انسان اللہ تعالیٰ کی بہترین تخلیق ہے جسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا کی گئی ہے۔ سوچ سمجھ کر عمل کرنے پر انسان سیکھ جاتا ہے کہ اسے کس طرح اپنے رویوں کا اظہار کرنا ہے۔ ہماری پیدائش کچھ جبلتوں کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ جبلتیں قدرت کی عطا کردہ نعمتیں ہیں۔ کچھ طے شدہ نظم و ضبط، ازلی سچائیاں اور کائناتی حقیقتیں ہیں جن سے مفر ممکن نہیں مگر کچھ چیزوں کا اختیار انسان کو حاصل ہے۔ ایک پُر سکون زندگی گزارناہر انسان کا بنیادی حق ہے اور کامیاب زندگی گزارنے کیلئے آدابِ زندگی کے رموز و اوقاف اور نشیب و فراز سے پوری واقفیت اہمیت کی حامل ہے۔ فرد معاشرے کی اکائی ہے اور اس کا جزو لازم بھی۔ حقوق و فرائض کی انجام دہی میں فرد کی حیثیت بڑی وضاحت کے ساتھ متعین ہے۔ ہم کسی علاقے یا ماحول میں رہتے ہوں، ہم پر چند باتوں کو مدِ نظر رکھ کر اپنے روز مرہ کے معمولاتِ زندگی کو نبھانے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہر فرد آزاد پیدا ہوتا ہے اور آزاد زندگی گزارنے کا یہ پیدائشی حق کوئی بھی چھین نہیں سکتا۔ مگر مادر پدر آزادی کی اجازت نہ اخلاقی اقدار، روایات اور نہ ہی مذہبی و سماجی نظام دینے کو تیار ہوتا ہے۔ زندگی کو سنوارنے کیلئے آداب ِ زندگی سے واقفیت ہونا، مخلوقِ خدا کے ساتھ عفو و درگزر، احسان، اُنس، رواداری اور حسنِ سلوک کا رشتہ استوار کرنا ہی معاشرتی اقدار کی پاسداری کی کوشش ہوگی۔ کہا جاتا ہے کہ ادب پہلا قرینہ ہے جس کے ذریعے انسان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ اجتماعی معاشرتی زندگی کی اصلاح کی ضمانت فراہم ہو جاتی ہے۔ جو معاشرہ اخلاقیات اور مذہبی و سماجی اقدار کی صورت میں زندگی کے فلسفے کو بیان کرتا ہے‘ اس کی روشنی میں زندگی کے تمام شعبوں کی صورت گری کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے‘ اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ ہمارے مجموعی رویے معاشرتی اقدار کے عکاس ہوں۔ وہی معاشرہ باہمی اتفاق اور یگانگت سے ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔ معاشرے کی بنیاد باہمی رواداری، برداشت اور تحمل کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ ادب کا سب سے اعلیٰ درجہ اطاعت، خلوص، فرمانبرداری اور اپنی ذات کی نفی کرنا ہے۔ کسی کو دکھ نہ پہنچانا، تکبر اور غرور سے اجتناب کرنا، عاجزی و انکساری کی روش پر عمل پیرا ہونا۔ جب انسان کے ہر خیال و فکر اور عمل کی بنیاد اطاعتِ الٰہی ہو تو انسان خیر کی مستحکم حالت پر ڈٹ جاتا ہے۔ اس میں حقوق و فرائض‘ چاہے وہ اللہ اور بندے کے مابین ہوں یا بندوں کے بندوں پر‘ کا ہر حال میں خیال رکھنا۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ادب یہ ہے کہ ہر کام، ہر فعل میں بنیادی اہمیت اللہ کی رضا کی ہے۔ خلوت ہو یا جلوت‘ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر احکامِ الٰہی کی بجا آوری لانا۔
واقعہ معراج کے حوالے سے سورۃ النجم میں ارشادِ ربانی ہے ''نہ نگاہ بھٹکی نہ ادھر ادھر اپنی جگہ سے ہٹی‘‘۔ یہ اللہ تعالیٰ کے ادب کی عملی مثال ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ سے اگلی منزل پر بھی بندگی کا دامن نہ چھوٹا۔ بندگی اور تسلیم و رضا کا تقاضا یہ ہے کہ اطاعت ِ الٰہی بلا چون و چرا کی جائے۔ سید الانبیاء نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کے ادب کا یہ عالم ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے آپﷺ پر درود اور سلامتی بھیجتے ہیں۔ آپﷺ جب مجلس میں جلوہ فرما ہوتے تو صحابہ کرام اونچی آواز میں بات نہ کرتے۔ آپﷺ کی مجلس میں نفوس یوں بیٹھتے گویا سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ ہماری اجتماعی زندگی کا دارومدار کچھ اصولوں پر رکھا گیا ہے۔ اللہ اور مخلوق کے ساتھ ساتھ ماں باپ، اساتذہ، قرابت داروں بزرگوں، بچوں اور خواتین کے ادب و احترام کی بھی اہمیت ہے۔ ادب کی جزئیات اور اجتماعی زندگی کے نظام کو متوازن رکھنے اور اس پر قائم رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ اور رسول کریمﷺ نے حکم فرمایا: سائل کو نہ جھڑکو، پھلدار درختوں کو نہ کاٹو، جنگوں میں بزرگوں، بچوں اور خواتین کو قتل نہ کرو، جانوروں پر رحم کرو اور کھیتی کو برباد نہ کرو۔
بہترین اخلاق، اطاعت، احترام، تسلیم و رضا، نرم خوئی‘ یہ سب ادب کی علامتیں ہیں۔ آداب و اطوار انسانی تعلیمات میں نمایاں اہمیت کے حامل ہونے کی وجہ سے کسی بھی معاشرے کے احساسات کے ترجمان ہوتے ہیں۔ خوبصورت رویے اس وقت سود مند ہوتے ہیں جب مجموعی طور پر کوئی معاشرہ یا ملک ان اقدار پر عمل کرنے کی عادت اور فطرت اپنا لیتاہے۔ رویوں میں نرمی، خوش اخلاقی، مہذب طرزِ تکلم، آدابِ زندگی کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ دل کی نرمی اور لہجے کی شیرینی سے گفتگو میں چاشنی پیدا ہوتی ہے اور ہر بات دلوں میں گھر کرنے کی صلاحیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس غصہ، نفرت اور طنز و تشنیع کے تیر ہمیشہ دلوں کو زخمی کرتے ہیں اور نفرت اور حقارت کے رویے متوقع مثبت مقاصد کا حصول بھی دشوار کر دیتے ہیں۔ دلوں کے فاصلے اور بداعتمادی کی فضا میں خود اعتمادی اور بھروسہ جیسی اعلیٰ اقدار اور اوصاف پر یقین بھی متزلزل ہو جاتا ہے۔
یہاں پر سوال یہ ہے کہ بچوں اور طلبہ میں ادب و احترام اور مہذب رویے سکھانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ کیا سکول پر ہر طرح کی ذمہ داری ڈالی جا سکتی ہے کہ وہ تہذیب و تمدن اور اخلاقی اقدار و آداب کو اجاگر کریں۔ سکول کے مقررہ اوقات میں ہی تعلیم ہو سکتی ہے یا گھر، والدین اور خاندان کی بھی کوئی اہمیت ہے؟ نفسیات کے ماہر ڈاکٹر واٹسن کے مطابق ماحول ہی سب سے زیادہ کردار ادا کرتا ہے۔ ڈرل اور پریکٹس عادات و اطوار کو پسندیدہ پیرائے میں ڈھالنے میں مدد کرتی ہیں۔ والدین اور اساتذہ مل کر بچوں کو اچھے‘ برے آداب اور رویوں میں فرق کرنا سکھا سکتے ہیں تا کہ وہ خاندان، ہمسایوں، دوستوں اور اساتذہ سے ادب سے پیش آئیں۔ چاہے وہ سامنے ہوں یا پیچھے‘ ان کے لیے اچھے الفاظ کا استعمال کریں۔ اچھے آداب زندگی کیلئے ازحد ضروری ہیں۔ ان کے ذریعے ہی ہم دوسروں کا دل جیت سکتے ہیں۔ منفرد سوچ اور نظریات کے ساتھ ہی ہم انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اچھائی اور نیکی کی ترغیب دیتے ہوئے اپنی شخصیت کی تعمیر کر سکتے ہیں۔
آج کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم دستیاب وسائل اور میسر ذرائع پر قناعت کی دولت سے محروم ہیں۔ ہم مسابقت کی دوڑ میں سرپٹ بھاگتے ہوئے یہ بھول گئے ہیں کہ ہم زندگی کی بنیادی ضروریات اور سہولتوں سے محروم انسانوں کی امید بن سکتے ہیں۔ خوراک کا ادب اور احترام کرنا بھی ضروری ہے۔ غذائی اشیا کے استعمال میں لاپروائی اور ضیاع کی کوئی گنجائش نہیں۔ رزق کی قدر اور شکر بھی آدابِ معاشرت کا لازمی جزو ہے۔ والدین بچوں میں میانہ روی کی عادت کو اپنانے پر توجہ مبذول کریں۔ کھانے کے آداب کے ساتھ ہی سادہ اور حلال و طیب غذا پاکیزہ اطوار و اوصاف کا ذریعہ بنتی ہے۔ شیخ سعدیؒ ایک حکایت میں بیان فرماتے ہیں کہ ایک غریب شخص کے بچے کے دانت نکلنا شروع ہوئے تو وہ پریشان ہو گیا۔ سوچنے لگا اب اس کے کھانے کا کیا ہوگا؟ یہ تومجھ سے روٹی مانگے گا جبکہ ہم تو اپنا پیٹ مشکل سے پال رہے ہیں۔ اپنی بیوی سے خدشے کا تذکرہ کیا۔ وہ نہایت پر اعتماد لہجے میں بولی: تم اس کے کھانے کی فکر کیوں کرتے ہو؟ جس نے دانت عطا کیے ہیں وہ یقینا اس کی خوراک کا بھی بندوبست کرے گا۔ کیا تم اپنے بچے کو بھوک کے خوف سے مار دو گے؟ کیا اللہ پر بھروسہ نہیں؟ وہ غلام کے رزق کا انتظام کرتا ہے‘‘۔ اصل مسئلہ دل کو ہوس سے پاک کرنے کا ہے۔ جب انسان کے دل میں پاکیزگی ہوتی ہے تو اس کے نزدیک مٹی اور سونا برابر ہو جاتے ہیں۔ اگر انسان کا دل وسوسوں سے بھرا ہو تو وہ رحمتِ خدا سے مایوس ہو جاتا ہے۔ ہمیں اپنی نسلوں کو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے اور آدابِ بندگی کی تعلیم دینی ہے کہ اللہ تعالیٰ رزق، اولاد، نیکی اور نعمتیں عطا کرنے والا ہے۔ ہمیں صرف شکر بجا لانا ہے۔ محمد اسماعیل الکرخی نے اپنے ان اشعار میں ان راستوں پر چلنے کی تلقین کی جہاں ہر انسان با عمل مومن بن کر نشانِ منزل کو پا سکے۔
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
ہر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے
پتھر ہی ٹوٹ جائے وہ شیشہ تلاش کر