غمِ حسینؓ کی نعمت

جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف طویل جدوجہد کرنے‘ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور اس کی پاداش میں ستائیس سال جیل میں گزارنے والے نیلسن منڈیلا پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ سیاہ فام باشندوں کے حقوق کے لئے لڑی جانے والی جنگ میں ہار تسلیم کرنے کو تھے لیکن اس سے پہلے کہ وہ نسلی تعصب کے خلاف یہ جنگ ہار جاتے‘ نیلسن منڈیلا نے اپنے گرتے ہوئے حوصلے کو سہارا دینے کے لئے حضرت امام حسینؓ کے حق پرست کردار اور واقعہ کربلا کی روشن مثال سے ایسی طاقت کشید کی جس نے بالآخر انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ''میں نے جیل میں بیس سال سے زائد کا عرصہ گزارا اور ایک رات میں نے یہ طے کر لیا کہ میں آج سرکاری مسودات پر حکومت کی طے کردہ شرائط پر دستخط کر کے اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائوں گا۔ اس سے پہلے کہ میں یہ کر گزرتا، اچانک مجھے امام حسینؓ کا خیال آیا اور میدانِ کربلا میں ان کی حق پرستی کے واقعات میرے ذہن میں گھومنے لگے۔ اس بے مثال کردار نے حق و صداقت کا استعارہ بن کر مجھے ایسا حوصلہ بخشا کہ میں ایک بار پھر آزادی کی جدوجہد کا عزمِ صمیم لے کرپوری قوت کے ساتھ نسلی تعصب کے خلاف ڈٹ گیا‘‘۔ تاریخِ انسانی میں حضرت امام حسینؓ کا عظیم کردار مینارۂ نور بن کرخوف اور مایوسی کے اندھیروں کو صدیوں سے نگل رہا ہے اور اپنے اصولی مقاصد کے لیے ڈٹ جانے والوں کے عزم و ہمت کو حوصلوں کی تازگی بخش رہا ہے۔
یزید کے مسندِ اقتدار سنبھالتے ہی مسلمانوں کے نظامِ حکومت میں بہت سی خرافات نے زور پکڑنا شروع کر دیا تھا۔ عدل و انصاف کی جگہ ظلم و بربریت عام ہونے لگی، منتخب خلافت کی روایات دم توڑنے لگیں اور وراثتی طرزِ حکمرانی اپنے پنجے گاڑنے لگا، حُریت، حق پسندی اور فِکر و نظر معدوم ہونے لگی۔ اس نازک وقت میں سیدنا حسینؓ اپنے نانا خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کے دینِ حق کی بقا اور سلامتی کے لیے پوری طاقت سے کھڑے ہوگئے اور ظالمانہ نظامِ حکومت کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے بجائے حق و باطل کے درمیان فیصلہ کُن معرکہ کے لئے تیار ہو گئے۔ توحید و رسالت کے علمبردار بن کر اور قوتِ ایمانی سے سرشار ہو کر حضرت امام حسینؓ نے ابرہہ کی طاقتور فوج کے ہاتھیوں کے خلاف اللہ کی پرندوں پر مبنی کمزور فوج کی فتح مبین کو یاد کرتے ہوئے اپنے پیاروں اور جانثاروں کے مختصر ترین قافلے کے ساتھ یزیدی فوج کے ہزاروں سپاہیوں کا جواں مردی سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔ فاتح خیبر‘ حیدرِ کرار‘ حضرت علی المرتضیٰؓ کے لختِ جگر کربلا کے صحرا میں حق و صداقت کا ابر بن کر پورے زور سے گرجے بھی اور برسے بھی، اور ایسے برسے کہ اپنے اور اہلِ بیت کے پاکیزہ خون سے کربلا کی ریتلی زمین کی آبیاری کی اور اُسے جذبۂ ایماں سے حق و صداقت کا لالہ زار بنا دیا۔ یوں سیدنا حسینؓ دینِ حق کا وہ میزان ٹھہرے جو ہر دور میں حق و باطل کے درمیاں کسوٹی قرار پایا۔ اُس کڑی آزمائش کی گھڑی میںحضرت امام حسینؓ کے ذہن میں اپنے نانا کے وہ الفاظ گونجنے لگے، ''خدا کی قسم اگر وہ میرے داہیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند لا کر رکھ دیں اور ساری دنیا کی دولت میرے قدموں میں ڈھیر کر دیں پھر یہ چاہیں کہ میں خدا کا حکم اس کی مخلوق تک نہ پہنچائوں تو میں ہرگز اس کے لئے آمادہ نہیں ہوں۔ یہاں تک کہ خدا کا سچا دین لوگوں میں پھیل جائے یا کم از کم میں اس جدوجہد میں اپنی جان دے دوں‘‘۔
مدینہ منورہ کے والی ولید اور مروان حضرت امام حسینؓ سے یزید کی بیعت کا مطالبہ کر رہے تھے مگر آپؓ یہ جانتے تھے کہ یزید کی بیعت کا مطلب اسلام کے اصولِ خلافت سے انحراف کے مترادف ہوگا لہٰذا آپ نے دینِ حق کی سر بلندی کے لیے قوتِ ایمانی کو طاقت بنا کر دو ٹوک الفاظ میں بیعت کرنے سے انکار کردیا اور ظلم کے خلاف عَلم حق بلند کرنے کے لیے باطل قوتوں کو للکارا۔ انکار کی شمشیر حق نیام سے باہر نکالی، ظلم کے خلاف عملی جہاد کے لیے کربلا کے میدان میں جا پہنچے اور اپنے اہلِ بیت سمیت اکہتر جانثاروں کے ساتھ جامِ شہادت نوش کر کے تاریخِ انسانی کی سب سے بڑی قربانی کی لازوال داستاں رقم کی۔ اہلِ بیت کے مقدس خون نے ایک خوابیدہ ملت کو ایمانی حرارت اور بیداری عطا کی جس کو علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے اپنے اس شعر میں یوں خراجِ تحسین پیش کیا ؎
خونِ او تفسیر ایں اَسرار کرد
ملتِ خوابیدہ را بیدار کرد 
واقعہ کربلا کی یہ عظیم داستاں اور عظمتِ کردارِ امام حسینؓ کا یہ بیش قیمت وِرثہ صرف مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں‘ سارے جہانوں اور سب زمانوں کے لیے یکساں سرمایۂ حیات ہے۔ گزشتہ چودہ سو سالوں سے ظلم و بربریت کے خلاف حق و صداقت کی ہر اٹھنے والی آواز کے لیے یہ بے پناہ طاقت کا سبب بنتا چلا آیا ہے۔ آج بھی جموں وکشمیر کے مظلوم مسلمان حُسینیت کا عَلمِ حق بلند کرتے ہوئے مودی کی فاشسٹ سرکار کے سامنے ڈٹ چکے ہیں۔ ظالمانہ یزیدی حکومت کی اخلاق سوز روایات کی یاد تازہ کرتے ہوئے آج مودی سرکار نے کشمیریوں کو بنیادی سہولتوں، خوراک، مواصلاتی نظام اور علاج معالجے سے محروم کر رکھا ہے۔ ان کے تمام انسانی حقوق سلب کر کے آٹھ لاکھ بھارتی فوجیوں کو بے بس کشمیریوں پر درندوں کی طرح چھوڑ کر ان کی آوازِ حق کو دبانے کی مذموم کارروائی کی جا رہی ہے۔ مودی سرکار یہ سمجھتی ہے کہ ِان سفاکانہ ہتھکنڈوں سے وہ کشمیریوں کی اپنے حقِ خودارادیت کے لیے اٹھنے والی آواز کو دبا لے گی مگر یہ کبھی نہیں ہوگا۔
اسلامی تاریخ کے اِس سنہرے باب سے بے بہرہ مودی کو کیا معلوم کہ چودہ صدیاں قبل کربلا کے میدان میں پانی کے لیے ترستا چھ ماہ کا ننھا علی اصغرؓ مقبوضہ جموں و کشمیر کے ان ہزاروں شیر خوار بچوں کا رہنما ہے جو دودھ کو ترستے ہوئے ا پنے بے بس ماں باپ کی غم ناک آنکھوں کے سامنے جاں سے گزر جاتے ہیں۔ کربلا کے میدان میں موجود اہلِ بیت میں شامل وہ آٹھ عظیم مائیں جن میں علی اصغرؓ کی والدہ حضرت ربابؓ، عبداللہؓ بن حسن کی والدہ بنت شکیل جلیلہؓ اور عونؓ کی والدہ حضرت زینبؓ شامل ہیں، وہ بے مثال مائیں جن کی نظروں کے سامنے ان کے لختِ جگر لہو میں لت پت خیمے میں لائے جاتے تو وہ عزم و ہمت اور صبر و رضا کا پیکر بن کر اپنے معصوم شہیدوں کی پیشانی چوم لیتیں۔ یہ آٹھ مائیں اب لاکھوں کشمیری مائوں کا حوصلہ ہیں جن کے نوجوان بیٹے راہِ حق میں روزانہ کی بنیاد پر شہید کیے جا رہے ہیں، جنہیں بغیر کسی جرم کے ماورائے عدالت قتل کر دیا جاتا ہے۔ کلمۂ حق بلند کرنے کی پاداش میں سال ہا سال جیل میں رکھ کر انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور جن کی آنکھوں کا نور پیلٹ گنز سے بجھا دیا جاتا ہے۔ لیکن اس ظلم و بربریت کے باوجود بھارت سرکار کشمیریوں کی آوازِ حق کو دبانے میں بری طرح ناکام ہو رہی ہے کیونکہ مظلوم کشمیریوں کی غیبی امداد میں سیدنا حسینؓ کے بلند پایہ کردار اور حق و صداقت کی ابدی طاقت اور لازوال روشنی موجود ہے۔
انسانی تاریخ آج تک حضرت زینبؓ کا یزید کے سامنے بولا گیا یہ جملہ فراموش نہیں کر پائی ''اے یزید! اگرچہ حادثاتِ زمانہ نے ہمیں اس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے اور مجھے قیدی بنایا گیا ہے لیکن جان لو! میرے نزدیک تیری طاقت کچھ بھی نہیں‘‘۔ غمِ حسینؓ کی یہی نعمت سولہ سالہ فلسطینی لڑکی احد تمیمی کے لہجے میں حضرت زینبؓ کی للکار نمایاں کرتی ہے جو اسرائیلی فوجی کے منہ پر تھپڑ مارتے ہوئے یہ کہتی ہے ''تم کیا سمجھتے ہو تم طاقت کے بل بوتے پر یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنا لو گے؟‘‘ ظلم و بربریت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں غمِ حسینؓکی یہی نعمت ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے اور حق و صداقت کی طاقت بن کر باطل قوتوں کو شکستِ فاش دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ غمِ حسینؓ کی یہی بیش بہا نعمت قرآنِ کریم کی سورۃ العصر کی عملی تفسیر بن کر ہمیں ''وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘‘کادرس دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں