمیں بڑا ہی اچھا لگا۔ شعبہ کوئی بھی ہو، چاہے پی آئی اے یا سول سروس، اہمیت پیشہ ورانہ اہلیت کی ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں ہم نے پاکستان کی سول سروس کے بارے میں ایک کالم لکھا تھا۔ کئی ایک قارئین کی جانب سے اس پہ ہمیں تبصرے ملے۔ چند ایک یہاں پیشِ خدمت ہیں۔ اسد شاہ صاحب نے ہمیں 
لکھا: ''میرے والد آصف علی شاہ بھی 1959ء کے بیچ کے ایک ایماندار سی ایس پی آفیسر تھے۔ وہ 1992ء تا 1995ء نجکاری کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری رہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں ان کا بیٹا ہوں۔ ہمارے بچپن میں ہمارے والد کبھی اپنے کسی بیرونی دورے میں ہمارے لئے کوئی تحفہ نہیں خریدتے تھے بلکہ وطن واپسی پر وہ سیدھا بینک جاتے اور یومیہ الائونس کی جتنی رقم باقی ہوتی وہ سرکاری اکائونٹ میں جمع کروا دیتے تھے۔ ہمارے والد کے زیرِ استعمال سرکاری گاڑی چھونے کی اجازت تک ہمیں نہیں تھی۔ دس سال کی عمر سے ہم سکول پیدل ہی جایا کرتے تھے۔ ایک بار ان کے دفتر کا پرنٹر ہم نے استعمال کیا‘ تو اپنے پی اے کے سامنے ہی انہوں نے ہماری خوب خبر لی تھی۔ مختصر یہ کہ ہمارا بچپن بڑا ہی اچھا گزرا، سیدھے سادے اقدار اور سیدھی سادی زندگی! ہم تین بہن بھائی تھے اور تینوں اپنے اپنے شعبوں میں کامیاب ہیں۔ یہ ہمارے والد کا انعام ہے‘‘۔ امتیاز صاحبزادہ‘ جو کابینہ سیکرٹری کے طور پر ریٹائر ہوئے اور ایک دیانت دار سول سرونٹ کے طور پر خود بھی کافی عزت رکھتے ہیں‘ بھی اپنے بیچ میٹ آصف علی شاہ کی دیانت اور ایمانداری کی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک بار آصف شاہ کو اسلام آباد میں ایک پلاٹ کی پیش کش کی تھی‘ جو انہوں نے قبول نہیں کی حالانکہ ہر سول سرونٹ کی طرح وہ پلاٹ حاصل کرنا ان کا حق تھا۔ وہ کہتے تھے کہ چونکہ وہ اس پلاٹ کی قسطیں نہیں بھر پائیں گے اس لئے اس کے لئے درخواست دینا بھی بے سود ہے۔ وہ گریڈ اکیس کے افسر تھے لیکن کس قدر بے تکلفی سے انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ قسطوں کی رقم کی ادائیگی ان کے لئے ممکن نہیں ہو گی۔ ایسے بے مثال لوگ آج کہاں ہیں؟ اگر ایسے ہی لوگ آج بھی حکومت پاکستان کی خدمت کر رہے ہوتے تو ہمارا یہ ملک تیسری دنیا سے ترقی کر کے پہلی دنیا کے ممالک کی صف میں کھڑا ہو چکا ہوتا۔ ایک سینئر وکیل ہیں‘ جو کئی حکومتیں دیکھ چکے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہے کہ ابتدا ہی سے پاکستان کا بنیادی مسئلہ اس کی بیوروکریسی ہے۔ قائدِ اعظم یہ واضح کر چکے تھے کہ بیوروکریٹس کا کام ریاستِ پاکستان کی خدمت کرنا ہے، انہیں کسی سیاسی حکومت یا برسر اقتدار جماعت کی چاکری نہیں کرنی چاہئے۔ بدقسمتی یہی ہے کہ حالات کی ابتری کے ساتھ جب سیاستدانوں نے بیوروکریٹس کے ساتھ کھلواڑ شروع کیا تو بیوروکریٹس نے بھی اپنے مفادات کی خاطر سیاستدانوں کے ساتھ معاونت شروع کر دی نتیجتاً آئی سی ایس اور پھر پی سی ایس کے افسران جو قابلِ قدر خدمات انجام دیتے رہے تھے‘ وہ سب تباہ ہو گئیں۔ آج بیوروکریٹس کی اکثریت نہایت کرپٹ ہے۔ یہ لوگ حکومت اور خاص طور پر برسر اقتدار جماعت کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے کالم میں رفیق اخوند کا ذکر کیا تھا۔ وکیل صاحب نے ہمیں لکھا کہ وہ اخوند صاحب مرحوم سے ذاتی طور پر واقف تھے۔ وہ ایک زبردست افسر تھے اور متعدد و مختلف عہدوں پر انہوں نے کمال دیانت داری سے کام کیا۔ 
جنرل ضیا نے شریفوں کی سرپرستی کی اور تب سے اب تک یہ لوگ ہر کسی کو خرید لینا اپنا مقصد بنائے ہوئے ہیں چاہے وہ جج صاحبان ہوں، الیکشن کمیشن ہو، سیاستدان ہوں یا پھر بیوروکریٹس! اپنے تینوں ادوار میں میاں نواز شریف اسی طرح پاکستان کو چلاتے رہے ہیں۔‘‘ تاہم بعض سندھی سیاستدان اور رفیق اخوند جیسے افسران بھی ہمیشہ محب وطن رہے اور اپنے معاملات میں دیانت کو ہی انہوں نے مقدم رکھا۔ سر غلام حسین ہدایت اللہ اور ان کے اہلِ خاندان اور پیر الٰہی بخش سومرو جیسے نام ابھی تک ہمیں یاد ہیں۔ وکیل صاحب موصوف مزید لکھتے ہیں کہ ان کے خیال میں پاکستان اس وقت جس حال میں ہے تو اس کے لئے چار اشخاص کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ایک تو گورنر جنرل غلام محمد، ان کے بعد بدنامِ زمانہ چیف جسٹس منیر، پھر ذوالفقار علی بھٹو اور آخر میں جنرل ضیاء الحق جو شریف خاندان کو سیاست میں لائے۔ وکیل صاحب کا فرمانا ہے کہ پاکستان کی بربادی کی پہلی اینٹ گورنر جنرل غلام محمد نے رکھی تھی۔ ان کے بعد جسٹس منیر کی باری تھی اور ان دونوں کے بعد حالات بد سے بدتر ہی ہوتے گئے اور آج یہ سوال ہر پاکستانی کے ذہن میں کلبلا رہا ہے کہ اب جبکہ حزبِ اقتدار و اختلاف دونوں ہی جانب کے سیاستدان نااہل ترین ہیں اور بیوروکریٹس بھی نااہل ترین! تو کیا ایسے میں ان لوگوں کے ہاتھوں میں پاکستان محفوظ رہ پائے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں