ماضی کا ایک ورق

یہ بات ہے انیس سو اٹھانوے کی، مقام تھا رائے ونڈ محل اوروہاں جو تقریب ہو رہی تھی اس کا مقصد ہمیں شریفوں کی دولت اور انسان دوستی سے متعارف کرانا تھا۔ تقریب کے شرکاء میں لاہور اور اسلام آباد کے صحافی شامل تھے۔ ماحول میں نو دولتیے پن کی جھلک واضح تھی۔جولائی کا مہینہ تھا، مون سون کی شروعات ہو چکی تھی۔گرمی کی حدت اور فضا کی نمی کی وجہ سے ہم لوگوں کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔کھچا کھچ بھرے اس ہال میں برقی قمقمے جگمگا رہے تھے لیکن پھر بھی وہ نہایت بے رنگ معلوم ہو رہا تھا۔ ہم لوگ وہاں بیٹھے باپ، بیٹے اورپوتے کے کارناموں کی تفصیلات سن رہے تھے۔ ہم لوگوں کو اسی روز اسلام آباد سے بذریعہ بس رائے ونڈ پہنچایا گیا تھا۔ یہاں ہم سے ہماری مراد ہے اسلام آباد کے صحافی۔یہ تجویز میاں صاحب کے اس وقت کے وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید کی تھی۔وہ چاہتے تھے کہ میڈیا کو ابا جی سے متعارف کرا دیا جائے۔ابا جی شریف خانوادے کے سربراہ تھے اور سٹیل کے کاروبار میں اس خاندان نے جو بے تحاشہ دولت کمائی، اس کا سہرہ انہی کے سر جاتا ہے۔ میڈیا کو ان سے متعارف کرانے کا مقصد یہی تھا کہ اس دولت کے بارے میں میڈیا والوں کے بڑھتے ہوئے تجسس کا کچھ حل نکالا جا سکے۔ابّا جی کی بات حرفِ آخر ہوا کرتی تھی۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ وہ سیاست کے بڑے شوقین تھے اور پیسہ کمانے کا ہنر بھی انہیں خوب آتا تھا۔ ان کے بیٹوں نے ان کے لئے دیسی قسم کے ساچی اینڈ ساچی لباس کا انتظام کیا تھا جس میں ملبوس ہو کر معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے وہ ہمالیہ کی بلندیوں پر پہنچ چکے ہیں اور کینیڈی خاندان کے سربراہ جوزف کینیڈی جیسے لوگوں کی برابری کرنے لگے ہیں۔ تاہم تلخ حقیقت یہ ہے کہ خانوادئہ اتفاق کی یہ تمام دولت و ثروت ایک فوجی آمر یعنی جنرل ضیاء کی مہربانی ہے۔ سوویت روس کے مقابلے کے لئے امریکی سی آئی اے نے اس وقت پاکستان پر ڈالروں کی برسات کر رکھی تھی۔ اس سے قبل ذوالفقارعلی بھٹو اتفاق گروپ کے کارخانوں کو قومی تحویل میں لے چکے تھے لہٰذا جنر ل ضیاء نے نے جب اقتدار پہ قبضہ کیا تو وہ بڑے مہربان ہو گئے اور انہیں خوب خوب نوازا۔میاں محمد شریف نے اپنے بیٹوںکے ساتھ دس برسوں کی قلیل مدت میںاپنی کاروباری سلطنت ایک بار پھر کھڑی کر دی۔ اس زمانے کے جوکارگزارِ اقتدار تھے وہ بتاتے ہیں کہ شریفوں کا یہ تگڈم کس طرح گھنٹوں سرکاری دفتروں کے باہر سرکار کی نظرِ مہربان پانے کے لئے بیٹھا نظر آتا تھا۔خاص موسمی پھلوں کے تازہ رس کے بھرے فلاسک سرکاری دروازوں پہ یہ لوگ دستی طور پر پہنچاتے تھے اوریہ ایک عام نظارہ بن چکا تھا۔ انیس سو اٹھاسی میں جب جنرل ضیاء طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوئے تو اس وقت تک میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر کافی مستحکم ہو چکے تھے اور بے تحاشہ دولت بھی انہوں نے کما لی تھی۔ میاں صاحب جب دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے تو نجانے انہوں نے جادو کی کونسی چھڑی چلائی کہ سترہ ماہ کے مختصر عرصے میں رائے ونڈ کا وسیع و عریض محل تیار ہو کر پاکستان کے نقشے اور اخباروں میں دکھائی دینے لگا۔ اس عظیم الشان عمارت کی تعمیر کے پیچھے ابّا جی کا ذہن ہی کارفرما تھا۔ تاہم جب ہر طرف شریفوں کی کرپشن کا چرچا ہونے لگا تو مجبوراً نقصان کی تلافی کے لئے انہیں اپنے محل کے دروازے میڈیا والوں کے لئے کھولنے پڑ گئے۔
اٹھارہ سال پہلے کے ماہِ جولائی کے جس دن کا ہم ذکر کر رہے تھے، اس روز میاں نواز شریف کے پہلوٹھے بیرسٹر حسین نواز شریف ہم سے خطاب کرنے تشریف لائے تھے۔اس وقت ان کی عمر چھبیس سال تھی۔ ہم سینکڑوںصحافی اس ہال میں نہایت تنگ تنگ بیٹھے تھے اور پسینے سے شرابور تھے۔اسی منٹ کی اس تقریب کے دوران ہمیں ہوا دینے کے لئے صرف دو پنکھے چلائے گئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہم سوانا باتھ لے رہے ہوں بلکہ جیسے سخت گرمی میں کو ئی جبری مشقت ہم سے لی جا رہی ہو۔بیرسٹر صاحب نے پہلے تو سر پہ ایک ٹوپی پہنی تاکہ ان کے تقویٰ پر کسی کو شک نہ ہو۔ پھر ہم لوگوں کو روح افزا پلایا گیا۔پسینے کے سیلاب میں ڈوب کر ہمارے بدن پانی کی کمی کا شکار ہوتے جا رہے تھے۔ایسے میں بیرسٹر صاحب نے تلاوتِ قرآن کریم شروع کر دی۔ماحول کو یوں اسلامی تاثیر دئیے جانے کے بعد ہم سانس روکے منتظر تھے کہ اب ہمیں وہ راز بتا دئیے جائیں گے کہ کس طرح شریفوں نے اتنی ساری دولت کمائی ہے۔مشاہد حسین نے اگرچہ اپنی طرف سے حسین نواز کی تقریری صلاحیتوں کو سنوارنے اور نکھارنے کے لئے بڑی محنت کی تھی لیکن شریف میڈیکل سٹی اور ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ کے بارے میں جب وہ اسی سپاٹ انداز میں مسلسل بولتے گئے تو ان کی تقریر میں ہماری دل چسپی معدوم ہوتی گئی۔حسین نواز کی تقریر کے دوران ان کے شریف دادا اور شریف چچا چند مولویوں کے ساتھ بیٹھے ادھر ادھر بے مقصد نظریں دوڑاتے رہے۔نجانے ابّا جی نے اس روز ہم سے خطاب کیوں نہیں کیا، ورنہ اس روز ہم بھی ان سے کچھ نہ کچھ سیکھ لیتے۔یہ میگا پراجیکٹ آخر ان کا ایک خواب تھا، اس کی تکمیل پہ انہوں نے کیوں لب کشائی سے گریز کئے رکھا؟رائے ونڈ کا جشن خانوادئہ شریف کے اس سربراہ کے دورِ زندگی کو خراجِ تحسین کے طور پر منایا جا سکتا تھا۔ اگر وہ اپنی جدوجہد کی کہانی ہمیں بھی بتا دیتے تو ہم بھی ان کی زندگی میں آنے والے المیوں اور پُر مسرت موقعوں کے گواہ بن جاتے۔ہم بھی جان پاتے کہ بد ترین سیاسی مخالفتوں کا سامنا انہوں نے کس طرح بہادری سے کیا تھا۔ان تمام باتوں کے برعکس تینوں شریف میاںصاحبان کسی شکار کی مانند خوفزدہ دکھائی دے رہے تھے۔ لاہور کے صحافی(جو بڑے متحرک اور بے باک تھے)ان پہ گویا پل پڑے تھے۔حسین نواز بھی ان کے حملوں کے خلاف پوری تیاری کر کے آئے تھے۔ ان پہ جتنے بھی نامہربان قسم کے تبصرے کئے گئے، ان کے سامنے وہ ذرا بھی گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوئے۔ ایک طرف سے ان پہ آوازا اٹھا کہ ''تم تو ابھی بچے ہو، ہم بڑے میاں صاحب سے کچھ سننا چاہتے ہیں‘‘ اس پہ ہال قہقہوں سے گونج اٹھا تھا۔بالآخر شہباز شریف فلور پہ آئے۔ ان کے بھتیجے سے جو سخت سوالات پوچھے گئے انہیں بلڈوز کرنے کی انہوں نے پوری کوشش کی۔ ان سے ماحول کی حدت شاید برداشت نہیں ہو پارہی تھی اسی لئے تو ایئرکنڈیشنوں کا رخ ہمارے میزبانوں کی جانب رکھا گیا تھا جبکہ ہم بیچارے صحافیوں کو گرمی میں جھلسنے چھوڑ دیا گیا تھا۔صحافیوں کے لئے شریفوں کی اس بے حسی اور تحقیر پہ ہماری برداشت جواب دینے لگی تھی اور ہمارے بدن کا درجہ ء حرارت بھی بلند تر ہوتا جا رہا تھا۔ ہم وہاں سے جانا چاہ رہے تھے۔آخر شریفوں کو ایسی کیا جلدی آن پڑی تھی کہ انہوں نے سینکڑوں صحافیوں کو اس طرح رائے ونڈ مدعو کیا؟ جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمدکی جانب سے ان کی کرپشن کا پردہ چاک ہونے کے بعد اب آخر وہ کیا ظاہر کرنا چاہ رہے تھے؟آئی ایم ایف والوں نے وزیر خزانہ سرتاج عزیز کی نیند اڑائی ہوئی تھی اور وزیر خزانہ بھی جواب میں قرض پہ قرض لئے جا رہے تھے۔ ایسے قرض جو پاکستانیوں کی آنے والی نسلوں کو چکانے تھے۔ان حالات میں بھی اس خاندانِ اول کو اپنی ہی انسان دوستی کے ترانے گانے سے فرصت نہیں مل رہی تھی۔ذرا سوچئے کہ اس دن اس تقریب کے انتظام، مہمانوں کے قیام و طعام اور سفر پہ کس قدر سرکاری روپیہ صرف کیا گیا ہوگا۔شریفوں کی مثبت تشہیر کو یقینی بنانے کے لئے مشاہد حسین سینیٹرپرویز رشید سمیت موجود تھے۔انہوں نے قاضی حسین احمد کے پیش کردہ اعداد و شمار کا مذاق اڑاتے ہوئے شریفوں پہ کرپشن کے الزامات کو رد کیا۔ ثبوت کے طور پر ہمیں شریفوں کے رہائشی احاطے کا دورہ کروایا گیا تاکہ ہم جان سکیں کہ پانچ ہزار چارسو مربع فٹ کے اس رہائشی احاطے میں یہ لوگ کس قدر سادگی سے رہتے ہیں، ان کا کھانا پینا کس قدر سادہ ہے اور یہ بھی کہ یہ لوگ پنج وقتہ نمازی ہیں۔ حسن نواز نے ہمیں اپنے بیڈ روم اور کچن تک دکھائے۔ ان کے لوگ ہمیں مسلسل بتاتے جا رہے تھے کہ ہمارے دورے کے لئے شریفوں نے جس طرح اپنے محل کے دروازے کھولے ہیں ا ور اپنی عورتوں کو محل کی اوپری منزل منتقل کیا ہے، یہی اس خاندان کی سادگی اور انکساری کا ثبوت ہے۔لیکن سونے کی ان بگھیوں کا کیاجن کے بارے میں ہم نے اتنا کچھ سن رکھا تھا؟حقیقت یہ ہے نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کی دوسری میعاد کے دوران ویک اینڈ پر لاہور میں ان کے قیام کی خاطر رائے ونڈ کے اس محل کی تعمیر کے لئے سرکاری خزانے سے اسی کروڑ روپے استعمال کئے گئے۔کیا یہ انصاف تھا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں