روایت شکنوں کی جے ہو!

ایپل کے شریک بانی سٹیو جابز کا ایک قول ہے کہ ''ہمیشہ کھوج میں رہئے، مطمئن مت ہوں۔ آپ کی بھوک چمکتی رہنی چاہئے۔ حماقتیں سرزد ہونے دیں۔‘‘ سٹیو جابز ایک روایت شکن تھے اور بل گیٹس بھی۔ یہ دونوں ہی ہارورڈ یونیورسٹی سے نکالے گئے تھے لیکن انہی دونوں نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہر روایت کو توڑتے ہوئے بالترتیب آئی فون اور دنیا کا مقبول ترین پی سی سافٹ ویئر ایجاد کیا۔ اسی طرح ہارورڈ ہی کے ایک سوفومور (یعنی سالِ دوم کے طالب علم) مارک زکر برگ نے انیس سال کی عمر میں سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ بنائی جو فیس بک کہلاتی ہے۔ اس ویب سائٹ کی تخلیق کے چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی بارہ سو طلبہ نے اس کی ممبرشپ حاصل کر لی تھی۔ آج 1.70 بلین کی تعداد میں لوگ اسی ویب سائٹ کے ذریعے اپنے پیاروں سے رابطہ کرتے ہیں، اور یہ تعداد روز بروز بڑھتی بھی جا رہی ہے۔ 'Disruptive technology' کی اصطلاح ہارورڈ بزنس سکول کے ایک پروفیسر کلے ٹن کرسین سن نے کوئی انیس سال پہلے وضع کی تھی۔ انہوں نے اس کی وضاحت کچھ یوں کی تھی کہ روایت شکن ٹیکنالوجی کو اپنی جدت کی بدولت کئی ایک چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ایک تسلیم شدہ اور مقبول ٹیکنالوجی اپنی مقبولیت سے محروم ہو جاتی ہے اور ایک صنعت یا پھر اہم نوعیت کی مصنوعات کی جگہ ایک بالکل ہی نئی چیز سامنے آ جاتی ہے۔ اُردو میں تو ہم نے لفظ روایت شکن کا انتخاب کیا ہے لیکن انگریزی میں Disruptor کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ یہ لفظ سنتے ہی ہمارے ذہنوں میںکسی فتنہ گر کا تصور ابھر آتا ہے‘ یعنی کوئی ایسا شخص جو تباہیوں پہ تُلا ہو، دخل درمعقولات کرتا ہو، توڑ پھوڑ کرکے افراتفری مچاتا ہو۔ انسان فطرتاً ہنگامہ آرائیوں سے دور بھاگتا ہے۔ ہم لوگ خاندانی، سماجی اور سیاسی سطح پر انہی اقدار سے چمٹے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جو بغیر کسی وقفے کے نظام میں ایک تسلسل کی ضمانت دیتے ہیں؛ البتہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں باغیانہ روش اور روایت شکنی ہی ترقی کی ضمانت 
بنتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری زندگیاں کافی حد تک جدید ایجادات پہ منحصر ہو چکی ہیں، اگر یہ نہ ہوتیں تو ہم آج بھی صنعتی انقلاب سے قبل کے دور میں رہ رہے ہوتے۔ ٹیلی فون ہی کی مثال لیجئے، اسے ایجاد کس نے کیا تھا؟ الیگزینڈر بیل سماعت سے محروم افراد کے معلم تھے، ''برقی گفتگو‘‘ کے تصور نے انہی کے دماغ میں اس وقت جنم لیا تھا جب وہ کینیڈا اپنی والدہ سے ملنے گئے۔ ان کی والدہ سماعت کی کمزوری کا شکار تھیں۔ انہوں نے پہلے مائیکروفون اور اس کے بعد ''بات چیت کی برقی مشین‘‘ ایجاد کی جس کے حقوق انہوں نے ''ٹیلی فون‘‘ کے نام کے تحت حاصل کئے۔ پھر بائیو آنک آئی کس نے ایجاد کی؟ ایک پاکستانی نژاد ڈاکٹر مارک سلمان ہمایوں نے! ڈاکٹر ہمایوں جب امریکہ میں طب کی تعلیم حاصل کر رہے تھے تو اسی دوران ان کی نانی کی بصارت ذیابیطس کے عارضے کی بدولت متاثر ہونے لگی؛ چنانچہ ڈاکٹر ہمایوں نے امراضِ چشم میں تخصّص کرکے اندھے پن کا علاج ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا۔ آج تیس برس بعد ڈاکٹر صاحب امریکہ میں ٹیکنالوجی کے شعبے کا اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کر چکے ہیں کیونکہ انہوں نے ایک آلہ ایجاد کرکے اندھے پن کا علاج دنیا میں بالآخر متعارف کرا ہی دیا ہے۔ ان کی اس ایجادکا نام Argus 11 ہے لیکن یہ معروف بائیونک آئی کے طور پر ہے۔ انیس مئی کو صدر بارک اوباما نے ڈاکٹر صاحب کو نیشنل میڈل آف ٹیکنالوجی اینڈ اِنوویشن سے نوازا۔ اس موقع پہ خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے یہ بھی کہا کہ یہ ایجاد امریکہ کی تخلیقی جدتوں کا ایک ثبوت ہے۔ بائیونک آئی کے موجد ڈاکٹر ہمایوں قائدِ اعظم کے ذاتی معالج ڈاکٹر الٰہی بخش کے پوتے ہیں۔ اپنے داد ا سے وہ ظاہری شباہت میں مماثلت بھی اچھی خاصی رکھتے ہیں۔ کسی بھی روایت شکن کے لئے محرک عموماً خاندان ہی کا کوئی فرد بنتا ہے۔ الیگزینڈر بیل کے لئے یہ کردار ان کی والدہ نے، ڈاکٹر 
ہمایوں کے لئے ان کی نانی نے اور سٹیو جابز کے لئے ان کے والد نے محرک کا کردار ادا کیا۔ کہتے ہیں کہ حقیقت افسانے سے زیادہ عجیب ہوتی ہے۔ سٹیو جابز کی زندگی اسی بات کا ثبوت دیتی ہے۔ ان کے حقیقی والد ایک شامی مسلمان تھے جس کا نام عبدالفتاح جندل تھا۔ پچاس کی دہائی میں وہ امریکہ آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یہاں ان کی ملاقات جواین شائبل نامی ایک عورت سے ہوئی۔ یہ عورت سٹیو جابز کی حقیقی ماں تھی۔ دونوں نے شادی نہیں کی تھی۔ جب ان کا بیٹا ہوا تو انہوں نے اسے کسی کو گود دینے کا فیصلہ کیا۔ اس عظیم الشان شخص کے والد کی قسمت کس قدر قابلِ افسوس ہے۔ پچاسی سالہ عبدالفتاح جندل کا شاذ ہی کوئی جانتا ہے لیکن ''جابز‘‘ نام زندہ جاوید ہو چکا ہے۔ سٹیو جابز کو پال اور کلارا جابز نے گود لیا تھا‘ اور وہ کہتے تھے کہ یہی دونوں ان کے حقیقی ماں باپ ہیں۔ ایسا کہہ کر بھلے ہی وہ اپنے عربی النسل ہونے، اپنے مذہب اور گود لئے جانے جیسے معاملات پہ سختی سے خاموش رہنا چاہتے تھے لیکن ان کا عربی النسل ہونا اور اپنی حقیقی ماں اور بہن کی تلاش کی المناک کہانی ان کی شخصیت کا ایک بے حد پُرکشش پہلو ہے۔ یہ کہانی المناک اس لئے بھی ہے کہ جب وہ اپنی ماں اور بہن کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے تو اس کے بعد جلد ان کی بے وقت موت نے ان کے بیچ ہمیشہ کی جدائی ڈال دی۔
گوگل دنیا کا مقبول ترین سرچ انجن ہے اور لیری پیج اس کے شریک بانی ہیں۔ ان کے ماں باپ دونوں ہی کمپیوٹر کے ماہرین تھے‘ اسی لئے لیری پیج نے بھی سٹیفورڈ میں کمپیوٹر سائنس پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ وہاں ان کی ملاقات سرجی برن سے ہوئی اور ان دونوں نے مل کر 1998ء میں گوگل کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد 2006ء میں انہوں نے ایک اور مقبول ویب سائٹ یعنی یو ٹیوب بھی بنائی جو صارفین کی جانب سے اپ لوڈ کئے گئے ویڈیوز کی سٹریمنگ کی مقبول ترین ویب سائٹ ہے۔ آج اس ویب سائٹ کے صارفین کی تعداد اربوں تک پہنچ چکی ہے۔ جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے ایلان مسک کے لئے ان کے راستوں کی رہنمائی سورج کی کرنوں نے کی۔Tesla نامی برقی موٹر کار انہوں نے ہی بنائی ہے اور اس کے علاوہ SpaceX نامی کمپنی کی بنیاد بھی انہوں ہی رکھی ہے۔ یہ اولین نجی کمپنی ہے جس نے خلا میں راکٹ بھیجا۔ ایلان مسک کہتے ہیں کہ اکثر لوگ یہ جانتے تو ہیں لیکن انہیں اس بات کا درست ادراک نہیں ہوتا کہ یہ پوری دنیا پہلے ہی سے شمسی توانائی پہ چل رہی ہے۔ اگر سورج نہ ہوتا تو یہ کرہ ارض کسی برف کے گولے کی مانند ہوتا۔ بارشوں کا سارا نظام بلکہ پورا ہی ماحولیاتی نظام شمسی توانائی پہ ہی چل رہا ہے۔ اس کرہ ارض پہ زندگی کا بقا اس امر کی متضاضی ہے کہ ان حد بندیوں سے‘ ان سرحدوں سے آگے نظر ڈالی جائے جہاں انسان پہلے کبھی نہیں گیا۔ ایلان مسک یہی کر رہے ہیں۔ فوربز میگزین کے مطابق ایلان خلا اور زمین کے درمیان کے سفر کی ایک نئی تعریف وضع کر رہے ہیں۔ ٹیسلا موٹرز کے ذریعے وہ مکمل برقی گاڑیوں کو عام استعمال کے لئے مہیا کرنے جا رہے ہیں جبکہ سپیس ایکس کے ذریعے وہ عام لوگوں کو خلا میں بھیجنے پہ کام کر رہے ہیں۔ ایک اور صاحب بھی ہیں جو زمین پہ سفری وسائل کو مسافروں سے انگلی کی ایک جنبش کی دوری پہ لانے کے لئے کوشاں ہیں۔ 2008ء میں فرانس کی ایک سنسان سڑک پہ انہیں کوئی ٹیکسی نہیں مل سکی تھی؛ چنانچہ انہوں نے Uber کی بنیاد ڈال دی۔ نام ان کا ٹریوس کیلانک ہے۔ Uber کی ویب سائٹ پہ لکھا ہے کہ چاہئے گاڑی ہو، سینڈوچ ہو یا کوئی پیکج ، ہم ٹیکنالوجی کے ذریعے لوگوں کو وہ سب دیتے ہیں جو انہیں چاہئے۔ قارئین کو بتاتے چلیں کہ عالمی معیار کی یہ سفری خدمات فراہم کرنے والی سہولت اب لاہور میں بھی دستیاب ہے اور جلد ہی کراچی اور اسلام آباد میں بھی دستیاب ہو گی۔ اسی طرح ایک اور امریکی باشندے اور انٹرنیٹ پہ کامیابی سے کاروبار چلانے والے برائن چیسکی نے ہوٹل انڈسٹری میں روایت شکنی کرتے ہوئے AIRB&B کے نام سے ایک آن لائن بازار بنایا ہے جہاں لوگ چھٹیاں گزارنے کے لئے جگہوں کا انتخاب کرکے ایک پراسسنگ فیس دے کر رہائش کے لئے مکانات کرائے پہ لے سکتے ہیں۔ امریکہ میں چونتیس شہروں اور دنیا بھر کے ایک سو اکانوے ممالک میں یہ سہولت دستیاب ہے۔
سرطان ایک مہلک بیماری ہے اور صدر اوباما چاہتے ہیں کہ اس کا ''مون شاٹ‘‘ یعنی کوئی سریع الاثر علاج دریافت کیا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح امریکہ چاند پہ جا پہنچا ہے، اسی طرح سرطان کا علاج بھی دریافت ہو جانا چاہئے۔ انہوں نے 'National Cancer Moonshot Initiative. کے لئے ایک ارب ڈالر کا اعلان بھی کیا ہے۔ پہلے ہی سے دنیا میں کوئی ایک ملین کے قریب سرطان کے مریض ایسے ہیں جو علاج کے جدید طریقِ کار سے استفاد ے کی بدولت آج زندہ ہیں۔ اس طریقِ کار کا نام امیونو تھراپی ہے۔ اس طریقِ علاج میں بدن کے مدافعتی نظام کو تقویت دی جاتی ہے تاکہ وہ اندرونی طور پر سرطانی خلیوں کو تباہ کر سکے۔ ڈاکٹر ایلیسن نے روایت شکنی کرتے ہوئے ریڈی ایشن، سرجری اور کیموتھراپی جیسے طریقوں کو پیچھے چھوڑ کر یہ طریقہ علاج ایجاد کیا ہے۔ انہوں نے مدافعتی نظام کے ٹی سیلز پہ توجہ مرکوز رکھی ہے۔ ٹی سیلز مدافعتی نظام کے وہ خلیے ہیں جو بیماری زدہ خلیوں پہ حملہ کرکے بیماری کے جراثیم کو ہلاک کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ان سب لوگوں کے زندگیوں اور کارناموں کی رودادیں سن کر ہم تو یہی کہیں گے کہ روایت شکنوں کی جے ہو!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں