پشتو کی ایک ضرب المثل کا مفہوم یہ ہے: ''جب بچہ مرتا ہے تو ماں باپ اسے دل میں دفنا لیتے ہیں، اس کی اصل تدفین تب ہوتی ہے جب اس کے ماں باپ کا دل دھڑکنا چھوڑ دیتا ہے‘‘۔ انیس سالہ کریم خان آفریدی کی ماں آنسو پونچھتے ہوئے ہمیں بتا رہی تھی کہ فادرز ڈے پر دن ایک بج کر بیس منٹ پر کرسٹینا اور طارق آفریدی کو ایک کال موصول ہوئی کہ انہیں جلد از جلد اسلام آباد کے پمز ہسپتال پہنچ جانا چاہیے کیونکہ ان کے بیٹے کریم کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ اس کے بعد انہیں ایک اور کال آئی۔ اس بار انہیں ایک نجی ہسپتال پہنچنے کا کہا گیا تھا، جہاں ان کے بیٹے کو لے جایا گیا تھا۔ وہ لوگ جب ایمرجنسی پہنچے تو وہاں ان کی ملاقات ایک فیملی ڈاکٹر سے ہوئی جو پُرسکون نظر آنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ کرسٹینا دوڑ کر ایمرجنسی روم کی طرف گئی اور چیخ اٹھی: ''یہ تو مر چکا ہے‘‘۔ وہ نڈھال ہو کے گر پڑی۔ اردگرد کھڑے لوگ اسے تسلی دے رہے تھے لیکن وہ ہر ایک سے پوچھ رہی تھی کہ اس کا بیٹا کیوں مر گیا؟ ''میں تو اس کی لاش تک نہیں دیکھ سک رہی۔ اسے تو کفن پہنا کر تدفین کے لئے تابوت میں بند کر دیا گیا ہے‘‘۔ وہ چلا رہی تھی۔ لیکن جب بچہ مرتا ہے تو ماں باپ اسے دل میں دفنا لیتے ہیں، پھر اس کی اصل تدفین تب ہوتی ہے جب اس کے ماں باپ کا دل دھڑکنا چھوڑ دیتا ہے! کریم کے والد طارق آفریدی نے پندرہ جون کے اس واقعے سے پہلے کی تمام کڑیاں بیان کیں۔ انہوں نے بتایا کہ کریم فٹ بال کا ورلڈ کپ دیکھنے اپنے دوست کے گھر گیا تھا۔ کرسٹینا نے صبح کریم کا ایک ایس ایم ایس پڑھا جس میں اس نے لکھا تھا کہ چونکہ دیر ہو گئی ہے اس لئے وہ رات اپنے دوست کے گھر ہی رہے گا۔ ماں باپ نے فون پر اس سے رابطہ کرنا چاہا لیکن
انہیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ چند گھنٹے بعدکریم کی ایک دوست نے فون کر کے انہیں بتایا کہ صبح ساڑھے تین بجے کے قریب اس کی کریم سے بات ہوئی تھی اور وہ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔ کرسٹینا کہتی ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس گھر کے لوگوں کو کب معلوم ہوا کہ کریم منشیات کے زیادہ استعمال کی وجہ سے مر چکا ہے۔ ''جب ہم فون کر رہے تھے تو انہوں نے فون اٹھا کر ہمیں بتایا کیوں نہیں کہ ہمارے بیٹے کے ساتھ کیا ہوا ہے؟‘‘ کرسٹینا کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ مسلسل پوچھے جا رہی تھی۔ کریم، کرسٹینا اور طارق آفریدی کا اکلوتا بیٹا تھا۔ چند ماہ بعد اس المناک حادثے کو دو سال پورے ہو جائیں گے۔ ''ہم نے اپنے بیٹے کے لئے بڑے بڑے خواب دیکھے تھے، ایک لمحے میں وہ سب بکھر گئے۔ وہ جا چکا ہے، اس کے لئے ہم کسی کو ملزم نہیں ٹھہرا رہے اور نہ ہی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کہیں کوئی گڑبڑ کی گئی تھی‘‘۔ طارق اور کرسٹینا واضح طور پر کہتے ہیں کہ وہ کسی کو بھی اپنے بیٹے کی موت کا ذمہ دار نہیں سمجھتے۔ ''ہمارا بیٹا کوئی فرشتہ نہیں تھا۔ ہاں، وہ حشیش پیتا تھا لیکن اس سے کوئی مرتا نہیں۔ اس کے سارے دوست حشیش پیتے ہیں‘‘۔ یہ غمزدہ والدین بس بار بار یہی پوچھتے ہیں کہ کریم کی حالت کی خبر انہیں بروقت کیوں نہیں دی گئی؟ اگر منشیات کی مقدار زیادہ ہونے سے وہ بے ہوش ہو گیا تھا تو اس کے دوستوں نے یقیناً اپنے گھر والوں کو خبر کر دی ہو گی، پھر خاتونِ خانہ نے کریم کے والدین کو فون کیوں نہیں کیا؟ ''شاید ہمارے بیٹے کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ اس کا معدہ صاف کر لیا جاتا‘‘۔ کرسٹینا کہتی ہے کہ اگر کریم اپنی ہی قے سے سانس بند ہو جانے کی وجہ سے مرا، تب بھی انہیں بتا دینا چاہئے تھا۔ ''ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق کریم کی موت صبح کے ابتدائی گھنٹوں میں ہوئی تھی‘‘۔ کریم کے والدین ابھی تک جوابات ڈھونڈ رہے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں ملا۔ ان کے سوالوں کے جواب میں ہر سمت موت کا سناٹا ہی سنائی دیتا ہے۔ اپنے بیٹے کی یادوں کا یہ قرض ہے کہ وہ سچ کی جستجو کریں۔ وہ اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک معلوم نہ کر لیں کہ چودہ جون کی اس رات کو ہوا کیا تھا؟ کریم کے والد طارق آفریدی فارن سروس میں ایک شاندار سفارتی کیریئر کے حامل ہیں۔ انہوں نے ہمیں ایک فائل نکال کر انتالیس صفحات کی وہ اپیل دکھائی جو انہوں نے اسلام آبادکے ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں مناسب کارروائی کی استدعا کے ساتھ دائر کی تھی۔ درخواست گزار کی حیثیت میں انہوں نے مدعا علیہان کے طور پر بارہ نام دیے ہیں جن میں اس ہسپتال کے ڈاکٹرز بھی شامل ہیں جہاں ان کے بیٹے کو لے جایا گیا تھا۔ ان کے علاوہ اس گھر کے صاحب و خاتونِ خانہ، ان کے دونوں بیٹے، ان کا فیملی ڈاکٹر اور دو پولیس افسران کے ساتھ ساتھ
ریاست بھی اس فہرست میں نامزد ہے۔ یہ درخواست 1898ء کے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 176 بحوالہ 174 دائر کی گئی ہے۔ یہ درخواست وزیرِ داخلہ چودھری نثار اور ان کے سیکرٹری داخلہ کو بھی بھیجی گئی لیکن طارق آفریدی کہتے ہیں کہ وہاں سے بھی انہیں مکمل خاموشی ملی۔
گزشتہ اکتوبر میں انہوں نے ایک بار پھر انصاف کے حصول کی سعی کی۔ 'Unjust-delayed action by police/civil administration, Islamabad' کے عنوان کے تحت انہوں نے وفاقی محتسب کی خدمت میں شکایت درج کرائی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ان کے بیٹے کی موت کی تحقیقات نامناسب محرکات اور دوست نوازی کے زیر اثر اختیارات کے استعمال میں ناکامی کی وجہ سے تعصب اور تاخیر کا شکار ہوئی۔ گزشتہ ماہ مرکزی مدعا علیہان بالآخر سامنے آ گئے۔ انہوں نے وزارتِ داخلہ میں ایک جوابی شکایت درج کرائی جس میں ان کا مؤقف یہ ہے کہ انہیں پولیس کی جانب سے طارق اور کرسٹینا آفریدی کی ایما پر ''غیر قانونی طور پر‘‘ ہراساں کیا جا رہا ہے۔ طارق آفریدی کہتے ہیں کہ وہ دشنام طرازیوںکے کسی ایسے سلسلے کا آغاز بالکل نہیں چاہتے جس میں فریقین ایک دوسرے پر ذاتی نوعیت کے الزامات لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کی کردار کشی کرتے ہیں۔ ''ہماری توجہ کا مرکز یہ ہے کہ حقائق اور فریب کا فرق واضح کر دیا جائے جیسے شواہد سے ظاہر ہے کہ جن مدعا علیہان کو میں نے اپنی درخواست میں نامزد کیا ہے ان کے درمیان ایک مشکوک نوعیت کی ملی بھگت جاری تھی‘‘۔
آفریدی خاندان کا ہر لمحہ اپنے بیٹے کے غم میں گزرتا ہے لیکن وہ دیگر ایسے لوگوںکو اس غم سے بچانا چاہتے ہیں جن کی اولاد منشیات کا استعمال کرتی ہے۔ کریم جیسے بچے جو منشیات کے بے ہنگم استعمال کی
ہسٹری رکھتے ہیں انہیں خاندان اور معاشرے سے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ''کوئی ماں باپ ایسی صورتحال سے گزرنے کے مستحق نہیں جہاں انہیں اپنا بچہ کھونا پڑے۔ کریم اب ہم میں نہیں لیکن اس کا نام کریم خان آفریدی ویلفیئر فائونڈیشن کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہے گا جو ہم نے اس کی یاد میں قائم کیا ہے۔ اس فائونڈیشن کے ذریعے ہم بنیادی طور پر یہی پیغام پھیلانا چاہتے ہیں کہ Stay Clean یعنی منشیات سے پاک رہیے‘‘۔ پاکستان میں منشیات، گفتگو کے لئے ایک ممنوعہ موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔ ''جب کسی کی سانس ایکسٹسی کے استعمال کے باعث بند ہو جاتی ہے تو اس کے گھر والے کہتے ہیں کہ اس کی موت کا سبب دل کا دورہ تھا‘‘۔ کرسٹینا کریم خان آفریدی ویلفیئر فائونڈیشن کی سربراہ ہیں۔ ان کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ جابجا تفریح کے ایسے مراکز قائم کرنے چاہئیں جہاں نوجوان اپنے فارغ اوقات کھیلوں جیسے صحت مند مشاغل میں صرف کر سکیں۔ وہ منشیات کو وسیع پیمانے کی انسانی تباہی کا ہتھیار قرار دیتی ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ پاکستان میں نوجوانوں کی بڑی تعداد اس بری عادت کی نذر ہو رہی ہے۔ تین سال قبل باقاعدہ ہیروئن استعمال کرنے والوں کی تعداد860,000 تھی۔ 320,000 افراد افیون استعمال کر رہے تھے جبکہ پندرہ سے چونسٹھ برس تک کی عمر کے 1.06 ملین افراد دیگر نوعیت کی منشیات اور ممنوعہ ادویات کے عادی تھے‘‘۔ کرسٹینا بتاتی ہیں ''اب یہ تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے‘‘۔ منشیات کا استعمال جان لیوا ہوتا ہے۔ دو قسم کے لوگ اس بری عادت کا شکار ہوتے ہیں، نہایت مالدار اور نہایت غریب! نہایت مالدار لوگ اکتاہٹ کے مارے صرف مزے کے لئے جبکہ نہایت غریب لوگ اپنے احساسات کو سن کرنے کے لئے نشہ استعمال کرتے ہیں تاکہ غربت کی تکالیف سہہ سکیں۔ کریم خان آفریدی ویلفیئر فائونڈیشن کا مقصد یہ ہے کہ منشیات کے استعمال کی روک تھام سے متعلق معلومات کو عام کیا جائے تاکہ نوجوانوں کے والدین، اساتذہ اور دیگر گھر والے، سکول اور دیگر مقامات پر منشیات استعمال کرنے والوں کی ابتدائی علاما ت بر وقت شناخت کر سکیں۔ کریم کے سکول کے دوستوں نے Shattered Dreams کے نام سے ایک ڈرامہ سٹیج کیا تھا‘ جس کی دیکھنے والوں کی تعداد 2200 تھی۔ اس میں 28 سکولوںکے 1600 طلبہ بھی شامل تھے۔ بعد میں ان طلبہ کو اس ڈرامے سے حاصل ہونے والے اسباق کے بارے میں ایک مضمون لکھنے کو کہا گیا۔ انعامات جیتے والے طلبہ کو فائونڈیشن کا سفیر نامزد کیا گیا۔ کریم کی موت نے اس کے ماں باپ کی زندگی ہمیشہ کے لئے بدل دی ہے۔ طارق آفریدی کہتے ہیںکہ ''ہر رات میں نماز پڑھ کر خدا کا شکر ادا کیا کرتا تھا کہ اس نے مجھے ایک بیٹا دیا ہے۔ جب کریم پیدا ہوا، میری عمر چھپن سال تھی۔ جب سے اس کی موت ہوئی، میں نے یہ عمل چھوڑ دیا ہے‘‘۔