بلاشبہ حضرت محمد مصطفی، محبوبِ خدا، سرورِ کونین، رحمۃ للعالمینﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں، ختم نبوت کے تمام دلائل میں سے ایک بہت بڑی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کے ظہور سے متعلق گزشتہ انبیاء کرام نے اپنی اپنی امتوں کو بشارتیں دی ہیں کہ آخر ی زمانے میں ایک کامل نبی ملکِ عرب میں مبعوث ہونے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ کتاب بڑی بے چینی سے آپﷺ کی بعثت کے منتظر تھے اور اسی لیے بہت سے علم و فضل اور اخلاص سے سرشار اہلِ کتاب جیسے عبد اللہؓ بن سلام‘ نبی کریم ﷺ کی دعوتِ حق ملتے ہی دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۃ البقرہ میں واضح الفاظ میں بیان کیا ہے ''جن لوگوں کو ہم نے کتاب (یعنی تورات اور انجیل) دی وہ آپ کو خوب پہچانتے ہیں کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی تورات اور انجیل میں بشارت دی گئی اور اہلِ کتاب آپ کی صورت و شکل کو دیکھ کر آپ کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح یہ اپنے بیٹوں کی شکل و صورت کو دیکھ کر پہچانتے ہیں‘‘۔ سورۃ الاعراف میں ربِ کریم نے بڑی صراحت سے بیان کیا کہ میں وہی نبی ہوں جس کی خبر تورات اور انجیل میں دی گئی ہے۔
حاکمِ یمن سیف بن ذی یزن نے آپؐ کے دادا جنابِ عبدالمطلب کو آپﷺ کی پیدائش کے قریبی زمانہ میں خبر دی تھی کہ آپ کے خاندان میں نبی آخر الزماں پیدا ہونے والے ہیں۔ جب آپؐ کی عمر مبارک بارہ برس ہوئی اور اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ سفرِ شام کے لیے روانہ ہوئے‘ وہاں ایک نصرانی راہب بحیرا نے آپﷺ کو دیکھتے ہی جنابِ ابوطالب سے کہا تھا کہ اپنے بھتیجے کی خبرداری رکھنا کہ یہی نبی آخر الزماں ہوں گے کیونکہ میں نے کتبِ سماویہ میں جتنی علامات آخری نبی کے بارے میں پڑھی ہیں‘ وہ سب کی سب ان میں موجود ہیں۔ دوسری مرتبہ جب آپﷺ پچیس برس کی عمر میں ملکِ شام تشریف لے گئے تو وہاں نسطورا راہب نے آپﷺ کو بغور دیکھا اور قافلہ والوں کو بتایا کہ یہی ہیں وہ نبی آخر الزماں‘ہمارے صحائف میں جن سے متعلق جملہ علامات درج ہیں۔ خاتم الانبیاء کی تمام نشانیاں آپﷺ میں اعلانِ نبوت سے قبل ہی پائی گئیں۔ اسی طرح حضرت سلمان فارسیؓ ہجرت ِمدینہ کے وقت آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کے چہرۂ انور کو دیکھتے ہی پہچان گئے کہ یہی نبی آخر الزماں ہیں جن کی پیش گوئیاں میں سن چکا ہوں۔ بالکل اسی طرح حبشہ کا بادشاہ نجاشی انبیائے سابقین کی بشارتوں کو سامنے رکھتے ہوئے آپﷺ کو نبی آخر الزماں تسلیم کرتے ہوئے مشرف بہ اسلام ہوا۔ احمد ندیم قاسمی کا یہ نعتیہ شعر وجہ تخلیقِ کائنات، محسنِ انسانیت، امام الانبیائ، خاتم النبیین حضورِ اکرمﷺ کے ظہورِ پُرنور کو خوبصورت الفاظ میں بیان کرتا ہے؎
جس بھی فن کار کا شاہکار ہو تم
اُس نے صدیوں تمہیں سوچا ہوگا
حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک‘ ہر نبی،ہر مرسل نے نبی آخر الزماں کی دنیا میں تشریف آوری کی بشارت دی اور اسی ضمن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبۃ اللہ کی تعمیر کی عظیم خدمت بجا لانے کے بعد اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ہمراہ دعا کی کہ یا ربِ کریم! اپنے محبوب نبی آخر الزماں کو ہماری نسل میں ظاہر فرما اور یہ شرف ہمیں عنایت کر۔ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو شرفِ قبولیت بخشا اس دعا کو قرآن مجید میں سورۃ البقرہ میں ان الفاظ میں بیا ن کیا ''اے ہمارے رب! بھیج ان میں ایک رسول انہی میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرماوے اور بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے‘‘۔ نبی کریمﷺ کی ایک حدیثِ مبارکہ بھی موجود ہے کہ میں اپنے جدِ امجد ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں۔ (مسند احمد)
ہمارے پیارے نبیﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مشرق و مغرب، شمال و جنوب، گورے کالے، عرب و عجم، ترک و تاتار، امیر و غریب اور قیامت تک آنے والے ہر انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا اور قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر اس کی وضاحت فرما دی تاکہ بات مکمل واضح ہو جائے۔ سورۃ الاعراف کی آیت 58 اور سورہ سبا کی آیت 28 میں فرما دیا کہ رسولﷺ جمیع انسانیت کے لیے اللہ کے پیغمبر ہیں اور تمام انسانیت کے لیے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اسی طرح سورۃ الاحزاب کی آیت 40 میں صاف فرما دیا کہ ''محمدﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے‘‘۔ یعنی جس طرح وہ کسی مرد کے باپ نہیں بعینہٖ آپﷺ کے بعد کوئی نبی بھی نہیں ہو سکتا اور نبوت اور رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ سورۃ الانبیاء میں ارشادِ ربانی ہے ''اور اے نبی! ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر تمام جہان والوں کے لیے رحمت کے طور پر‘‘۔ لہٰذا جب قرآنِ کریم ہی آپؐ کی ہمہ گیری اور آخری رسالت و نبوت کا اظہار، دین کی تکمیل، نعمتوں کے اتمام، آپ کے رحمتِ جہاں ہونے کا اعلان کر دے اور آپؐ کو رہتی دنیا تک پوری انسانیت کے لیے رشد و ہدایت کا منبع کہہ رہا ہے تو پھر بھلا ختم ِ نبوت سے کس طور انحراف کیا جا سکتا ہے؟
قرآن کریم میں اللہ کے فیصلے اور اس کی رضا کے علم کا دوسرا بڑا ذریعہ ہمارے پاس احادیث مبارکہ ہیں جس میں ختمِ نبوت و رسالت کے بارے میں متعدد احادیث موجود ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ سابقہ انبیاء کرام علیھم السلام کو ہم آپﷺ ہی کی تصدیق کے سبب مانتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ آپﷺ نے واضح اور قطعی الفاظ میں بار بار اعلان فرمایا کہ آپﷺ ہی اللہ کے آخری نبی ہیں اور اب نبوت کا سلسلہ و دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے اور وحی کا امکان بھی ہمیشہ کے لیے موقوف کر دیا گیا ہے۔ ختمِ نبوت کے بعد اس طرح کی سب چیزیں ہمیشہ کے لیے ختم کر دی گئیں۔ ایک حدیث شریف میں اس ضمن میں ایک مثال سے وضاحت کی گئی ہے، فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے نبیوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے کوئی عمارت تعمیر کی اور اسے نہایت حسین و جمیل بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی، لوگ اس کے گرد پھرتے اور اس کی خوبی پر اظہار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں‘‘۔ صحیح بخاری میں ہے کہ نبیﷺ نے اپنے متعدد نام مذکور فرمائے جن میں ایک نام عاقب ہے‘ جس کا مطلب نبیﷺ نے یہ بتلایا کہ عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہے۔ ترمذی، مسند احمد اور مستدرک حاکم میں حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ رسالت اور نبوت ختم ہو چکی اور میرے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں ہوگا۔ نبی کریمﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر وضاحت سے فرمایا کہ میں نے تم پر اللہ کا دین مکمل کر دیا‘ لہٰذا یہ ابدی حقیقت طے کر دی گئی کہ اب اس کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا، نہ کوئی اللہ کی کتاب نازل ہوگی، نہ کوئی دین آئے گا، نہ کوئی شریعت، نہ کوئی وحی آئے گی اور نہ ہی کوئی اللہ کا پیغام آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی آخری الہامی کتاب قرآنِ مجید‘ جس صورت میں نازل ہوئی تھی‘ آج بھی بغیر کسی ترمیم و اضافے کے اسی صورت میں موجود ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گی کیونکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات کا احاطہ کر کے اُن سارے انسانوں اور زمانوں کو مخاطب کرتی ہے جو تاقیامت خلعتِ وجود سے آراستہ ہو کر دنیا میں آتے رہیں گے۔ ختمِ نبوت کا ثبوت انبیائے سابقین کی پیش گوئیوں سے لے کر قرآن و حدیث تک‘ بدرجہ اتم موجود ہے اور یہ ہمارے ایمان و اعتقاد کی عمارت کا بنیادی ستون ہے۔ معروف نعت گو شاعر مظفر وارثی کے یہ اشعار ختم ِ نبوت کے موضوع پر خوبصورت گلہائے عقیدت ہیں:
خود میرے نبیؐ نے بات یہ بتا دی، لا نبی بعدی
ہر زمانہ سُن لے یہ نوائے ہادیؐ، لا نبی بعدی
انؐ کے بعد ان کا مرتبہ کوئی بھی پائے گا نہ لوگو!
ظلی یا بروزی اب کوئی نبی آئے گا نہ لوگو!
آپؐ نے یہ کہہ کر مہر ہی لگا دی، لا نبی بعدی