’’بائیونک آئی‘‘ کا خالق

ہمارا آج کا یہ کالم مارک ہمایوں کے بارے میں ہے۔ مارک ہمایوں کے دادا کرنل الٰہی بخش جناح صاحب کے معالج تھے اور انہیں گہری طبی بصیرت رکھنے والے ایک معالج کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ مارک ہمایوں بھی اپنے دادا ہی کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ دنیا بھر میں بے شمارمریضوں کو اندھے پن کی بیماری سے آزاد کرنے اور انہیں بینائی کا تحفہ دینے کے لئے مارک نے ''بائیونک آئی‘‘ یعنی مشینی آنکھ ایجاد کی ہے۔ یوں وہ اکیسویں صدی کے ہیروز میں جگہ پانے کے مستحق ٹھہر چکے ہیں۔ مارک ہمایوں پاکستانی نژاد امریکی ہیں۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں ان کے اس کارنامے پر امریکی حکومت نے انہیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا ہے۔ نیشنل میڈل آف ٹیکنالوجی اینڈ انوویشن نامی یہ اعلیٰ ترین اعزاز وہ صدر اوباما سے وصول کریں گے۔ صدر اوباما کا کہنا ہے کہ مشینی آنکھ کی ایجاد امریکی جدت پسندی کا ایک ثبوت ہے۔ مارک ہمایوں نے جو مشینی آنکھ ایجاد کی ہے اس کا نام تو 'ایرگس II‘ ہے لیکن عام طور پر اسے ''بائیونک آئی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ زیادہ تر نابینا افراد کی بصارت اس کی بدولت لوٹائی جا سکتی ہے۔ میڈیکل سائنس اور انجینئرنگ کو یکجا کر کے مارک نے جو ایجاد کی یہ ان لوگوں کے لئے ایک معجزہ ہے جو موروثی اسباب کے باعث ریٹینا کی ایسی تدریجی خرابی کا شکار ہیں جو بڑھاپے میں اندھے پن کا سبب بن سکتی ہے۔ آنکھ کے اندر اور اس کے اردگرد ایک الیکٹرانک ریسیور نصب کیا جاتا ہے جس کے الیکٹروڈز مخصوص شیشوں پہ نصب کیمرے سے سگنل وصول کرتے ہیں۔ الیکٹروڈز یہ سگنل ریٹینا کو بھیج کر اسے متحرک کرتے ہیں اور پھر ریٹینا کے محسوسات آپٹک عصب کے ذریعے سفر کر کے دماغ تک پہنچ جاتے ہیں، جہاں انہیں عکاسی مل جاتی ہے۔ بصارت واقعتاً بہت بڑا تحفہ ہے اور اس بائیونک آئی کی مدد سے ہزاروں افراد یہ تحفہ پا چکے ہیں۔ دنیا میں معمر افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جدید ادویات کی مہربانی سے اب لوگ زیادہ عرصے تک زندہ رہ پاتے ہیں، اس لئے پینسٹھ برس سے زائد افراد کی شرح ملکی آبادی میں بڑھتی جا رہی ہے۔ معمر افراد جس بیماری کا زیادہ شکار ہوتے ہیں وہ الزائمر نہیں‘ بلکہ اندھا پن ہے۔ دوسروں پہ بوجھ بننا کسی کو بھی پسند نہیں ہوتا۔ پینسٹھ برس سے زائد عمر کے افراد کو بصری صلاحیتوں سے استفادے کی ضرورت اسی طرح ہے جس طرح اس سے کم عمر کے لوگوں کو ہوتی ہے۔
مارک ہمایوں لاس اینجلس میں یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا کے آئی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ہیں۔ وہاں وہ آپتھامولوجی اور بائیو میڈیکل انجینئر نگ کے پروفیسر بھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے لئے باعثِ فخر بننے والا یہ تریپن سالہ ماہرِ چشم ہے کون؟ ہم نے ان سے چند سوالات کئے جن کے جوابات ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں جن سے ان کی ذات پہ کچھ روشنی پڑتی ہے:
س: مارک ہمایوں کون ہے؟
ج: میری پیدائش پاکستان میں ہوئی تھی۔ میرا پورا نام مارک سلمان ہمایوں ہے۔ میرے والد کا نام محمد ہمایوں تھا، کرنل الٰہی بخش میرے دادا تھے۔ ہمارا خاندان 1972ء میں امریکہ منتقل ہو گیا تھا‘ اور میں نے اپنی تمام تر تعلیم امریکہ میں ہی مکمل کی ہے۔ ڈیوک یونیورسٹی سے میں نے ایم ڈی کی ڈگری لی۔ اپنا تحقیقی مقالہ میں نے یونیورسٹی آف نارتھ کیلی فورنیا سے بائیوکیمکل انجینئرنگ کے موضوع پہ لکھا۔ اس کے علاوہ ڈیوک آئی سینٹر اور جان ہاپکنز ہسپتال سے بھی جدید ترین اور اعلیٰ ترین کلینیکل تربیت حاصل کی ہے۔
س: اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے بزرگوں ہی کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ آپ کے دادا کرنل الٰہی بخش جناح صاحب کے ذاتی معالج تھے۔ ان کی کتاب With the Quaid-i-Azam during his Last Days ہم پڑھ چکے ہیں، جس میں بڑی گہرائی کے ساتھ جناح صاحب کی بیماری اور وفات کے بارے میں تفصیلات ملتی ہیں۔ کرنل الٰہی بخش ایک با بصیرت انسان تھے۔ زندگی بھر انہوں نے ضرورت مندوں کی مدد کی۔ قائد کے علاوہ علامہ اقبال اور سر عبدالقادر کے معالج کے طور پر بھی ان کا نام زندہ رہے گا۔
جواب: میرے دادا لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ الٰہی بخش ایم ڈی ایم آر سی پی 1904ء میں مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر کے چک مغلانی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندان امراض چشم کے ماہر حکماء کا خاندان تھا۔ انہی کے بزرگوں سے ایک مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ذاتی معالج بھی تھے۔ میرے دادا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 43 برس کی عمر میں انہیں لاہور کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا پرنسپل مقرر کیا گیا تھا۔ وہ اس کالج کے کم عمر ترین مسلمان پرنسپل تھے۔ 
دراصل انگریز اور ہندو اساتذہ کی بہت بڑی تعداد تقسیم کے بعد پاکستان چھوڑ کر چلی گئی تھی؛ چنانچہ ڈاکٹر الٰہی بخش نے صرف یہی نہیں کہ اس کالج کی تعمیرِ نو کا بیڑہ اٹھایا بلکہ پاکستان بھر میں طبی تعلیم کی ترقی میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔
سوال: لوگوں سے آپ نے سنا ہی ہو گا کہ آپ اور آپ کے دادا میںکس قدر مماثلت پائی جاتی ہے، خاص طور پر آ پ کی آنکھیں۔۔۔!
جواب: بے شک!
سوال: اتنی بڑی کامیابی اور صدر اوباما کی جانب سے جو ستائش آپ کی ہوئی ہے، اس کی پشت پر آخر کون سے محرکات کارفرما تھے؟
جواب: میری نانی تسلیم خٹک ذیابیطس سے متعلقہ پیچیدگیوں کی بدولت بصارت سے محروم ہو رہی تھیں۔ اس زمانے میں مَیں میڈیکل سکول میں زیرِ تعلیم تھا۔ تبھی میں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ مجھے امراضِ چشم ہی کے شعبے میں جانا ہے۔ ویسے آپ کو بتاتا چلوں کہ صوبہ سرحد کے سابق گورنر محمد اسلم خان خٹک میرے نانا تھے۔ بھٹو دور میں وہ اس صوبے کے گورنر رہے اور پھر جنرل ضیا کے دور میں وہ قومی اسمبلی کے سپیکر کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اپنے کیریئر کا آغاز میں نے 1987ء میں کیا‘ اور یہ میری خوش قسمتی تھی کہ گزشتہ تیس برسوں میں مجھے بے شمار باصلاحیت ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کرکے ایسے مریضوں کی بصارت لوٹانے کے لئے دنیا کی پہلی قابلِ امپلانٹ چِپ کی تشکیل کے اپنے حتمی مقصد کو پانے کا موقع ملا، جو ریٹینا کی خرابی کی وجہ سے نابینا ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر الفریڈ مین نے بہت مدد کی۔ میرے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے ایک کمپنی بنا ڈالی جس کے ذریعے بائیونک آئی یعنی ''ایرگسII ریٹینل امپلانٹ‘‘ کو کمرشلائز کیا گیا ہے۔
سوال: آپ کو کیا امید ہے کہ کتنے لوگ بائیونک آئی کے ذریعے پھر سے دیکھنے کے قابل ہو سکیں گے؟
جواب: دنیا بھر کے وہ لاکھوں لوگ جو ریٹینا کی خرابی، روشنی کا احساس کرنے والے خلیوں کی خرابی یا فوٹو ریسیپٹرز (نوڈز اور کونز) کو پہنچنے والے نقصان کے باعث دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں، وہ سب اس بائیونک آئی سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ افاقہ ان مریضوں میں دیکھنے میں آیا ہے جو 'ریٹے نائٹس پگمنٹو سا‘ جیسے موروثی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔
سوال: امریکہ سے باہر کتنے ممالک ایسے ہیں جو آپ کی ایجاد سے استفادہ کر رہے ہیں یا کرنے کا منصوبہ یا ارادہ بنا رہے ہیں۔
جواب: امریکہ سے باہر انگلستان، کینیڈا، فرانس، اٹلی، جرمنی، نیدرز لینڈ، ترکی اور سعودی عرب میں یہ پہلے ہی سے دستیاب ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر ماہ ایک نیا ملک ایرگس II یعنی بائیونک آئی کے استعمال کی منظوری دے رہا ہے۔
سوال: آپ کی اس ایجاد سے پاکستانی کس طرح مستفید ہو سکتے ہیں؟
جواب: وہ پاکستانی جو ریٹینا کی خرابی کی وجہ سے خاص طور پر 'ریٹے نائٹس پگمنٹوسا‘ کی وجہ سے نابینا ہیں، انہیں اس آلے کے استعمال کے لئے حکومتِ پاکستان کو منظوری دینا ہو گی‘ یا پھر ایسے مریضوں کو ان ممالک میں سے کسی ایک ملک جانا پڑے گا جہاں یہ آلہ پہلے ہی سے منظور کیا جا چکا ہے۔ 
مارک ہمایوں کی قابلیت کی گواہی فرید حسن بھی دیتے ہیں جو باش اینڈ لومب نامی آنکھوں کی نگہداشت کے ایک عالمی ادارے کے سابق چیئرمین ہیں۔ موتیا کی سرجری تک لوگوں کی رسائی اور اسے قابلِ استطاعت بنانے میں بھی مارک کی کاوشوں نے کردار ادا کیا ہے۔ متعلقہ علاج کو سادہ تر شکل دے کر مارک ہمایوں نے موتیا کی سرجری کو دنیا بھر کے لاکھوں معمر مریضوں کے لئے قابلِ استطاعت بنا دیا ہے۔ فرید حسن کہتے ہیں کہ مارک ہمایوں صرف ایک شفیق سرجن ہی نہیں بلکہ ایک پُرجوش موجد بھی ہیں جو سائنس کی جدت کے ساتھ مسلسل آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ فرید حسن کہتے ہیں کہ مارک جس بے باکانہ انداز میں تبدیلی کی ترویج اور مقابل پر برتری کے حصول کے لئے نت نئی ٹیکنالوجی متعارف کراتے ہیں اسے وہ خاص طور پر قابلِ تحسین سمجھتے ہیں۔ بقول فرید حسن‘ مارک کے لئے اولین فرض شفا کے منتظر مریضوں کی مدد کرنا ہے اور اس کے لئے وہ انہیں زیادہ انتظار نہیں کراتے، لہٰذا مارک کی سب سے بڑی تعریف یہی ہے کہ وہ انسان دوست ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں