ایک امریکی کہاوت ہے کہ Whoever dies with the most toys wins the game یعنی مرتے وقت جس کے پاس سب سے زیادہ کھلونے ہوئے وہی فاتح ٹھہرا۔ اس کہاوت میں کئی معانی مضمر ہیں لیکن خرید و فروخت کے جنون میں مبتلا امریکیوں نے اس کہاوت کے ظاہری معانی کو ہی اپنی زندگیوں کا شعار بنا رکھا ہے۔ پروفیسر تھامس نیلر تیس برس تک ڈیوک یونیورسٹی جیسے معتبر امریکی تعلیمی ادارے میں معاشیات اور کمپیوٹر سائنس پڑھاتے رہے۔ کیپٹل مارکیٹ میں ای بزنس بھی انہوں نے متعارف کرائی۔ فارچون میگزین والے پانچ سو بڑی بڑی کمپنیوں کی سالانہ فہرست چھاپتے ہیں۔ اس فہرست میں شامل کمپنیوں کو پروفیسر نیلر سرمایہ کاری سے متعلق حکمت عملیوں کے بار ے میں مشورے بھی دیتے رہے‘ لیکن پھر بالآخر ''امریکی خواب‘‘ کی جانب سے ان کا دل کھٹا ہو گیا، اور ایک اور مصنف کے ساتھ شراکت میں انہوں نے Affluenza - the all-consuming epidemic (یعنی مرضِ فراوانی- ایک ہمہ گیر وبا) نامی ایک کتاب لکھ ڈالی۔ سادگی اور معاشرتی آسودگی کی تلاش میں وہ اپنی پُرآسائش زندگی کو چھوڑ کر خوش کن نظاروں سے بھرپور امریکی ریاست ورمانٹ منتقل ہو گئے۔ ورمانٹ واحد امریکی ریاست ہے جہاں بل بورڈز پر پابندی ہے۔ 2002ء میں شائع ہونے والی ان کی کتاب ایفلوئنزا فی الفور ایک بیسٹ سیلر بن گئی تھی۔ ابھی پچھلے دنوں ایفلوئنزا کی یہ اصطلاح ایک بار پھر اس وقت امریکہ میں منظر عام پر آئی‘ جب ماں کے ہاتھوں بگڑے ایک کم سن امیر زادے نے نشے میں دھت ہو کر ڈرائیونگ کرتے ہوئے چار افراد کی جان لے لی۔ سولہ برس کے اس بگڑے امیر زادے کا نام ایتھن کائوچ ہے۔ اس کے وکیل کا کہنا تھا
کہ چونکہ اس کا مؤکل ایفلوئنزا کا شکار ہے اس لئے اسے جیل کی نہیں بلکہ اصلاح گھر کی ضرورت ہے۔ اس لڑکے نے چار افراد کی جان لی ہے اور پانچ افراد اس کے ہاتھوں زخمی ہوئے لیکن سزا اسے بڑی معمولی ملی۔ جج نے اسے محض دس برس کی آزمائشی سزا سنائی ہے۔ اب ایک اور اقتباس ملاحظہ کیجئے جو ایک الگ وقت میں ایک الگ خطے کی ایک الگ بیسٹ سیلر کتاب سے لیا گیا ہے، اور اس میں ایفلوئنزا سے بالکل الگ ایک کیفیت کی خاکہ کشی نظر آتی ہے۔ مصنف لکھتا ہے، ''اپنے کیریئر کے عروج کے دور میں ایک بار میں ہوائی جہاز سے سفر کر رہا ہے۔ میرے قریب بیٹھا مسافر ایک معمر آدمی تھا۔ اس نے سادہ سی شرٹ اور پتلون پہن رکھی تھی۔ بظاہر وہ متوسط طبقے کا مگر خاصا تعلیم یافتہ شخص دکھائی دے رہا تھا۔ جہاز کے دیگر مسافر مجھے گھور رہے تھے لیکن یہ معمر آدمی بالکل بے نیاز تھا۔ وہ خاموشی سے اپنا اخبار پڑھتا یا پھر کھڑکی سے باہر دیکھتا رہا۔ جب چائے آئی تو وہ بھی اس نے خاموشی سے پی۔ اس سے کسی طور گفتگو کرنے کی کوشش میں‘ میں نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ جواب میں مروتاً وہ بھی مسکرا دیا۔ ہماری بات چیت شروع ہوئی تو میں نے فلموں کا موضوع چھیڑ دیا اور اس سے پوچھا ''کیا آپ فلمیں دیکھتے ہیں؟‘‘ اس نے جواب دیا، ''اوہ، بہت ہی کم۔ کئی سال پہلے ایک فلم دیکھی تھی‘‘۔ پھر میں نے ذکر کیا کہ میں فلموں میں کام کرتا ہوں۔ وہ بولا ''اوہ، یہ تو اچھی بات ہے، کیا کام کرتے ہو؟ میں نے جواب دیا: ''میں ایک ادا کار ہوں‘‘۔ اس نے کہا ''اوہ، زبردست!‘‘ بس اس کے بعد بات چیت ختم ہو گئی۔ جب ہمارا جہاز اپنی منزل پہ پہنچا تو میں نے الوداعی مصافحے کے لئے اس کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا کہ ''آپ کے ساتھ سفر اچھا رہا، ویسے میرا نام دلیپ کمار ہے‘‘۔ اس آدمی نے مسکراتے ہوئے میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور جواب دیا ''شکریہ، میرا نام جے آر ڈی ٹاٹا ہے‘‘۔
جے آر ڈی ٹاٹا پچاس برس تک ٹاٹا اینڈ سنز کے چیئرمین رہے۔ وہ بھارت کے اولین پائلٹ تھے‘ جنہوں نے بھارت کی اولین انٹرنیشنل ایئرلائن ایئرانڈیا لانچ کی تھی۔ اس کے برعکس دیکھیں تو ہمارے پاکستان میں ایفلوئنزا کا حملہ شدید نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر یہی دیکھ لیں کہ کچھ دن پہلے جب ہم ڈینٹل سرجن ڈاکٹر شاہد محمود کے کلینک میں تھے اور ڈاکٹر صاحب ہمارے دانت کے علاج میں مصروف تھے تو ایک سابق وی آئی پی نے ان کے کلینک میں آ کر اور شور مچا کر حقیقتاً آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی اسسٹنٹ تہمینہ دوڑتی ہوئی آئی اور اس نے ان کے کان میں کچھ سرگوشی کی لیکن ڈاکٹر صاحب نے اسے کہا ''ان سابق سینیٹر صاحب کو کہہ دو کہ اپائنمنٹ لے کر آئیں۔ میں فی الفور ان کا معائنہ نہیں کر سکتا۔‘‘ پھر ڈاکٹر صاحب نے ہمیں مخاطب کر کے بتایا ''یہ لوگ میرے پاس آ کر تقاضا کرتے ہیں کہ ان کا جدید ترین آلات سے علاج کیا جائے لیکن جب فیس کی بات آئے تو یہ لوگ ادائیگی کے لئے ایسے چیک دیتے ہیں جو بینک سے واپس آ جاتے ہیں۔ میری دراز میں ایسے چیکوں کا پورا پلندہ پڑا ہوا ہے۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کی ڈاکٹر شاہد محمود کے پاس ایکس رے اور لیزر کی جدید ترین مشینیں ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ جب انہی جدید ترین مشینوں کے اخراجات کے مطابق بل بنے تو نام نہاد اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے یہی لوگ پیسوں پہ ان کے ساتھ بحث کرنے لگتے ہیں۔ ''یہ اشرافیہ والے ہیں کون؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا۔ ہمارا جبڑا تو ان کے زیر علاج کھلاپڑا تھا‘ لہٰذا جواب بھی انہوں نے خود ہی دے دیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ انتہا ئی مالدار کوئی بھی شخص اس زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ اگر وہ نیم خواندہ بھی ہو تو کوئی بات نہیں۔ اس طبقے کے لئے صرف پیسہ ہی اہم ہے، اور کسی چیز کی کوئی اہمیت نہیں۔ پچھلے دنوں ایک اور دوست نے ہمیں تاخیر سے منعقد ہونے والی ایک ویلنٹائن ڈے پارٹی کی کہانی بھی سنائی، یہ پارٹی ''کمیٹی پارٹی‘‘ کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔ ایسی پارٹیاں اسلام آباد میں بڑی مقبول ہو رہی ہیں۔ درمیانی عمر کی عورتوں کا ایک جم غفیر سر تا پا لال لباس میں ملبوس ہوتا ہے۔ یہ لال لباس خاص طور پر اسی موقع کے لئے خریدے جاتے ہیں۔ ان عورتوں نے اپنے گیسوئوں کی بھی نفیس آرائش کی ہوتی ہے، بالوں کو رنگا ہوتا ہے، سٹریکس لگائی ہوتی ہیں، اونچی ایڑھی کے لال جوتے انہوں نے پہنے ہوتے ہیں اور ان کے بیگز بھی لال رنگ کے ہی ہوتے ہیں۔ یہ سب جوتے اور بیگز لوئی وٹان، پراڈا، ساوَٹورے فیراگامو جیسے بڑے بڑے برینڈز کے ہوتے ہیں، اور سبھی لال رنگ کے! ایسی پارٹیوں کا پُرتعیش کھانا بھی مہنگے فائیو سٹار ہوٹلوں سے آتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کمیٹی پارٹی آخر ہوتی کیا ہے؟ یہ خواتین دراصل ہر مہینے ہزاروں روپے کی کمیٹیاں ڈالتی ہیں‘ جن کا حاصل جمع لاکھوں سے بھی اوپر ہوتا ہے۔ ہمارے دوست پوچھتے ہیں کہ یہ عورتیں جب اتنی امیر ہیں تو انہیں کمیٹیاں ڈالنے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟ شاید یہ ایک بہانہ ہے لوگوں سے ملنے جلنے کا، شاندار گھروں کی سیر کا، گپ شپ کا اور اپنے زیورات و ملبوسات کی نمائش کا اور ساتھ ہی لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہونے کا بھی! کسی ویلنٹائن ڈے پارٹی پر تو ڈھول بجانے والے اور غزلیں گانے والے بھی بلا لئے جاتے ہیں تاکہ یہ خواتین ان کے سُروں پہ جھوم سکیں، ان کے ساتھ گا سکیں یا پھر ناچ بھی لیں۔ مہنگے مہنگے جوتوں اور بیگز کی بات چلی ہے تو قارئین کو یاد ہو گا کہ ہماری سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر جب بھارتی دورے پر گئی تھیں تو وہاں وہ اپنا ایرمیس کا سیاہ برکین بیگ بڑے فخر سے لہراتی پھر رہی تھیں۔ بھارتی میڈیا میں اس پہ ایک شور مچ گیا تھا۔ ایک بلاگر نے اس پہ کچھ یوں تبصرہ کیا تھا ''اس سے پہلے کہ آپ ایک ناقد کے طور پر مجھے مسترد کر دیں، میں آپ کو بتا دوں کہ میں اس بات کا حامی ہوں کہ خواتین کو نکھرا ستھرا رہنا چاہئے (خوبصورت دِکھنے میں کیسے کوئی مضائقہ ہو سکتا ہے؟) لیکن کیا ایک غریب اور کرپشن زدہ ملک کی وزیر کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ ایک لمیٹڈ ایڈیشن کا بیگ‘ جس سے لگژری ٹپکتی ہو اور جس کی قیمت بھی شاید کئی ہزار ڈالرز ہو، یوں لہراتی پھرے؟
آج کل شادیوں کا موسم بھی ہے۔ شادیوں کے منتظمین شادی گھروں کو گلابوں اور سوسن کے پھولوں سے آراستہ کرنے کا معاوضہ بھی بے تحاشہ لیتے ہیں۔ ٹینٹوں میں بڑے بڑے فانوس لگے ہوتے ہیں جن میں ہزاروں قمقمے جگمگا رہے ہوتے ہیں۔ دلہن کا لباس بھی لاکھوں روپے کا بنتا ہے اور دولہا دلہن کی مائیں بھی دولت کی نمائش میں ایک دوسرے کے مقابل ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے پارلرز دلہن کے میک اپ کا لاکھوں روپیہ وصول کرتے ہیں۔ دلہن کو سونے سے قبل وہ سارا میک اپ اتارنا ہی پڑتا ہے لیکن پھر بھی چند لمحوں کے لئے اتنے سارے پیسے کا ضیاع ہو جاتا ہے۔ پھر وفاقی دارالحکومت میں ایسے بگڑے امیر زادے بھی ہیں جن کے لئے تفریح کا مطلب یہ ہے کہ اپنی مہنگی مہنگی گاڑیوں میں کار کے انجن کو شور کی بلند ترین سطح تک چلائیں۔ کوئی ایک بار نہیں بلکہ کئی گھنٹوں تک یہ لڑکے گاڑیوں میں گول گول گھومتے ہوئے اور انجن کا شور مچا مچا کر سب کی زندگیوں کو جہنم بناتے رہتے ہیں۔ ہم نے پاس ہی کھڑے ایک ڈی ایس پی سے جب اس کی شکایت کی تو اس نے بتایا کہ ان لڑکوں کی گاڑیوں میں ایک بٹن نصب ہوتا ہے اور جوں ہی یہ کسی پولیس والے کو دیکھتے ہیں تو انجن بند کر دیتے ہیں لہٰذا ایفلوئنزا کے شکار ان لڑکوں کی حرکتوں پر کوئی کارروائی کرنے سے یہ پولیس والے معذور ہوتے ہیں۔ انفلوئنزا سے بچنے کے لئے انسان انجکشن لگوا سکتا ہے لیکن ابھی تک کسی مائی کے لعل کو ایفلوئنزا کا علاج دریافت کرنے کی توفیق نہیں مل سکی ہے۔ یہ ایک لاعلاج وبا ہے!