ہم مائیں، ہم بہنیں، ہم بیٹیاں!

انگریزی محاورے میں ''گلاس سیلنگ‘‘ یعنی کانچ کی چھت سے مراد وہ ان دیکھی غیر مرئی قسم کی رکاوٹیں ہیں جو کام کرنے والی خواتین کی پیشہ ورانہ ترقی کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔امریکہ میں ڈیموکریٹک جماعت کے صدارتی امیدوار کی باضابطہ نامزدگی کی تقریب میںہلیری کلنٹن کے نام کا اعلان ایک ویڈیو کلپ کے ذریعے کیا گیا۔ اس کلپ میں انہیں ایک گلاس سیلنگ توڑکر نمودار ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔اس ویڈیو میں کانچ کی کرچیوں کے پیچھے سے کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کی نامزد کردہ اولین خاتون کے طور پر ہلیری کلنٹن کا چہرہ سامنے آتا ہے۔ یہ نظارہ دیکھنے ہلیری کلنٹن کی چھتیس سالہ بیٹی چیلسی کلنٹن بھی فلاڈیلفیا کے ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن ہال میں موجود تھیں۔کئی عورتوں کی آنکھیں یہ نظارہ دیکھتے ہوئے چھلک پڑی تھیں۔اس ماہِ نومبر میں اگر ہلیری کلنٹن امریکی صدر منتخب ہو گئیں تو ایک تاریخ ان کی بیٹی بھی رقم کریں گی، اور وہ یوں کہ انہیں دو بار ''دخترِ اول‘‘ بننے کا اعزاز حاصل ہو جائے گا۔سرخ رنگ کے لباس میں ملبوس چیلسی کھچا کھچ بھرے اس ہال میں سٹیج پر آئیں تو ان کا مقصد یہ تھا کہ اپنی ماںکی شخصیت کے لطیف پہلوئوں کا ذکر کریں۔ ان کی بیٹی چیلسی کلنٹن اس تقریب میں اپنی والدہ کی شخصیت کے لطیف پہلوئوں پہ روشنی ڈالنے آئی تھی۔ یہ تقریب نیوجرسی کے ایک مقامی ہوٹل کے بال روم میں منعقد ہوئی تھی۔ ہم سب چیلسی کی آمد کے منتظر تھے۔نیلی جینز اور پھولدار قمیص میں ملبوس وہ سٹیج کے پیچھے سے نمودار ہوئیں۔ ان کا تعارف کرانے دوسرے سٹول پہ نیو جرسی کے ڈیموکریٹ سینیٹر کوری بوکر براجمان ہو گئے تھے۔نیوجرسی سے کانگرس میں منتخب ہونے والے اولین سیاہ فام سینیٹرکی حیثیت میں کوری بوکر کو وہاں بڑے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔انہوں نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہ '' یہی وقت ہے کہ ہم تعصب، نفرت اور مذہبی مخالفت کے جذبات کو مسترد کر دیں۔‘‘ چیلسی کلنٹن بھی ہاتھ میں مائیک پکڑے اور سٹیج پہ چلتے ہوئے حاضرین سے بڑی روانی کے ساتھ باتیں کرتی رہیں۔اپنے پیٹ کو چھوتے ہوئے آغاز انہوں نے مزاح کے رنگ میں یوں کیاتھا کہ '' میری دوسال کی ایک بیٹی ہے جس کا نام شارلٹ ہے۔ جلد ہی اس کا ایک بھائی بھی ہونے والا ہے، لیکن فکر نہ کریں، اس کی پیدائش گو جلد متوقع ہے لیکن ابھی یہاںمیں اسے جنم نہیں دے رہی!‘‘ہمارے ساتھ چیلسی کی اس ملاقات کے دو ہفتوں بعد ان کے بیٹے ایڈن کی پیدائش کا اعلان ہوا۔جب وہ تقریب ختم ہونے لگی تو ہم سٹیج کی طرف بڑھے تاکہ چیلسی کلنٹن سے مختصراً کچھ باتیں کر سکیں اور انہیں بتائیں کہ جب وہ پندرہ سال کی تھیں تو اپنی والدہ کے ساتھ انہوں نے ہمارے ملک کا دورہ بھی کیا تھا۔1995ء کے موسمِ بہارمیں امریکی خاتونِ اول کے طور پر ہلیری کلنٹن اپنی اکلوتی بیٹی کے ساتھ پاکستان کے دورے پہ آئی تھیں۔ وزیر اعظم ہائوس کے شاندار ڈائننگ روم میں ان کے اعزاز میں ظہرانہ دیا گیا تھا۔پریس والے بھی وہاں موجود تھے۔گلیمر اور گرمجوشی سے بھرپور ایک بڑا اچھا ماحول بنا ہوا تھا۔وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے میزبان کے طور پر استقبالی خطاب کیا جو ہلیری کلنٹن سمیت حاضرین نے بغور سنا۔تقاریر کے بعد تحائف کا تبادلہ کیا گیا تھا۔ہلیری کلنٹن نے محترمہ کو ایک خوبصورت بلوریں گلدان اور چاندی کے دو شمع دان پیش کئے تھے۔جواباًمحترمہ نے بھی انہیں وکٹورین طرز کی منقش کرسیاں پیش کیں جن کے دستے چاندی کے تھے۔ہم نے سنا کہ ہلیری کلنٹن بڑی گرمجوشی کے ساتھ محترمہ کو امریکی دورے کی دعوت دے رہی تھیں۔انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ پاکستانی عوام کے نیک جذبات کا پیغام وہ اپنے شوہر کو پہنچائیں گی۔ ہلیری کلنٹن کے اس دورے کے ایک ماہ بعد محترمہ نے بھی امریکہ کا سرکاری دورہ کیا اور اپنی حکومت کے لئے وہائٹ ہائوس کی حمایت کی تجدیدکے ساتھ وہ وطن واپس لوٹی تھیں۔ہم نے چیلسی کلنٹن سے ذکر کیا تو انہوں نے فی الفور بڑی گرمجوشی کے ساتھ جواب دیا کہ '' ہاں، مجھے یاد ہے کہ بچپن میں اپنی والدہ کے ساتھ میں پاکستان گئی تھی۔‘‘وہ مزید سوالات سننے کے لئے رُک چکی تھیں چنانچہ ہم نے ان کو ان کے قیام کے دوسری رات کی یاد دلائی۔ وہ بھی ایک بڑی یادگار رات تھی۔امریکی سفیر تھامس سائمنز کی طرف سے دی گئی دعوت میں ہلیری کلنٹن اور چیلسی کلنٹن مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں پاکستانیوں کے اس ہجوم کے ساتھ گھل مل گئی تھیں۔ سیاستدان، وزرائ، پیشہ ور ماہرین، خواتین کارکن اور میڈیا کے نمائندے سبھی وہاں موجود تھے۔ ہم نے چیلسی کو یاد دلایا کہ ان کی والدہ نے اس تقریب میں سیاہ رنگ کی شلوار قمیص زیب تن کر رکھی تھی جو رضوان بیگ کی ڈیزائن کردہ تھی جوہمارے ملک کے بہترین ڈیزائنرز میں سے ایک ہیں۔ تقریب کے اختتام پہ جب رخصت 
لینے کا وقت آیا تو ہلیری کلنٹن نے وہاں موجود ہر مہمان کے ساتھ خود مصافحہ کر کے سب کو مسکراتے ہوئے خدا حافظ کہا۔ہم نے چیلسی کو بتایا کہ اکیس سال بعد آج بھی ان کی والدہ اسی طرح فعالیت سے گرمجوشی کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں۔پیشتر اس سے کہ چیلسی اس بات پہ کچھ تبصرہ کر پاتیں، ہمارے اردگرد کھڑے لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ چیلسی نے کہا کہ ''میری والدہ کی یہ گرمجوشی اور فعالیت مثالی ہے۔ لوگ اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ وہ یہ سب کیسے کر لیتی ہیں۔ کیا وہ تھکتی نہیں؟ میں انہیں بتاتی ہوں کہ وہ ایسی ہی ہیں۔گیارہ ستمبر کا واقعہ جب ہوا تو نیویارک کی سینیٹر تھیں،وہ فی الفور گرائونڈ زیرو پہنچ گئی تھیں اور وہاں موجود لوگوں کو دلاسہ دے رہی تھیں، جن لوگوں نے اپنے پیارے کھوئے تھے ان کو پکڑ کر، انہیں گلے لگا کر وہ تسلی دیتی رہیں۔‘‘اس پہ مزید تالیاں بجنے لگی۔'' میری والدہ نے اس امر کو یقینی بنایا کہ جو امداد دہندگان امداد دینے سب سے پہلے پہنچے تھے انہیں صحت کی وہ سہولیات مہیا ہوں جو ان کا استحقا ق تھا۔یہ وہ بہادر مرد اور عورتیں تھیں جو اس حادثے کی جگہ پہ سب سے پہلے پہنچے تھے اور منہدم شدہ عمارت کے ملبے سے خارج ہونے والے زہریلے مادے کے بخارات ان کے تنفس میں داخل ہو گئے تھے۔‘‘1995ء کے اس دورے میں ہلیری کلنٹن اسلام آ باد میں ایک لڑکیوں کے کالج بھی گئی تھیں اور وہاں طالبات کے ساتھ غیر رسمی گفتگو بھی انہوں نے کی تھی۔ ایک طالبہ نے جب ان سے یہ کہا کہ شادی کے لئے ایک آئیڈیل مرد کو ڈھونڈنا کافی مشکل ہے، تو اس پہ ہلیری کلنٹن نے اسے جواب دیا تھاکہ ''آپ کو 
ذرا زیادہ حقیقت پسندانہ ہونا چاہئے۔ شادی کوئی نصف حصے کی شراکت والی پارٹنر شپ نہیں بلکہ یہ ایک ایسی پارٹنر شپ ہے جس میں دونوں فریقوں کو اپنا سو فی صد حصہ دینا پڑتا ہے کیونکہ اس تعلق کا تقاضا ہی یہی ہے۔‘‘ ہم نے جب اس واقعے کی یاد چیلسی کو دلائی تو انہوں نے کہا کہ اپنی عوامی زندگی کے ان تمام چالیس برسوں میں ان کی والدہ عورتوں کے یکساں حقوق کے لئے آواز بلند کرتی آئی ہیں اور اب وقت آچکا ہے کہ ہم کھڑے ہو کر ڈونلڈ ٹرمپ کی فسطائیت کو مسترد کر دیں۔''وہ مستقل نفرت انگیز باتیں کرتے ہیں۔ تعصب، جنسی و نسلی تعصب اور اسلام ترسی کو ہوا دیتے ہیں۔جس ملک میں ہم رہتے ہیں اس میں ایسی باتیں قطعی قابلِ برداشت نہیں۔‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ کی زہر افشانی کا تازہ ترین نشانہ غزالہ خان بنی ہیں۔ یہ پاکستانی نژاد امریکی خاتون کیپٹن ہمایوں خان شہید کی غمزدہ ماں ہیں۔ ان کے شوہر خضر خان نے ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن سے خطاب کیا تھا جس کے دوران و ہ اپنے شوہر کے قریب خاموشی سے کھڑی رہی تھیں۔وہ صاف طور پر دکھ اور تکلیف سے مغلوب دکھائی دے رہی تھیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے کمال بے شرمی سے ان کی خاموشی کو مذاق کا نشانہ بنایا۔اس نے کہا کہ ''میں چاہوں گا کہ اس کی بیوی بھی کچھ بولے۔‘‘ مطلب اس کا یہ تھا کہ ایک مسلمان بیوی کی حیثیت میں غزالہ خان کچھ بولنے کی اجازت ہی نہیں رکھتی۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ '' اگر آپ اس کی بیوی کو دیکھیں تو وہ وہاں بس کھڑی ہی تھی، کچھ کہنے کو اس کے پاس نہیں تھا ، یا شاید اسے کچھ کہنے کی اجازت ہی نہیں تھی،آپ مجھے بتائیے!‘‘
امریکہ میں رہنے والے 3.3ملین مسلمانوں کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ ''بتا ‘‘ دینا چاہئے کہ وہ دفان ہو جائے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں