وزارتِ خارجہ میں سیاستدانوں کی من مانیاں

گزشتہ دنوں جاوید حفیظ صاحب نے انہی صفحات پر شفقت علی چیمہ کے ایڈونچرز کے بارے میں ایک کالم لکھا۔ موصوف وزارتِ خارجہ میں معمولی سیکشن آفیسر تھے لیکن وہ ڈائریکٹر کے عہدے تک کیسے پہنچے؟ اس کے پیچھے پوری ایک کہانی ہے۔ جاوید حفیظ سابق سفارت کار ہیں اور شفقت چیمہ کے بارے میں ان کی فراہم کردہ معلومات ان کے براہِ راست مشاہدے اور تجربے پہ مبنی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کس طرح مشرف کے دور میں قاف لیگ کے لیڈروں نے دنیا کے مختلف دارالحکومتوں میں شفقت چیمہ کی تعیناتی کروائی جہاں وہ ان لیڈروں کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہوئے انسانی سمگلنگ کے لئے ویزے فروخت کر کے ان کے لئے ناجائز روپیہ کماتے تھے۔ انہیں ایک دو بار پکڑا بھی گیا اور ان کے خلاف تحقیقات بھی ہوئی جس میں انہیںقصوروار پایاگیا اور انہیں وزارتِ خارجہ کی ملازمت کے لئے نا اہل بھی قرار دے دیا گیا، لیکن اس کے باوجود بھی وہ آگے بڑھتے رہے کیونکہ ان کے سیاسی سرپرست ہر بار انہیں بچا لیتے تھے۔ پاکستان ٹو ڈے میں اس حوالے سے ایک تفصیلی خبر چھپی ہے کہ کس طرح انسانی سمگلنگ میں وہ ملوث رہے۔ معلوم ذرائع آمدن کے مقابلے میں غیر متناسب مقدار کے اثاثوں کے باعث موصوف قومی احتساب بیورو کی گرفت میں آئے۔گرفتاری کے بعد ان کے اکائونٹ سے پچاس ملین روپے بھی حاصل کر لئے گئے۔ نیب کے اہلکار کہتے ہیں کہ شفقت چیمہ نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور اپنی آمدن کی نسبت کہیں زیادہ مالیت کے اثاثے جمع کئے۔ ذرائع کے مطابق شفقت چیمہ پر 2000ء سے انسانی سمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور انہیں وزارتِ خارجہ کی ملازمت سے نکال بھی دیا گیا تھا لیکن بعد میں ایک عدالتی حکم کے تحت اپنے عہدے پہ ان کی بحالی ہوئی۔ اسی وجہ سے پچھلے دس برسوں میں ان کی غیر ملکی تعیناتی ایک بار بھی نہیں کی گئی۔ پچھلے ماہ اپنی گرفتاری کے وقت وہ ڈائرکٹر کی حیثیت میں نیپال، بھوٹان اور سری لنکا سے متعلقہ امورکی نگرانی کر رہے تھے۔ جس طرح شفقت چیمہ چودھری شجاعت کی آنکھوںکا تارہ تھے بالکل اسی طرح اصغر حمید قدوائی نواز شریف کے چہیتے تھے۔ یہ میاں صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کی دوسری میعاد کی بات ہے۔ قدوائی صاحب کو کینیا میں پاکستان کے سفیر کے طور پر بھیجا گیا تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ کینیا میں شریف خاندان کے کاروبار تھے جن کی دیکھ بھال قدوائی صاحب کو کرنا تھی، بالکل اسی طرح جیسے شفقت چیمہ گجرات کے چودھریوں کے سپین میں موجود کاروبار کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے ۔ مؤخر الذکر اب اپنے انہی کرتوتوں کے باعث سلاخوں کے پیچھے جا چکے ہیں۔ ہمارے اکثر قارئین کو یاد ہو گا کہ جب مہران بینک سکینڈل سامنے آیا تھا تو اس وقت قدوائی صاحب اسی بینک کی پشاور والی شاخ کے منیجر ہوا کرتے تھے۔ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں۔ قدوائی صاحب کو شہرت اس وقت ملی جب وہ لندن فرار ہو گئے اور وہاں سے انہوں نے ایک حلفیہ بیان دیا جس میں انہوں نے مہران بینک سے کروڑوں روپے کا فائدہ اٹھانے والے مرکزی کرداروں کے نام بتائے جن میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ آفتاب احمد خان شیر پائو اور پیٹرولیم کے وزیر انور سیف اللہ بھی شامل تھے۔ان کی گواہی بے نظیر بھٹو کے خلاف تھی لیکن آئی ایس آئی کے سابق ڈائرکٹر جنرل اسد درانی کے مطابق مہران بینک سے فنڈز بے نظیر بھٹو کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی غرض سے لئے گئے تھے۔ان فنڈز سے مستفید ہونے والوں میں شریف برادران کے نام بھی شامل تھے۔قدوائی صاحب کے باس اور مہران بینک کے مالک یونس حبیب نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ یہ فنڈز پی پی پی کے لیڈروں میں بھی تقسیم کریں۔ وہ کہتے ہیں: ''اپنے بینکنگ کیریئر میں پہلی مرتبہ میں ہارس ٹریڈنگ سے متعارف ہوا تھا، میرے باس یونس حبیب کا حکم تھا کہ یہ پیسے میں ذاتی طور پر ان لوگوں میں نقدی کی صورت میں بانٹوں‘‘۔ اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد قدوائی صاحب ملک سے فرار ہوگئے اور عارضی طور پر انہوں نے لندن میں رہائش اختیار کر لی۔ایک روز ہمیں ان کی ایک کال موصول ہوئی۔ دورانِ گفتگو وہ نواز شریف اور شہباز شریف کی بہت تعریف کر رہے تھے۔ یہ ایک دوستانہ کال تھی مگر اس میں وہ شریفوں کا ہی پرچار کر تے رہے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس وقت کے وزیر اعظم کے دفاع کا کام انہوں نے ایک مقدس فریضے کے طور پراپنا لیا ہے۔ وہ اور ان کے باس دونوں اب انکار کر رہے تھے کہ انہو ں نے شریفوں کو کوئی رقم دی تھی۔ سابق وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کے اس الزام کو بھی انہوں نے سختی سے رد کیا کہ شریفوں نے بیرونی ممالک میں اپنی دولت چھپائی ہوئی ہے۔ قدوائی صاحب نے قسم کھا کے ہمیں فون پہ یہ کہا تھا کہ شریف بڑے خدا ترس لوگ ہیں، وہ کبھی قوم کو نہیں لوٹیںگے۔ وہ ہمیں بتا رہے تھے کہ لندن کے پارک لین میں جن چار فلیٹوں کی بات کی جاتی ہے وہ شریفوںکی ملکیت نہیں بلکہ انہوں نے یہ فلیٹس کرائے پہ لئے ہوئے ہیں۔ اس بارے میں قدوائی صاحب قرآن پاک اٹھانے کے لئے بھی تیار تھے۔ وہ کہہ رہے تھے: ''آپ کو معلوم ہے کہ پی پی پی کی سابقہ حکومت نے جب مجھے مجبورکیا تھا کہ میں جھوٹی گواہی دینے کے لئے قرآن اٹھائوںکہ مہران بینک کے فنڈز پی ایم ایل والوں کو دیے گئے تھے تو میں نے انکار کر دیا تھا۔ میں کیسے اتنا صاف جھوٹ بول دیتا؟ لیکن اب میں قسم کھاکرکہتا ہوں کہ جو میں بتا رہا ہوں وہی سچ ہے اور سچ کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘۔ قدوائی صاحب پاکستان واپس لوٹ کر نون لیگ کی حکومت کا تحفظ پانے کے لئے بڑے بے چین تھے۔ چنانچہ حسبِ توقع ہماری ان سے اگلی ملاقات سیف الرحمان صاحب کے دفتر میں ہوئی جو اس وقت وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں احتساب سیل کے سربراہ تھے۔ وہ ہمیں بتا رہے تھے کہ سیف الرحمان صاحب کے ساتھ ان کی برسوں سے دوستی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت وہاں ان کی موجودگی کا سبب یہ تھا کہ وہ زرداری اور بے نظیر کی بے مثال کرپشن کے خلاف جاری مہم میں سیف الرحمان صاحب کی مدد کر رہے تھے۔ نون لیگ نے تو سابق صدر فاروق لغاری تک کو نہیں بخشا تھا۔ میڈیا میں ان کی تصاویر جاری کی گئی تھیں جن میں وہ یونس حبیب کے ساتھ ملاقات کر تے ہوئے دکھائے گئے تھے ۔ میڈیا میں لغاری اور یونس حبیب کو ایک دوسرے کا گہرا دوست بتایا جا رہا تھا۔سابق وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے ایک دفعہ ہم سے کہا تھا کہ ایک مفرور(قدوائی) کو یوں کھلا چھوڑنا تو بری بات ہے ہی لیکن ایک مجرم کو پی ایم سیکرٹریٹ میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دینا تو بذاتِ خود ایک مجرمانہ فعل ہے۔ قدوائی صاحب کو ان کی خدمات کے صلے میں کینیا میں پاکستان کی سفارت سونپ دی گئی تھی۔انہیں سفارتکاری کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن ہمارے حکمران قابلیت دیکھتے ہی کب ہیں؟ انہیں تو اس بات کی پروا بھی نہیں ہوتی کہ بیرون ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کے لئے کس قسم کے لوگوںکو چننا چاہئے۔انہیں فکر ہوتی ہے تو بس یہی کہ اپنے من پسند لوگوں کو باہر بھیجیں تاکہ وہاں جا کر وہ ان کے کاروباروں کی نگہداری کر سکیں۔ یہ امید رکھنا کہ شفقت چیمہ کی گرفتاری کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے آئے گا، محض خوش خیالی ہو گی۔ ان سے پوچھ گچھ ضرور ہوگی لیکن پھر یہ سارا سلسلہ بے سود ثابت ہوگا جیسے ہمیشہ ہوتا آیا ہے اورآئندہ بھی ہوتا رہے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں