’’ڈرامہ کوئینز‘‘ کی واپسی

کوئی بھی فرد جو ہر صورتحال میں عادتاً میلو ڈرامائی طرزکے رد عمل کا اظہارکرتا ہو ڈرامہ کوئین کہلاتا ہے۔ہمارے ملک میں کئی ایک ایسے لوگ موجود ہیں جن پر عموماً ڈرامہ کوئین ہونے کا شائبہ گزرتا ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے، آج کل ایسے لوگ کیسی کیسی شعلہ بیانیاں کر رہے ہیں۔ رائی سے پہاڑ بنانے کا کوئی موقع ان سے نہیں چُوکتا۔ پرویز مشرف کی ملک سے روانگی نے ان لوگوں کو ایک ایسا موقع فراہم کر دیا ہے۔ پچھلے کئی عشروں سے ملک کے سیاسی افق پر ہم ایسے کرداروں کی بیان بازیاں دیکھتے آ رہے ہیں۔ جنرل مشرف کی روانگی کے بعد یہ لوگ پھر انتہائی مبالغہ آمیز، منافقانہ اور حد سے زیادہ جذباتی ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔کیا پاکستان کبھی ان ڈرامہ کوئین قسم کے لوگوں سے نجات پا سکے گا؟ شاید نہیں! جب تک پاکستان میں جمہوریت پختہ نہیں ہوتی، بے لگام زبانوں والے یہ لوگ ٹی وی سکرینوں پہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہیںگے۔ 
احمد رضا قصوری جو سابق صدر مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے چیف کو آرڈی نیٹر ہیں، فرماتے ہیں کہ ان کے لیڈر جب ضروری محسوس کریں گے پاکستان آتے رہیں گے، ان کے خلاف تمام مقدمات بالآخر ختم ہو جائیں گے کیونکہ یہ سب بودے ہیں۔ پرویز مشرف کی ملک سے روانگی کے حوالے سے احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں حکومت کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں کی گئی۔ قصوری صاحب صرف ایک وکیل (Lawyey) ہی نہیں ( ٹی وی پہ بعض تجزیہ کار انہیں Liar یعنی جھوٹا قرار دیتے ہیں) بلکہ ایک تجربہ کار سیاستدان بھی ہیں جن کے بیان کو اس کی ظاہری حیثیت میں ہی تسلیم کیا جانا چاہئے۔ ان کا کہنا ہے بعض لوگ پرویز مشرف اور حکومت کے درمیان ڈیل کی باتیں اس لئے کر رہے ہیں کہ خود میاں نواز شریف دسمبر 2000ء میں سعودی ثالثی کے ذریعے ایک ڈیل کے تحت ملک چھوڑ کر گئے تھے۔ قصوری صاحب کا دعویٰ ہے کہ اس معاہدے کی ایک مصدقہ نقل ان کے پاس موجود ہے جس کے تحت حکمران خاندان نے اقرار کیا تھا کہ وہ دس برس ملک سے باہر رہیں گے۔ جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے ہمارے سیاستدان پہلے ایک غلط کام کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس کے بعد یہ کہتے ہوئے خود کو معصوم ظاہر کرنے کی سعی کرتے ہیں کہ ان کے خلاف مقدمات سیاسی محرکات کی بنیاد پر قائم کئے گئے ۔ یہ ان کے لئے کتنی آسان بات ہے! ہمارے یہ کج فطرت سیاستدان دورانِ اقتدار خوب صحت مند اور توانا ہوتے ہیں لیکن اقتدار ہاتھ سے جانے کے بعد احتساب اور قانون کی زد میں آتے ہی اس قدر بیمار ہوجاتے ہیں کہ ان کو ایسے علاج کی ضرورت پڑ جاتی ہے جو بقول ان کے وکلاء کے پاکستان میں دستیاب نہیں ہوتا! یہ سراسر بے ہودہ مذاق ہے! یہ لوگ بیرون ملک علاج کے لئے نہیں بلکہ گرفتاری سے بچنے کے لئے جاتے ہیں۔ زرداری صاحب ہی کو دیکھیے جو ظاہر تو یہ کر تے ہیں کہ وہ اس قدر بیمار ہیں کہ پاکستان لوٹ کر آنا ان کے لئے ممکن نہیں لیکن ساتھ ہی مین ہیٹن (نیویارک) میں واقع اپنے دولت کدے سے میڈیا کو انٹرویو پہ انٹرویو بھی دیتے جا رہے ہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو بھی دیکھ لیجئے ‘اتوار کے روز موصوف نے یہ فرمایا کہ جو لوگ اس وقت ملک سے پرویز مشرف کے جانے پہ احتجاج کر رہے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اس فوجی آمرکو گارڈ آف آنر پیش کیا تھا۔ چودھری صاحب کے اپنے لیڈر خود دس سال تک ملک سے باہر رہنے کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس مدت کے ختم ہونے سے تین سال پہلے وطن واپس آگئے تھے لیکن چودھری صاحب پی پی پی پہ دہرا معیار رکھنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
ای سی ایل سے پرویز مشرف کے نام کے اخراج کے خلاف پی پی پی کے احتجاج پر نکتہ چینی کرتے ہوئے چودھری نثار کا کہنا تھا کہ اپنے پانچ سالہ دور میں پی پی پی نے مشرف کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کئے رکھے لیکن اب ان کے بیرون ملک جانے پر انہیں احتجاج کی سوجھی ہے۔ چودھری نثار نے یہ بھی کہا کہ 2009ء میں تحقیقاتی کمیٹی نے بے نظیر قتل کیس میں جنرل مشرف کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کا اشارہ دیا تھا لیکن اس کے باوجود پی پی پی حکومت نے ان کے خلاف کوئی مقدمہ قائم کرنے سے گریز کیا۔ یہ مذاق ہے یا کیا ہے کہ وہی جماعت جس نے جنرل مشرف کو گارڈ آف آنر پیش کیا تھا وہی اب ان کے بیرون ملک سفر پہ سیاسی ڈرامہ کھڑا کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ای سی ایل سے جنرل مشرف کا نام سپریم کورٹ کے حکم پر خارج کیا گیا۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ عوام کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں۔ پاکستانی عوام کی یادداشت واقعی بڑی تیز ہے۔ وہ بھولے نہیں کہ میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے گزشتہ دونوں ادوار میں ملک کا کیا حال تھا۔ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ وہ اس سے قبل بھی دو بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور ہر بار انہوں نے عزیزوں اور دوستوںکو ہی نوازا۔ اس بار بھی وہ اسی ایجنڈے پہ کار بند ہیں،اس لئے سوال یہ ہے کہ چودھری صاحب کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں؟ 
اس ڈرامے میں تیسرا کردار وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر ِاطلاعات جناب مولا بخش چانڈیو کا ہے۔ ان کا کردار بڑا ہی رنگین ہے۔ زیادہ تر وہ ناظرین کو اپنے چبھتے ہوئے مختصر تبصروں سے محظوظ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی باتوں کو کون سنجیدہ سمجھ سکتا ہے؟ تازہ ترین شوشہ انہوں نے یہ چھوڑاکہ پاکستان پیپلزپارٹی جنرل مشرف کی بیرون ملک روانگی پر نہیں بلکہ حکمران جماعت یعنی نواز لیگ کی منافقت پر احتجاج کر رہی ہے۔ چانڈیو صاحب اس سے انکار کرتے ہیں کہ انہوں نے چودھری نثار کو جھوٹا کہا ہے۔ بقول ان کے انہوں نے چودھری صاحب کے صرف بیان کو جھوٹا کہا تھا۔ چانڈیو صاحب کہتے ہیں کہ انہیں جنرل مشرف سے زیادہ چودھری نثار پہ اعتبار ہے اور اگر چودھری نثار یہ کہتے ہیں کہ جنرل مشرف واپس آئیں گے تو وہ یقیناً واپس آجائیں گے۔ مولا بخش چانڈیو کہتے ہیں کہ وہ تو اس بات پر حیران تھے کہ چودھری نثار ملک کے وزیر داخلہ ہیں یا جنرل مشرف کے ترجمان؟ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید اس ڈرامے میں چوتھا کردار نباہ رہے ہیں۔ ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کے والدکے دورِ حکومت میں جنرل مشرف کا ملک میں آنا جانا لگا رہا، سو بلاول اب کیوں اتنے سیخ پا ہو رہے ہیں؟ پرویز رشید نے یہ بھی کہا کہ مشرف، بلاول کی والدہ کے قتل کے مقدمے میں نامزد ملزم ہیں لیکن ان کے والد کو اپنے دورِ حکومت میں انہیں گرفتار کرنے کی تحریک نہیں ملی۔ بڑا میٹھا میٹھا بولتے ہوئے پرویز رشید نے اپنی جماعت کو فرشتوں کی جماعت ٹھہرا دیا کیونکہ وہ کہتے ہیں باوجود اس کے کہ جنرل مشرف نے پی ایم ایل (ن) کو مظالم کا نشانہ بنایا تھا، ان کی جماعت انتقامی سیاست پر یقین نہیں رکھتی۔ 
ڈرامہ کوئین قسم کے کرداروں کی اس فہرست میں اگلا نام قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ کا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی جماعت اتنی مہان ہے کہ 2008 ء کے انتخابات میں فتح کے بعد جنرل مشرف نے انہیں پیش کش کی تھی کہ وہ پنجا ب میں حکومت بنائیں اور وہاں اپنے وزیر اعلیٰ کا تقرر کریں۔ جنرل صاحب نے انہیں کہا تھا کہ اگر انہوں نے پنجا ب سے ن لیگ کو باہر رکھا اور اسے حکومت نہ بنانے دی تو وہ مرکز اور پنجاب دونوں میں پی پی پی کو مطلوبہ تعداد میں نشستیں دے دیں گے۔ خورشید شاہ کہتے ہیں کہ جنرل صاحب کا خیال تھا کہ اگر پی پی پی نے ان کی مدد کے ساتھ حکومت بنائی تو ان کا اپنا اختیار اور اقتدار بھی برقرار رہے گا۔ تاہم جس آئین کو جنرل مشرف نے پامال کیا تھا اسی آئین کی بحالی کے لئے پی پی پی نے پنجاب میں اپنی حکومت کے قیام کے امکان کی قربانی دے دی۔ اگر مشرف صدر رہتے تو پی پی پی کے لئے آئین میں ترمیم کر کے 58-2B کے خاتمے کے وعدے کو ایفا کرنا ممکن نہ ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب سیاستدان اگر اتنے ہی اچھے ہیں تو پھر ڈرامہ کوئین کیوں بن جاتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں