پاکستان کا مطلب کیا؟

تاریخ شاہد ہے کہ برِ صغیر پاک و ہند پر مسلمانوں نے محمد بن قاسم سے بہادر شاہ ظفر تک‘ لگ بھگ ایک ہزار برس بلاشرکتِ غیرے حکومت کی ہے۔ اس دوران سلاطینِ دہلی کا راج رہا تو خاندانِ غلاماں نے بھی اس خطے پر حکمرانی کی۔ پھر مغلیہ خاندان کا طویل عہدِ اقتدار شروع ہوا اور بامِ عروج پر پہنچنے کے بعد بالآخر زوال پذیر ہونا شروع ہو گیا۔ اسی دوران برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کاروبار اور تجارت کے لبادے میں یہاں آئی اور آہستہ آہستہ مقامی وسائل اور ذرائع پر اپنا تصرف بڑھانا شروع کر دیا اور پھر بات یہاں تک پہنچ گئی کہ اس نے یہاں کے تخت و تاج پر قبضہ جما لیا۔ ہندو بنیے نے مسلمانوں سے آزادی پا کر نئے آقائوں کو خوش آمدید کہا اور اُن کے عہد اقتدار کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنے لگا مگر مسلمانوں نے غلامی کی زنجیریں دل سے قبول نہ کیں اور 1857ء میں سیاسی، معاشی اور تعلیمی پسماندگی کے باوجود انگریزوں کے غاصبانہ قبضے کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہوئے اپنی طاقت کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ اس مہم جوئی میں انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور انگریز حکمرانوں نے اس بغاوت کو کچل ڈالا مگر انہیں اس حقیقت کا شدت سے ادراک ہو گیا کہ مقامی باشندوں کو زیادہ دیر تک بزورِ شمشیر غلام بنائے رکھنا محال ہے۔ اس شکست کے اسباب اور محرکات کا بغور جائزہ لینے کے بعد سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو تحریکِ علی گڑھ کے ذریعے تعلیم کے شعبہ میں ترقی کرنے اور ان میں سیاسی بلوغت کو پروان چڑھانے کیلئے ایک مربوط اور منظم پروگرام کا آغاز کیا جس کا مقصد مسلمانوں کو سیاسی، معاشی اور تعلیمی شعبوں میں مضبوط اور مخالفین کی شاطرانہ چالوں کو سمجھنے کے قابل بنانا تھا۔
انیسویں صدی کے آخر میں تاجِ برطانیہ نے برصغیر پاک و ہند کے مقامی لوگوں کو اپنے اقتدار میں آہستہ آہستہ شامل کرنا شروع کیا اور قانون ساز اداروں سے سرکاری ملازمتوں تک آبادی کے تناسب سے حقِ نمائندگی دینے کے عمل کا آغاز ہوا۔ ہندوئوں کو مسلمانوں کے مقابلے میں آبادی میں واضح برتری حاصل تھی لہٰذا انہوں نے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھایا اور انگریز حکمرانوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہوئے ان کے اقتدار میں حصہ دار بننے لگے۔ اس دوران مفکرِ پاکستان شاعرِ مشرق سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے مسلمانوں میں سیاسی بیداری کیلئے اپنی فکر انگیز شاعری کا استعمال کیا اور ان میں احساسِ خودداری، تابناک ماضی سے آشنائی اور آنے والے روشن مستقبل سے آگاہی کیلئے اپنے اشعار کو ہتھیار بنایا اور 1930ء میں الٰہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شمال مغربی علاقوں پر مشتمل مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر اک الگ مملکت کا تصور پیش کیا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح شروع میں متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی حقوق کے تحفظ کے متلاشی رہے مگر جلد ہی انہیں بنیے کی ہٹ دھرمی، تنگ نظری اور متعصبانہ نظریات کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔ انہوں نے یہ بھانپ لیا کہ تاجِ برطانیہ سے آزادی کی صورت میں ہندو اپنی عددی اکثریت کا خوب فائدہ اٹھائیں گے اور مسلمانوں کو استحصال اور ظلم کا نشانہ بنائیں گے جس کا عملی مظاہرہ 1937ء میں بننے والی کانگریسی وزارتوں میں انہیں بخوبی دیکھنے کو مل گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس حکومت کے خاتمے پر قائداعظم نے یومِ نجات منانے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد تحریکِ پاکستان کی باقاعدہ منظم انداز میں بنیاد ڈال کر مسلمانوں کیلئے ایک الگ ملک بنانے کی شبانہ روزکاوشیںشروع کر دیں۔ 1940ء میں قراردادِ لاہور کے ذریعے اس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا اور بالآخر 14 اگست 1947کو قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں دنیا کے نقشے پر پاکستان کی شکل میں ایک الگ ملک ظاہر ہوا۔
27 رمضان المبارک کے بابرکت دن قائم ہونے والا یہ ملک کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ یہ دراصل ہمارے لیے ربِ کریم کی طرف سے ایک انمول تحفہ ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران اور قیامِ پاکستان کے بعد‘ متعدد مواقع پر بانیٔ پاکستان کی تقاریر اور خطبات اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کا اولین مقصد محض ایک خطہ ارضی کا حصول نہیں تھا بلکہ ایک ایسا ملک قائم کرنا تھا جس میں سنہری اسلامی اصولوں اور اقدارکی روشنی میں مسلمانوں کو اپنی زندگیاں ڈھالنے کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس ضمن میں قائداعظم کے فرمودات بالکل واضح ہیں۔ 13 جنوری 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں اپنے خطاب میں انہوں نے فرمایا ''اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے، ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘۔ اسی طرح 26 مارچ 1948ء کو چٹاگانگ کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا ''ہم نے پاکستان کا مطالبہ اس لیے کیا، اس کی خاطر اس لیے جدو جہد کی اور اسے اس لیے حاصل کیا کہ ہم اپنی روایات کے مطابق اپنے معاملات کو حل کرنے میں جسمانی اور روحانی طور پر قطعاً آزاد ہوں۔ اخوت، مساوات اور رواداری‘ یہ ہمارے مذہب، تہذیب اور تمدن کے بنیادی نکات ہیں‘‘۔ قائداعظم نے مزید کہا ''اسلامی اقدار کو اپنانا انسانی ترقی کی معراج پر پہنچنے کیلئے ناگزیر ہے، یہ اقدار دراصل ایک مثالی معاشرے کی تخلیق کی ذمہ دار ہیں‘‘۔
مگر بدقسمتی سے پاکستان کے قیام کے محض ایک سال بعد ہی بانیٔ پاکستان ہم سے بچھڑ گئے اور اس کے ساتھ ہی ملک میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی۔ پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا۔ قراردادِ مقاصد کو عملی طور پر پسِ پشت ڈال دیا گیااور نو سال تک ہمیں پہلے آئین کیلئے انتظار کرنا پڑا۔ ہماری اشرافیہ ایوانِ اقتدار پر قبضے میں مصروفِ عمل رہی جس کے نتیجے میں یکے بعد دیگرے کئی وزرائے اعظم محلاتی سازشوں کا شکار ہوئے اور ارضِ پاک کو طاقت، دولت، اقتدار اور لوٹ کھسوٹ کی اندھیر نگری میں جھونک دیا گیا۔ ہماری چوہتر سالہ قومی تاریخ میں ہمارے طالع آزمائوں، سیاست دانوں، وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور عاقبت نا اندیش حکمرانوں نے وطنِ عزیز کو عظیم تر بنانے کے نعرے لگا کر دراصل اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ قائداعظم کے پاکستان کو اسلام کے سنہری اصولوں اور درخشندہ روایات کی روشنی میں ڈھالنے کے بجائے یہاں اقربا پروری، رشوت ستانی، منافع خوری، گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی، قانون شکنی، موقع پرستی اور لوٹ کھسوٹ پر مبنی بدترین نظام رائج کیا گیا۔ محض چند خاندان اور گنے چنے افراد کروڑوں پاکستانیوں کی قسمت کے فیصلے کرنے پر مامور نظر آئے۔ غریب، نادار، بے کس اور پسماندہ عوام ہر الیکشن کے موقع پر نئی امیدوں، نئے نعروں، نئے وعدوں اور مکر و فریب پر مشتمل نئی چالوں سے دھوکا کھاتے رہے مگر اپنے ووٹ کی طاقت کے ذریعے تبدیلی لانے کا خواب شرمندہِ تعبیر نہ کر سکے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہمارا ملک قرضوں کے بوجھ تلے ڈوبا ہوا ہے، زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان گندم تک درآمد کرنے پر مجبور ہے، پانی کی فراہمی کے باوجود لاکھوں ایکڑ رقبہ ناقابلِ کاشت ہے۔ ایک طرف توانائی کا بحران ہے تو دوسری طرف مہنگائی کے طوفان نے غریب کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے نچلے طبقے کو معاشی تحفظ فراہم کرنے کیلئے کئی ایک عملی اقدامات کیے ہیں جن میں پناگاہوں، لنگرخانوں، احساس پروگرام، بلاسود قرضوں کی فراہمی، کامیاب نوجوان پروگرام، کامیاب کسان پروگرام اور تعمیراتی شعبے میں مراعات اور ٹیکس سے استثنا جیسے اقدامات شامل ہیں۔ ہمارا پچھترواں یومِ آزادی اس امر کا متقاضی ہے کہ پاکستان کو اشرافیہ کے چنگل سے آزاد کروانے کیلئے کامیاب پاکستان پروگرام شروع کیا جائے جو اسے حقیقی معنوں میں خوددار، خودمختاراور خوشحال ملک بنائے جس کیلئے ہمارے اسلاف نے بے پناہ قربانیاں دیتھیں۔ ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست‘ جہاں پناہ گاہ اور لنگر خانے میں جانے والے کوئی نہ ہو، جہاں حیات جرم نہ ہو اور زندگی وبال نہ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں