گزشتہ ڈیڑھ سال سے پوری دنیا کورونا وبا کے خوفناک حصار میں ہے‘ چاروں طرف موت کے ڈیرے اور خوف کے بسیرے ہیں۔ سائنسی ترقی، معاشی استحکام اور میڈیکل سائنس میں حاصل کی گئی بے پناہ کامیابیوں کے تما م دعوے اک غیر مرئی جرثومے کے سامنے بے بس ثابت ہوئے ہیں۔ امریکا سمیت یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی کورونا کے مقابلے میں ریت کی دیوار ثابت ہوئے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد وشمار کے مطابق اب تک دنیا میں سولہ کروڑ چھپن لاکھ سے زائد افراد کورونا کا شکار ہوئے جن میں سے لگ بھگ چونتیس لاکھ چونتیس ہزار بدقسمت اس خونی وبا کے ہاتھوں لقمہ اجل بن گئے۔ آج کل اس کی تیسری لہر نے کہرام بپا کر رکھا ہے اور آئے روز نئے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ہر روز سینکڑوں بلکہ ہزاروں افراد اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ بیش قیمت انسانی جانوں کے زیاں کے علاوہ عالمی معیشت بھی اس سے بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ لاکھوں لوگ اپنا روزگار کھو چکے‘ کاروبار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ صنعتی ترقی کا پہیہ رک چکا ہے۔ نقل وحمل، سیرو سیاحت، عالمی تجارت اور ان سے جڑے ہزاروں کاروبار شدید متاثر ہوئے ہیں۔ اب دنیا میں غربت، افلاس، بیروزگاری اور مہنگائی تیزی سے بڑھنے لگی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے ذمہ داران پہلے ہی متنبہ کر چکے ہیں کہ کورونا کی وجہ سے عالمی معیشت میں پیدا ہونے والے بحران کے سبب غربت کی لکیر سے نیچے ایک ارب بیاسی کروڑ افراد کو رات کا کھانا میسر نہیں اور اس تعداد میں مزید اضافہ ہونے کے قوی خدشات موجود ہیں۔
وبا کے آغاز سے ہی اس کے بارے میں مختلف آراء اور متضاد نظریات وجود میں آئے۔ کسی نے اسے چین اور امریکا کے درمیان جاری سرد جنگ میں استعمال ہونے والے بائیو لوجیکل ہتھیار سے موسوم کیا تو کچھ لوگ اسے دنیا کی آبادی کو کنٹرول کرنے کی عالمی سازش قرار دینے لگے۔ بل گیٹس کے نام پر بہت بحث کی گئی اور اس ضمن میں اسے مرکزی کردار ٹھہرایا گیا۔ مذہبی طبقات کی جانب سے اسے خدائی آفت قرار دیا گیا جبکہ اس وبا کو انسان کی حرص و ہوس، مادہ پرستی، انسانی استحصال اور قدرتی وسائل کے اندھا دھند استعمال کے سبب ماحولیاتی تغیر کا شاخسانہ بھی سمجھا گیا۔ یہ بات درست ہے کہ 1990ء کی دہائی میں‘ سرد جنگ میں سوویت یونین کی شکست کے بعد‘ امریکا ہی دنیا کی واحد سپر پاور بن کے ابھرا اور کمیونزم کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ نظام ہی عالمی معیشت کا مرکزی نکتہ بن گیا مگر یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کس طرح جمہوریت کے نام پر تیسری دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی۔ من پسند افراد کو اقتدار میں لا کر وہاں کے وسائل پر قبضہ جمایا گیا اور انسانی حقوق کی بالا دستی کے لبادے میں انسانیت کی تذلیل کی گئی۔ جنگ وجدل کا بازار گرم کرکے لاکھوں لوگوں کو ناحق قتل کیا گیا۔ براعظم افریقہ کے وسائل کی لوٹ مار کیلئے وہاں کی منتخب حکومتوں کو گرایا گیا اور اپنی مرضی کے حکمران مسلط کرکے بدعنوان اور کرپٹ عناصر کی سرپرستی کی گئی۔ غربت اور پسماندگی کو فروغ دے کر عام آ دمی کی زندگی اجیرن بنائی گئی۔ مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کے نام پر خونریزی کی گئی، قتلِ عام ہوا اور عراق سے لے کر شام تک اور لیبیا سے لے کر مصر تک‘ مسلمانوں پر ظلم اور بربریت کے پہاڑ توڑے گئے۔ اکثر ممالک کی قیادت کو نشانِ عبرت بنا دیاگیا۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی سرپرستی کرکے کشمیریوں کو گزشتہ ساڑھے اکیس ماہ سے اپنے گھروں میں قید کر کے اسّی لاکھ آبادی پر مشتمل اس خطے کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا گیا ہے۔ یوں عالمی اداروں اور بین الاقوامی طاقت کے مراکز کی ناک کے نیچے ظلم وستم کی ایک شرمناک داستان رقم کی جا رہی ہے اور مودی سرکار ڈھٹائی کے ساتھ معصوم اور نہتے کشمیریوں پر درندگی کے نئے وار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور انسانی حقوق کے تمام ادارے خاموش تماشائی بن کر کشمیر جنت نظیر کو خون میں ڈوبتا دیکھ رہے ہیں۔ یہ انسانیت کی تذلیل اور انسانی حقوق کی پامالی کی بدترین مثال ہے مگر طاقت کے سب مراکز خاموش ہیں۔ یہی حال عالمی معیشت، تجارتی معاملات اور بین الاقوامی سطح پر لوٹ کھسوٹ پر مبنی عدم مساوات پر چلنے والے معاشی نظام کا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک عالمی استعمار اور معاشی استحصال کے جدید نمائندے ہیں اور ان کے ذریعے تیسری دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا جاتا ہے اور قرضوں کی آڑ میں ان پر سخت ترین شرائط عائد کر کے معاشی تباہی اور عوام کی بدحالی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اب یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مذکورہ دونوں عالمی ادارے دنیا میں اپنا سکہ رائج کرنے اور معاشی استعمار کو فروغ دینے کیلئے دن رات ایک کئے ہو ئے ہیں۔
چند دہائیاں قبل تک عالمی وسائل اور دولت کے اسی فیصد ذخائر پر بیس فیصد افراد کا قبضہ تھا مگر پھر مادہ پرستی، منافع خوری اور معاشی عدم مساوات کے طفیل امیر امیر تر ہوتا گیا اور غریب غربت کی لکیر سے بھی کافی نیچے پہنچ گیا لہٰذا اب محض ایک فیصد آبادی کے پاس دنیا کے اسّی فیصد وسا ئل اور ذرائع آمدن ہیں جبکہ باقی ننانوے فیصد محض 20 فیصد وسائل کے حصول کیلئے ہمہ وقت حالتِ جنگ میں ہیں۔ اس طرح خدا کی زمین پر خدا ہی کے پیدا کردہ وسائل پر ایک اقلیت قابض بن کر اپنے خونیں پنجے گاڑ چکی ہے اور بے بسی، بے کسی اور افلاس جیسے عفریت دنیا کے کروڑوں انسانوں کو بیماری، بے چارگی اور بیروز گاری کے نہ ٹوٹنے والے حصار میں جکڑے ہوئے ہیں۔عالمی سطح پر جمہوریت، سرمایہ دارانہ نظام اور انسانی حقوق کے علمبردار ہی دراصل دنیا میں امنِ عامہ کو تہ و بالا کرنے کے درپے ہیں۔ یہ خود انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیرنے والے اور انسانیت کی بدترین تذلیل کرنے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں مادی ترقی، صنعتی انقلاب، سائنسی جدت اور معاشی ترقی کے تمام دعووں کے باوجود عام انسان دو وقت کی روٹی کیلئے ترس گیا ہے اور آج بھی قابلِ علاج بیماریوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بن جانے پر مجبور ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں موجود معاشی ناہمواریاں، عدم انصاف، بڑھتی ہوئی غربت، مہنگائی اور بیروزگاری بھی اس عالمی منظر نامے سے مختلف نہیں ہے۔ یہاں پر بھی اشرافیہ نظام کو اپنے شکنجے میں پوری طرح جکڑ چکی ہے اور آبادی کی ایک قلیل تعداد وسائل اور دولت پر اپنا پورا تصرف رکھتی ہے۔ طاقتورکیلئے پیمانے اور ہیں جبکہ عام آدمی معمولی سے جرم کی پاداش میں تمام زندگی کال کوٹھری میں گزارنے پر مجبور ہے۔ غربت اور افلاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر آئے روز بدنصیب باپ اپنے بچوں کو کبھی کسی نہر میں پھینکتا نظر آتا ہے تو کبھی اپنے ہاتھوں اپنے جان سے پیاروں کو موت کی آغوش میں سُلا کر خود کشی کرتا ملتا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے ان اندوہناک واقعات میں تیزی دیکھنے کو ملی ہے اور کورونا کے باعث روزگار محدود ہونے کے باعث مزید دلخراش واقعات بھی سامنے آنے کا خدشہ ہے۔
میں یہ سطور لکھ رہا تھا تو اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ میرے محسن ومربی پروفیسر رحمت علی المعروف بابا جی نہایت دل گرفتہ اندازمیں مخاطب ہوئے ''اسد میاں! میں اس دفعہ عید نہیں منائی کیونکہ دنیا بھر میں کورونا موت بانٹ رہا ہے اور وطنِ عزیز میں بھی لگ بھگ بیس ہزار افراد عدم سدھار چکے ہیں، مزید پانچ ہزار زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں اور ہر روز تقریباً چار ہزار افراد اس موذی وبا کا شکار بن رہے ہیں۔ ہر طرف اداسی ہے، بے چینی ہے، خوف ہے۔ نفسیاتی دبائو بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف کشمیر میں مودی سرکار کی دہشت گردی تو ادھر فلسطین پر اسرائیل کی لشکر کشی، درندگی اور نہتے نمازیوں پر پے درپے خونیں وار، کابل میں معصوم بچوں کا قتلِ عام اور پاکستان میں غربت اور بیروزگاری سے تنگ آ کر بچوں سمیت خود کشی کے کربناک واقعات کی موجودگی میں کیسے کوئی خوشی منائی جا سکتی ہے؟ ظلم و بربریت، ناانصافی، عدم مساوات اور دہشت گردی دراصل ربِ کائنات کے غیظ وغضب کو للکارنے کے مترادف ہے اور یہ کورونا وبا مکافاتِ عمل کی ایک چھوٹی سی علامت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم سے خدا ناراض ہے شاید!‘‘۔ اُن کی آواز بھرا گئی اور فون خاموش ہو گیا۔