سو بار ہم فریب سے بیمار ہو چکے!

بیماری کے بہانے بیرون ملک فرار ہونے والوں کی فہرست میں تازہ ترین نام وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب کا ہے۔ نجانے یکدم انہیں کیسے یہ خیال آیا کہ انہیں دل کے طبی معائنے کی ضرورت ہے‘ اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ یہ طبی معائنہ پاکستان کے نہیں بلکہ لندن کے ماہرینِِ قلب کریں۔ لوٹ کھسوٹ میں ہمارے لیڈروں کا کوئی ثانی نہیں۔ ناجائز ذرائع سے ہتھیائی گئی دولت یہ لوگ بیرونی ممالک میں چھپا کر رکھتے ہیں، اپنے لئے رہائش گاہیں یہ لوگ بیرون ملک تعمیر کراتے ہیں اور علاج معالجے کے لئے بھی رُخ دوسرے ممالک کا ہی کرتے ہیں۔ یہ سب کر چکنے کے بعد یہ لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے وطن میں ہی سرمایہ کاری کریں، پاکستانیت کے اظہار کے لئے پاکستانی مصنوعات خریدیں، حالانکہ خود یہ لوگ اور ان کے بچے بھی اس کے بالکل برعکس عمل رکھتے ہیں۔ ہمارے لیڈر جعلساز اور دھوکے باز ہیں۔ اس ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں کے لئے ان جیسوں کا انتخاب کبھی نہیں ہونا چاہئے۔ یہ لوگ کھلے منافق ہیں۔ ہمارے خزانے سے پیسہ چوری کرکے یہ لوگ بیرونی ممالک میں اپنے ذاتی بینک اکائونٹس بھرتے رہتے ہیں۔ آخر یہ سسٹم اقتدار میں ان کی واپسی کی راہ روک کیوں نہیں دیتا؟ میاں صاحب کی لندن یاترا کا مقصد علاج نہیں تھا بلکہ انہیں زرداری صاحب سے ملاقات کرنا تھی۔ زرداری صاحب خود بھی ملک سے فرار ہونے کے لئے بیماریوں کے بہانے تراشنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ لندن میں میاں صاحب کی جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک ''این آر او‘‘ پہ دستخط کرنے کی تیاریوں میں ہے۔ ایک باخبر ذریعے نے ایک ہم عصر انگریزی روزنامے کو بتایا کہ لندن میں میاں صاحب نہ صرف پوری طرح سے صحت مند محسوس ہوتے ہیں بلکہ وہ پی پی پی کے تعاون کے ساتھ موجودہ سیاسی دبائو سے باہر آنے کے لئے بھی کوشاں دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر میاں صاحب کے دل کی شریانیں انہیں واقعی بند محسوس ہو بھی رہی تھیں‘ تو یہ کوئی ایسی بڑی خطرناک یا جان لیوا بیماری نہیں‘ جس کا علاج پاکستان میں انہیں میسر نہیں آ سکتا تھا۔ اگر میاں صاحب واقعی اپنے دل کی شریانوں کی صفائی کے لئے لندن گئے تھے تو کیا ان کا ایسا کرنا پاکستانی ڈاکٹروں کی تضحیک نہیں؟ اس طرح پاکستان میں شعبہ صحت پہ ان کی جانب سے عدم اعتماد کا اظہارکیا گیا ہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ میاں صاحب کی اس لندن یاترا کا مقصد پی پی پی کے ساتھ نون لیگ کے ایک معاہدے کی تشکیل ہے‘ جس کے تحت پی پی پی موجودہ بحران سے وزیر اعظم کو باہر نکالنے میں تعاون کرے گی۔ اسی لئے تو قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے پانامہ دستاویزات کی تحقیقات کی سربراہی کے لئے رضا ربانی کا نام تجویز کیا تھا۔ وہ تو شکر ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین ایک دیانتدار آدمی ہیں‘ لہٰذا انہوں نے اپنی ہی جماعت کے ایک فرد کی جانب سے پیش کی گئی اس تجویز کو نرمی سے رد کر دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پی پی پی کی خدمات کے صلے میں پی ایم ایل (ن) پنجاب اور سندھ میں پی پی پی کے ساتھ مل کر رینجرز اور نیب کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کرے گی۔ دونوں جماعتوں کے درمیان اس قسم کی مفاہمت کی مخالفت پی پی پی کے ایک اور سرکردہ رہنما اعتزاز احسن کی جانب سے بھی کی گئی ہے۔ ان کی طرح کے دیگر ناقدین کا خیا ل یہ ہے کہ ایسے کسی بھی معاہدے کے نتیجے میں سندھ میں پی پی پی کے ووٹ بینک میں کمی آ سکتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہمارے حکمران جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو ''گھوڑوں‘‘ جیسے صحت مند، ''چیتوں‘‘ جیسے طاقت ور، ''شیروں‘‘ جیسے بہادر اور ''لومڑیوں‘‘ جیسے زیرک ہوتے ہیں، لیکن یہی حکمران جب جیلوں میں مقید ہوتے ہیں تو صورتحال بدل جاتی ہے۔ 
ہمارے ان ''مردانِ آہن‘‘ کو جب حراست میں لے لیا جاتا ہے اور ان سے پوچھ گچھ شروع ہوتی ہے تو ان کی اکثریت ''کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے‘‘ کے خوف سے ڈھیر ہو جاتی ہے۔ ان کے اندرونی قویٰ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ نبض ان کی تیز ہو جاتی ہے اور دل شدت سے دھڑکنا شروع کر دیتا ہے جو ان کے فشارِ خون میں بلندی کا موجب ہو جاتا ہے۔ ان کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں اور رنگت اڑ جاتی ہے۔ سالوں پہلے جیل کی ہوا پہلی بار کھانے کے بعد زرداری صاحب اب نِت نئی بیماریوں کی تخلیق کے فن میں بڑے طاق ہو چکے ہیں؛ تاہم لندن اور نیویارک کی پارٹیوں میں وہ بڑے ہٹے کٹے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے دوست ڈاکٹر عاصم حسین بھی جب سے جیل گئے ہیں‘ انہیں بھی وہاں اب تک متعدد دل کے دورے پڑ چکے ہیں اور دماغی بریک ڈائون کا بھی وہ شکار ہوئے ہیں۔ زرداری صاحب مسلسل چلاتے جا رہے ہیں کہ حکومت ان کے دوست کو طبی امداد فراہم نہیں کر رہی اور سندھ میں ان کے ترجمان قائم علی شاہ بھی یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر ڈاکٹر عاصم حسین کو کچھ ہوا تو حکومت کو اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔ خود ڈاکٹر صاحب بھی اپنے جیلرز کو بتا چکے ہیں کہ ان کے دماغ میں رسولی ہے۔ بہ الفاظِ دیگر مطلب ان کا یہ ہے کہ میں مر رہا ہوں، مجھے جانے دیں، مجھے جان بچانے کے لئے بیرون ملک فرار ہونا ہے۔ اس ضمن میں آصف زرداری کے مزید ذکر سے پہلے قارئین کو یاد دلاتے چلیں کہ شریف برادران بھی جب جیل جاتے ہیں تو حالات کی شدت (اور حدت) ان کے لئے بھی بہت ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔ شہباز شریف کی کمر درحقیقت ''کمرِ ناتواں‘‘ ہو جاتی ہے اور ان کے بڑے بھائی، ہمارے موجود ہ وزیر اعظم صاحب عرضیاں دینے لگتے ہیں کہ انہیں لندن کے مہنگے ہسپتالوں میں داخل اپنے بیمار بیٹے یا اہلیہ کی دیکھ بھال کی اجازت دی جائے۔ الطاف حسین کا دل بھی بڑا کمزور ہے۔ جب بھی ان کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگتا ہے تو انہیں بھی ہسپتال میں داخلے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد مشرف جیسے ''کمانڈو‘‘ کو بھی بیماری کے بہانے سوجھنے لگتے ہیں۔ چوہدری شجاعت بھی جب محسوس کرتے ہیں کہ ان کے گرد کوئی دام بچھایا جا رہا ہے تو بیماری کے بہانے وہ بھی بیرون ملک کی سیر کر آتے ہیں؛ تاہم بیماروں کی اس فہرست میں سرفہرست زرداری صاحب ہیں۔ اپنے صدارتی استثنیٰ کی منسوخی کا امکان محسوس کرتے ہی ان کے دل میں تکلیف شروع ہو گئی تھی‘ اور موصوف اپنے دکھتے دل کے ساتھ دبئی پہنچ گئے تھے۔ یہاں پاکستان میں ان کے ترجمان ڈاکٹر رحمان ملک ہمیں یہ یقین دلانے کی کوششیں کرتے رہے کہ ان کے بیچارے بیمار باس پہلے بھی تین بار دل کی تکلیف سہہ چکے ہیں۔ نجانے ان کا یہ بیمار دل اور کتنی تکلیفیں سہنے کی سکت رکھتا ہے؟ پہلی بار انہیں دل کی تکلیف تب ہوئی تھی‘ جب نواز شریف کے پُلسیئے رانا مقبول سے انہیں جان کا خطرہ درپیش تھا۔ انہیں اس وقت ڈاکٹر قیوم سومرو اور ڈاکٹر عاصم حسین کی ضرورت پڑی تھی‘ جو انہیں رانا مقبول سے بچانے کے لئے طویل مدت تک ہسپتال میں زیرِ علاج رکھتے تھے۔ اس کے بعد دل کی اگلی تکلیف نے زرداری صاحب کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ پہنچا دیا تھا۔ ہمیں یہ بتایا گیا کہ نواز شریف کے دور میں جو ظلم و ستم انہوں نے سہے، ان کی بدولت ان کا دل اور دماغ بھی کافی کمزور ہو گیا ہے۔ ان کے ٹوٹے دل کا علاج صرف امریکہ میں ہی ممکن تھا؛ چنانچہ انہوں نے مین ہیٹن میں ارب پتیوں کے علاقے ٹرمپ ٹاورز میں مستقل رہائش اختیار کی۔ میکسی ملین نامی ان کا کتا، ملازمین کی فوج ظفر موج اور چہل قدمی کے لئے یارانِ تیزگام ان کے ساتھ تھے، سو زندگی ان کی مزے سے گزرتی رہی۔ تیسری بار ان کی دل کی تکلیف اس وقت شروع ہوئی جب انہیں سوئس بینکوں میں پڑے اپنے ساٹھ ملین کے اثاثوں کی وضاحت پیش کرنے کے لئے سوئٹزرلینڈ طلب کیا گیا؛ تاہم ان کی طلبی کے سمن جاری کرنے والے جج ڈینیل ڈیواڈ کو نیو یارک کے مایہ ناز ماہرینِ نفسیات کی جانب سے یہ حلف نامے موصول ہو گئے کہ ان کا مریض سفر کرنے کے قابل نہیں ہے۔ قانون کی گرفت سے بچنے اور ملک سے فرار ہونے کے لئے ہمارے یہ وی آئی پیز نجانے کب تک بیماریوں کے عذر تراشتے رہیں گے؟ سادہ جواب اس سوال کا یہ ہے کہ اس وقت تک جب تک قانون کی حقیقی حکمرانی متحرک نہیں ہو جاتی اور بیماری کے بہانے ان لوگوں کو ملک سے فرار ہونے سے پہلے ہی پکڑ نہیں لیا جاتا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں