کرائے کے غنڈے

یہ 23 مارچ 1990ء کی بات ہے۔ میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ قوم اس سال قراردادِ پاکستان کے پچاس برس کی تکمیل کا جشن منا رہی تھی۔ مینارِ پاکستان میں وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو ایک جلسے سے خطاب کرنے والی تھیں۔ ہم نے اس موقع پر امریکہ سے اپنی تین خواتین صحافی دوستوں کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔ ہم انہیں بتا رہے تھے کہ وہ ایک تاریخی نوعیت کی تقریب کا نظارہ کرنے جا رہی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ہم چاروںکو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریب ہونے کا بھی موقع مل جائے کیونکہ پریس والوں کے لئے ڈائس کے قریب خصوصی نشستیں لگائی گئی تھیں۔ 
ہم آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے جلسہ گاہ کی جانب بڑھ رہے تھے کہ اچانک سینکڑوں سر ہمارے اردگرد نمودار ہونے لگے۔ ہماری منزل اب ہمیں دُور تر محسوس ہو رہی تھی۔ ہم نے اپنی دوستوں کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے قریب ہی رہیں ورنہ ہو سکتا ہے کہ اس ہجوم میں ہم ایک دوسرے کو کھو دیں۔ یہ خیال ہی نہایت ہولناک تھا۔ ہر طرف مرد ہی مرد دکھائی دے رہے تھے، کسی پولیس اہلکار کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ یاد رکھیے کہ کسی بھی صوبے میں امن و امان کو برقرار رکھنا اس صوبے کے چیف ایگزیکٹو یعنی وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن میاں نواز شریف اور محترمہ کی بول چال بند تھی، لہٰذا سکیورٹی کا تو مت پوچھیے! ہم قدم آگے بڑھاتے جا رہے تھے کہ یک دم ہمارے عقب میں مردوں کا ایک غول آیا اوراوچھی حرکتیں شروع کر دیں۔ ہمارے قدموں میں تیزی آ گئی، ہم نے بد حواسی میں ایک دوسرے کے ہاتھ اور اپنے کیمرے مضبوطی سے پکڑ لیے۔ ان کی اوچھی حرکتوں میں شدت آنے لگی۔ ان کے ہاتھ ہر سمت میں حرکت کر رہے تھے۔ ہم نے گردن گھما کر دیکھنا چاہا کہ یہ جنونی درندے ہیں کون! آج اتنے برسوں بعد ہم بیس منٹ دورانیے کے اس بھیانک خواب کا تذکرہ کر رہے ہیں تو اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے ہمارے ذہن میں ان مردوں کی شیطانی مسکراہٹوں کے سوا اورکچھ نہیں آ رہا۔ ہماری غیر ملکی مہمان خواتین کی ہذیانی چیخیں آج بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ وہ چلا چلا کر ان غنڈوں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ہم نے بھی انہیں دور بھگانے اور ان کا ضمیر جگانے کی پوری کوشش کی جو بے سود رہی۔ ان کے حملے ہمارے ڈائس کے قریب پہنچنے تک جاری رہے۔ ہم ڈائس تک پہنچے تو وہ لوگ تتر بتر ہو کر ہجوم میں گم ہوگئے۔ ہماری ایک مہمان خاتون نے بڑی افسردگی سے پوچھا کہ یہ کیا تھا؟ کیا تمہارے ملک میں مرد عورتوں کے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں؟ کیا جلسوں پر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنا معمول ہے؟ ہم نے انہیں بتایا کہ ایسا نہیں ہے اور یہ بھی کہ ہم کئی ایک ریلیوں میں شریک ہو چکے ہیں، لیکن آج سے پہلے ہمارے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہمارے مہمانوں کے چہروں پر آشکار ناخوشگواری اور صدمے کے تاثرات نے ہمیں احساسِ جرم کا شکار کر دیا۔ یہ تینوں امریکی صحافی خواتین ہماری ذاتی مہمان تھیں۔ انہوں نے ہماری دعوت فی الفور اسی لئے قبول کر لی تھی کہ وہ خود دیکھنا چاہتی تھیں کہ ہماری قوم تاریخی نوعیت کے اس موقع کا جشن کس طرح مناتی ہے۔ لیکن اس کی بجائے انہیںجنسی طور پر ہراساں ہونے کے تجربے سے گزرنا پڑا اور وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں کی وزیرا عظم ایک خاتون تھی، کسی بھی مسلمان ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم! 
ہماری ابتر حالت وزیر اعظم کے سیکرٹری اطلاعات سلیم گل شیخ کی نظروں سے چھپی نہ رہ سکی۔ انہوں نے آکر پوچھا کہ ہوا کیا ہے؟ وہ واضح طور پر تشویش میں مبتلا نظر آ رہے تھے۔ ہم نے اردو میں انہیں پورا قصہ سنا دیا۔ انہیں بتایا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ ریلی کے اختتام پر مردوں کا وہی غول ایک بار پھر ہم پہ حملہ کرے گا۔ تاہم انہوں نے ہمیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ پریشان نہ ہوں، وہ ہماری حفاظت کریںگے۔ جب جلسہ ختم ہوا اور ہم خارجی دروازے کی طرف جانے لگے تو وہی غنڈے ایک بار پھر ہم پر حملے کے لئے پر تولتے دکھائی دیے، تاہم سلیم گل نے فوراً اپنے ساتھیوں سمیت ہمارے گرد حلقہ بنا کر ان کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ محافظوں کے حلقے میں ہم جلسہ گاہ سے باہر آگئے۔ اس روز وفاقی سیکرٹری اطلاعات ہمارے لئے ایک ہیرو ثابت ہوئے۔ جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا، جب وہاں پہنچے تو فوراً وزیر اعظم کے پریس سیکرٹری بشیر ریاض کی جانب سے ہمیں ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی۔ سلیم شیخ انہیں پہلے ہی اس واقعے کے بارے میں بتا چکے تھے۔ بشیر ریاض ہمیں بتا رہے تھے کہ '' وہ لوگ پنجاب حکومت کے کرائے کے غنڈے تھے جنہیں اس مقصد کے لئے بھیجا گیا تھاکہ وہ خواتین کے ساتھ بد سلوکی کر کے ہماری وزیر اعظم صاحبہ کو شرمندہ کریں۔ اپنی مہمان خواتین سے کہیے کہ ہم ان سے مخلصانہ معافی مانگتے ہیں۔ ایسی حرکتیں ہماری قومی ساکھ کو داغدار کرتی ہیں۔ میں یہ واقعہ وزیر اعظم کے نوٹس میں لائوںگا‘‘۔ 
چھبیس سال بعد آج جب ہم نے اخباروں میں لاہور میں پی ٹی آئی کی ریلی میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی خبریں پڑھیں تو وہ سب کچھ ہمیں پھر یاد آ گیا۔ اس بار بھی الزام اسی جماعت پر لگا جسے اس وقت بشیر ریاض نے ملزم ٹھہرایا تھا۔ اگر پی ٹی آئی کے الزامات درست ثابت ہوئے تو یہ بڑے افسوس کی بات ہوگی کہ حکمران جماعت کی ذہنیت میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ آج بھی خواتین غنڈوں کے لئے آسان ہدف ٹھہری ہیں۔ اسی طرح اتوار کے دن جب پی ٹی آئی نے پنجاب اسمبلی کے باہر ریلی نکالی تو عمران خان کے خطاب کے بعد ایک بار پھر عورتوں کے ساتھ بد سلوکی کی گئی۔ نواز شریف کی حکومت نے فوراً اس واقعے کی ذمہ داری پی ٹی آئی پر ڈال دی اورکہا کہ ان کے جلسوں میں عورتوں کو ''شو پیس‘‘ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ عمران خان اس پہ بہت برانگیختہ ہوئے اور انہوں نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔ پی ٹی آئی نے اس کے خلاف مقدمہ بھی درج کرا دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئر مین کے ترجمان کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت کے غنڈے ان کی ریلی میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ان نے یہ بھی کہا کہ لاہورکی ریلی سے قبل پی ٹی آئی کی کسی بھی ریلی میں کسی خاتون کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی گئی، یہاں اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ ریلی حکومت کی مرضی کے خلاف نکالی گئی۔
بے نظیر بھٹو 1986ء میں جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئیں اور پنڈی کے لیاقت باغ میں ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کیا تو اس وقت بھی پورا پریس اس کی کوریج کے لئے وہاں موجود تھا۔ اس دن ہم نے بھی ان کا ایک مختصر انٹرویو کیا تھا۔ اس انٹرویو کے دوران ہم نے انہیں بتایا کہ جلسے میں شریک ہونے کے لئے ہم مری روڈ سے چل کر آئے ہیں اور اس سارے سفر کے دوران ہم نے خود کو بہت محفوظ محسوس کیا؛ حالانکہ لوگوں کا ایک سمندر وہاں موجود تھا جن میں بڑی تعداد مردوں کی تھی۔ ایک لمحے کے لئے بھی ہمارے دل میں یہ خوف نہیں آیا تھا کہ وہاں موجود مرد ہمیں کسی طرح ہراساں کریں گے۔ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ جب بھی میں اور پی پی پی اقتدار میں ہوںگے تو آپ کو اپنا آپ زیادہ محفوظ محسوس ہوگا۔ انہوں نے کہا تھا: ''میں جب بھی لوگوں کے ہجوم میں گھری ہوتی ہوں تو خود کو محفوظ محسوس کرتی ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں میرے والد اس وقت مجھ پر نظر رکھے میرے ساتھ ہوتے ہیں‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں