زندگی کی حقیقت پر غور کریں تو یہ خوشی اور غم کا حسین امتزاج نظر آتی ہے۔ کبھی چھائوں‘ کبھی نرمل اورکبھی کڑکتی دھوپ! زندگی کے اتنے روپ ہیں کہ ضابطۂ تحریر میں لانا شاید ممکن نہ ہو۔ مصور کی آنکھ سے دیکھیں تو زندگی کے کینوس پر رنگوں کا بکھرنا، شاعر کے لیے اس کی شاعری! طالب علم کے لیے زندگی کا مقصد و مفہوم مختلف ہو گا۔ کسی زاہد اور صوفی کی زندگی سے متعلق نظریہ مختلف ہوگا۔ میرے خیال میں زندگی کا مقصد کسی بڑے مقصد کے حصول کے لیے راستے کا تعین کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ زندگی ہماری ہے تو مقصد ِ زندگی بھی ہم نے ہی متعین کرنا ہے۔ مقصدِ حیات کیا ہے؟ اس کی بنیاد کن عوامل پر رکھی جاتی ہے؟ کامیابی کسے کہتے ہیں؟ اس کا راستہ کہاں سے گزرتا ہے؟ مصائب اور مشکلات کا تدارک کیسے کرنا ہے؟ مستقل مزاج شخص کس طرح حالات و واقعات کا سامنا کرنے کیلئے ہمت برقرار رکھتا ہے؟ اس کو کون کون سے عوامل قوت اور تحریک دیتے ہیں؟ انسان کو اللہ تعالیٰ نے علم کی بنیاد پر ہی تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی ہے۔ سیاروں، ستاروں، زمین و آسمان، سمندر کی گہرائیوں اور خلا کی وسعتوں کی تسخیر کا حکم انسان کو ہی ملا۔ تمام مخلوقات کو اس کی سہولت کے لیے بنایا گیا کیونکہ اس عالمِ رنگ و بو میں انسان کا وجود ہی محور ہے مگر یہاں یہ بات اہم ہے کہ زندگی سانسوں کی ڈور کا نام نہیں کیونکہ زندہ رہنا اور زندہ ہونے میں بہت فرق ہے۔ زندگی کا مقصد انسانیت کی خدمت ہے اور دوسروں کے سکون اور آرام کا خیال رکھنا ہے تا کہ زندگی اگر ختم ہو جائے‘ اس کا نشان تک مٹ جائے تب بھی نام سلامت رہے۔ انسان کی مثال اس درخت کی مانند ہے جو سایہ بھی مہیا کرتا ہے اور پھل پھول بھی۔ خود جھلستا ہے مگر اس کے سائے میں چرند، پرند اور مسافر اپنی تھکن اتارتے اور سستاتے ہیں۔ وہ خود پتھر کھاتا ہے مگر پھل اور سایے سے محروم نہیں کرتا ہے، اپنی سرشت تبدیل نہیں کر سکتا۔
مقصدِ حیات کا تعین کرتے وقت چند اہم باتیں مدِ نظر رکھنا ضروری ہیں۔ ہر ایک شخص کی سوچ کا اپنا مزاج اور زاویہ ہوتا ہے۔ کسی نے مذہبی، کسی نے اسے سماجی و سیاسی اور کسی نے ثقافتی پہلو کے ساتھ جوڑا ہوگا۔ ہم سب اپنے سے وابستہ لوگوں کی توقعات اور ضروریات کو اپنے مقصد کا تعین کرتے وقت مدِ نظر رکھتے ہیں۔ مقاصد کی ترجیحات کیلئے تین بنیادی چیزوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ جو بھی مقصد حیات ہو وہ کوئی وقتی ضرورت نہ ہو کیونکہ اگر ضرورتوں کو مقصد بنا لیا جائے تو ضرورت پوری ہوجانے کے بعد کیا کریں گے؟ دوسری چیز ہے وقت کی حدود۔ کسی خاص کام کی انجام دہی کے لیے وقت مقرر کیا جا سکتا ہے مگر زندگی بھر کیلئے نہیں۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ مقصد ِحیات ایسا ہو کہ آپ کے قریبی عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ ساتھ دیگر لوگ بھی خوشی اور سکون محسوس کر سکیں۔آپ دنیا میں رہیں یا چلے جائیں‘ وقت کی ریت پر اپنے قدموں کے نشان چھوڑ کر جائیں۔ دراصل زندگی کا اصل مقصد ایک بامقصد ڈگر پر چلنا ہے۔ کچھ لوگوں کے مقاصد مابعد الطبیعاتی، کچھ کے جسمانی ہوتے ہیں‘ کچھ جذباتی اور کچھ دماغ سے کام لینے کی سطح پر ہوتے ہیں۔ جسمانی ضروریات کو مقدم رکھنے والے لوگ کھانے، پینے، پہننے، نفسانی خواہشات کی تکمیل، گھر، گاڑی اور روپے پیسے کو جائز اور ناجائز ذرائع سے حاصل کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں مگر یہ سب حاصل ہوجانے کے بعد کیا مقصد رہ جاتا ہے؟ دل کی تسکین کو فوقیت دینے والے فطرت سے پیار، ثقافت، آرٹ، سیاحت اور فنونِ لطیفہ سے وابستگی، جانوروں سے لگائو، شاعری اور موسیقی سے لطف اندوز ہوتے نظر آئیں گے۔ ایسے افراد روپیہ پیسہ اکٹھا کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔وہ زندگی سے خوبصورتی کشید کرتے ہیں اور حساس دل رکھتے ہیں۔ دماغی صلاحیتوں کے حامل افراد فکر و استدلال اور علم و آگہی کی منازل کے مسافر ہوتے ہیں۔ وہ ہر لمحہ کچھ نیا سوچتے ہیں، نئے خیالات اور منفرد سوچ کی وجہ سے قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود وقت کا دھارا بدل دیتے ہیں۔ دنیا کی ترقی اور انسانی خوشحالی میں ان افراد کا بھرپور کردار رہا ہے اور انہی اعلیٰ سوچ کے حامل باصلاحیت افراد نے نہ صرف ذاتی سطح پر کمال ترقی کی بلکہ پوری بنی نوع انسان کیلئے نئی راہیں متعین کیں اور اجتماعی مفاد کو اپنی ذات پر مقدم رکھا۔دراصل اعلیٰ و ارفع مقاصد کے حامل یہی لوگ کسی معاشرے کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں۔ تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال یہ لوگ ملک و قوم کی بہتری اور اصلاح کا بیڑہ اٹھاتے ہیں۔ تھنک ٹینکس، سائنسدان اور فلسفہ و منطق کے اسرار و رموز کی گھتیاں سلجھانے کواپنا مقصدِ حیات بنا لیتے ہیں۔ ایک درجہ روحانیت کے قائل افراد کا ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت کرشماتی اور بے لوث ہوتی ہے۔ صوفیہ، مبلغین، مصلحین اور صالحین ہر دم کائنات کی الجھی گھتیوں کو سلجھانے میں مصروف رہتے ہیں۔ لوگ ان کے پاس کھنچے چلے آتے ہیں، ان میں اچھے برے کی تفریق نہیں ہوتی کیونکہ وہ محض انسان سے محبت کرتے ہیں اور نفرت کے جذبات سے نا آشنا ہوتے ہیں۔
ایسا بھی نہیں کہ یہ تقسیم مستقل ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں آتا۔ مختلف مقاصد کے لوگ کسی حد تک ہر درجے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ انسانی دماغ حکم صادر کرتا ہے اور جسم اس پر عمل کرتا ہے جبکہ صلاحیتیں حق تعالیٰ کی بخشش ہیں۔ صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور ان کا بہترین استعمال ہی مقصودِ زندگی ہوتا ہے۔ اس میں محنت، مستقبل مزاجی، جبلتوں کی قربانی اور ترجیحات کی درجہ بندی وہ بنیادی عناصر ہیں جو زندگی کو بامعنی اور خود کو ایک اثاثہ ثابت کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ جہاں تک روح کا تعلق ہے، وہ امرِ الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دنیا میں خاص وقت کیلئے، مخصوص زمانے میں، منفرد اوصاف اور شکل و صورت کے ساتھ پیدا فرمایا۔ ہر انسان کا اپنا مقام‘ اپنی جگہ ہے۔ اس کی موت کے بعد یہ خلا رہتا ہے، کوئی اور اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہ قدرت کا قانون ہے۔ دنیاوی زندگی کی بنیاد پر ہی اخروی زندگی کا دار و مدار ہے۔ انبیاء کرام، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، صالحین، آئمہ کرام، صوفیہ اور مبلغین نے مقاصد ِ زندگی کو رضائے الٰہی کے تابع کر لیا اور اللہ کی خوشنودی کو حاصلِ زندگی بتایا۔ اسی راستے پر چل کر انسانیت کی حقیقی فلاح ممکن ہے۔ وقت کا سیلِ رواں ہر لمحہ جاری و ساری رہتا ہے اور انسان مسلسل حالتِ سفر میں ہے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہماری پلاننگ میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ہم سب کو اپنی خوبصورت شکل پسند ہے، کوئی جھریوں بھرا چہرہ نہیں چاہتا۔ ہم سب کو اپنی آنکھیں اچھی لگتی ہیں‘ کوئی عینک نہیں چاہتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ وقت ٹھہر جائے‘ ہماری ہمت، طاقت اور جاہ و جلال ہمیشہ برقرار رہیں مگر ایسا ممکن نہیں۔ یہ ہمارے بس میں نہیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کل کی ہی بات ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے مگر ہم مرنا نہیں چاہتے۔
زندگی کے رنگ اتنے دلکش ہیں کہ ہم ان میں کھو گئے ہیں۔ زندگی خالقِ دو جہاں کا حسین تحفہ ہے، کرم ہے، عطا ہے، نعمت ہے اور اس زندگی کے بعد ایک اور خوبصورت زندگی جو اس سے ہزاروں درجہ اعلیٰ نعمتوں اور آسائشوں سے مزین ہے‘ ہماری منتظر ہے۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ زادِ راہ میں ہمارے پاس اعمال کی جو جمع پونجی ہے‘ کیا ان کی بنیاد اللہ تعالیٰ اور نبی کریمﷺ کی تعلیمات کے تابع ہے یا ہماری زندگی کا مقصد اس فانی دنیا کی آسائشوں اور سہولتوں کے حصول تک محدود ہے۔ سادہ زندگی بسر کرنے میں خوشی، سکون اور اطمینان پوشیدہ ہے۔ ہم اپنی ضرورتوں کو محدود کرنے اور ذاتی عزائم اور خواہشات پر قابو پا لیں تو وقت، حالات، مسائل و معاملات کو بہتر طور پر سمجھا اور سلجھایا جا سکتا ہے۔ قدرتی آفات، زلزلے، طوفان، حادثات، بیماریاں، موت، وبائی امراض اور موسمیاتی تبدیلیاں انسانی زندگی کے لیے ہمیشہ سے چیلنج رہے ہیں۔ ہر دور میں انسان ان سے نبرد آزما رہا ہے۔ زندگی اس وقت مشکل ہو جاتی ہے جب نفرت، حسد، تنگ نظری، جبر اور غم کے بادل چھا جاتے ہیں اور انسان اپنے ہی جذبات کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے‘ ایسے میں امید، آرزو، محبت، اخلاص، تحمل و برداشت، محنت اور لگن کے زریں اوصاف ہی کام آتے ہیں۔ انہی سنہری اصولوں کو عملی طور پر رائج کر کے زندگی کے حسن کو دوبالا کیا جا سکتا ہے کیونکہ انسان کا کردار ہی تو اس کی زندگی کا حاصل ہے۔