کچھ چیزیں بن مانگے اور بغیر کسی تگ و دو کے حاصل ہو جاتی ہیں جیسے ماں کی دُعا۔ مگر بیشتر دُعاؤں کی حصول کے لیے مستحق بننا پڑتا ہے اور اِن بیش بہا خزانوں کو پانے کے لیے اپنے اردگرد موجود لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا پڑتی ہیں۔ بالخصوص غریب و نادار، بے بس و لاچار لوگوں کے پاس دعا کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح فقیروں اور راہگیروں کی صداؤں میں بھی دعاؤں کا رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ میری خوش بختی ہے کہ مجھے شروع سے دعا کی دولت سمیٹنے کا شوق رہا ہے۔ سکول کے زمانے ہی سے میں اپنے ہم جماعت کمزور طلبہ کی مالی امداد و تعلیمی معاونت کو اپنے لیے سعادت سمجھتا تھا اور دعاؤں کا ذریعہ بھی۔ چونکہ والد گرامی پروفیسر محمد انور خان مرحوم و مغفور اردو ادب کے بہت بڑے ا ستاد تھے‘ اس لیے شعر و سخن سے شغف میرے خون میں شامل تھا۔ اسی طرح تحریر و تقریر کے فن سے بھی شناسائی رہی۔ پہلی تقریر آٹھ برس کی عمر میں سال چہارم کے طالبعلم کی حیثیت سے کی‘ جو والد محترم نے لکھ کر دی اور اس کی ادائیگی اور تلفظ کے پیچ و خم سے بھی روشناس کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے آٹھویں جماعت میں بیت بازی کے ایک کانٹے دار مقابلے میں اپنے مڈل سکول کے تمام طلبہ کو شکست دی اور انعام میں تقریباً نوے روپے جیتے۔ یہی شوق مجھے انگریزی ادبیات میں ماسٹرز ڈگری کی طرف لے آیا۔ پھر سی ایس ایس کے امتحان میں عربی ادب اور پنجابی کے اختیاری مضامین کی تیاری میں امرائو القیس سے حضرت سلطان باہوؒ تک کے کلام کی گہرائیوں میں اترنے کا موقع ملا۔ یوں میں خود بھی شعر کہتا رہا اور اپنی لکھی ہوئی تقریریں قومی سطح کے مقابلوں میں پیش کرتا رہا۔ اردو اور انگریزی زبان میں ہونے والے شاعری اور تقریری مقابلوں میں بطور طالبعلم شرکت میرا معمول رہا اور بسا اوقات انعام و اکرام سے بھی نوازا جاتا رہا۔
یہاں میں یہ بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میری ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ میں نعتِ رسول مقبول لکھوں اور اپنا شمار ثناء خوانِ مصطفی میں کراؤں مگر انتہائی کاوش کے باوجود بھی میں شاعرِ نعت نہ بن سکا۔ یوں میری یہ تمنا ثمر آور نہ ہو سکی اور اس ناکام کوشش میں لگ بھگ بیس برس بیت گئے۔ مگر دل میں عشقِ نبیﷺ کی تڑپ بڑھتی رہی اور ایک احساسِ جرم پروان چڑھتا رہا کہ شاید میں ان کی مدحت کے قابل نہیں جو میرا انتخاب نہ ہو پایا مگر میں نے اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے اپنی کوششیں مزید تیز کر دیں۔ بچپن سے میرا اپنی ذات سے یہ وعدہ بھی تھا کہ میں بڑا ہو کر بیرون ملک پہلا سفر شہر مدینہ کا کروں گا۔ اور اس سفر میں میری والدہ محترمہ میرے ساتھ ہوں گی۔ میرے اللہ نے یہ موقع 2006ء میں فراہم کیا۔ اُس وقت میری والدہ گردوں کے عارضہ میں بری طرح جکڑی ہوئی تھیں اور ان کا ٹرانسپلانٹ ناکام ہو چکا تھا اور دوبارہ ڈائلیسز کے تکلیف دہ عمل سے گزر رہی تھیں۔ ڈاکٹروں کی تمام تر مخالفت کے باوجود میں نے سفرِ حجاز کی تیاری کر لی اور اپنی والدہ کے ہمراہ صرف چھ دن کے لیے عمرہ کی سعادت کے لیے حرمین شریفین کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ پہلی منزل شہرِ نبی مدینہ منورہ ٹھہرا۔ اور یوں میں روضہ رسولﷺ پہ جا پہنچا۔جہاز میں بیٹھے ہوئے ایک طرف میں اپنی بے پناہ مسرت کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہا تھا تو دوسری طرف سید الانبیاﷺ کی شانِ اقدس میں کچھ اشعار کہنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ ایک طرف گلشنِ دل میں بہار کا موسم تو دوسری طرف مایوسی کی خزاں کا سایہ۔ میں اسی کشمکش میں گم سم بیٹھا اپنے خیالوں کی دنیا میں اُلجھا تھا کہ اچانک ایسا لگا کہ جیسے مجھے کسی غیبی طاقت نے یہ پیغام دیا ہو کہ میں روضہ رسولﷺ پہ حاضری کے وقت وہاں سے نعتیہ شاعری کی اجازت طلب کروں۔ میرے دل میں بات بیٹھ گئی کہ نعتیہ شاعری کسی فنِ زبان دانی کی دین نہیں بلکہ یہ رسولِ خداﷺ کی رضا ہی سے ممکن ہے۔ اذنِ حضوری نعت لکھنے کے لیے ضروری ہے اور میں اس راز سے بے خبر رہا۔ مدینہ طیبہ پہنچ کر رات تقریباً دو بجے میں اپنی والدہ کے ہمراہ نمازِ تہجد کے لیے روضہ رسولﷺ کی طرف گامزن ہوا اور قدمین شریفین کے قریب دو رکعت نفل نماز کی نیت کر لی اور دورانِ نماز اپنی ناکام کوشش کی تکمیل کے لیے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ مگر ہمیشہ کی طرح بارگاہِ رسالتﷺ سے سائل خالی نہیں لوٹا۔ یوں لگا کہ اسی درخواست کا انتظار تھا اور فوری طور پر سندِ قبولیت عطا کر دی گئی ہے۔ نماز کے آخر تک میرے پاس دو نعتیں موجود تھیں جنہیں میں ترنم کے ساتھ اپنے مصطفیﷺ کو بھی سناتا رہا اور قدمین میں بیٹھ کر اپنے نعتیہ اشعار ان کی بارگاہ میں پیش کرتا رہا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ان اشعار کو پسند فرمایا گیا۔ یوں میں روضہ مبارک پر آپﷺ کے قدمین میں بیٹھ کر نعتیں لکھتا رہا اور ترنم کے سا تھ آپﷺ کے حضور پیش کرتا رہا۔ دو دنوں میں آٹھ نعتیں عطا ہوئیں۔ تیسرے دن عمرہ کی نیت سے احرام باندھا اور والدہ کے ہمراہ گنبدِ خضرا کے سائے میں کھڑے ہوکر مکہ مکرمہ روانگی کی اجازت طلب کی۔ وہاں کھڑے ہو کر مجھے بس یہی محسوس ہوا کہ اجازت کے ساتھ دوبارہ آنے کی تلقین بھی کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک میں شہرِ مصطفی میں کئی بار حاضری دے چکا ہوں اور میرا معمول ہمیشہ قدمین میں بیٹھ کر نعتیں لکھنا اور پھر بہ ترنم انہیں بارگاہ رسالت میں پیش کرنا ہوتا ہے۔ رضائے مصطفی سے سرشار میں عطا کے اس چشمے سے فیضیاب ہوتا رہتا ہوں اور ایک وارفتگی کے عالم میں عشق و مستی کی کیفیت سے دوچار اپنے جذبات کو الفاظ کے قالب میں ڈھالتا رہتا ہوں۔ نتیجتاً نعت کے اشعار ایک خاص قرینے میں جڑتے جاتے ہیں اور یوں میرے گلشنِ حیات میں دعا، رِضا اور عطا کے پھول کھلتے رہتے ہیں۔
''خاکِ بطحا‘‘ کے نعتیہ اشعار بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں پیش کیے گئے وہ گلہائے عقیدت ہیں جو میری والدہ کی دعا کا ثمر بھی ہیں اور میرے لیے عطائے مصطفی بھی ہیں۔ یہ اشعار ایک طرف شانِ مصطفی میں ایک نذرانۂ عقیدت ہے تو اس کے ساتھ ان اشعار میں ''ریاض الجنۃ‘‘ کی مہک بھی شامل ہے جسے میرے نبیﷺ نے جنت کا ایک ٹکڑا قرار دے رکھا ہے۔ یوں یہ نعتیہ مجموعہ میرے لیے کئی حوالوں سے محترم ہے۔ ایک حوالہ میری والدہ کا ہے جن کی آغوشِ محبت میں ملنے والی مثالی تربیت اور بے پناہ دعائوں کے نتیجے میں میرے قلب و روح میں عشق نبیؐ کے چراغ روشن ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ عقیدتِ مجتبیٰﷺ کی سرزمین سے اگنے والے یہ اشعار ان شاء اللہ جنت کے پھول بن کر میرے والد مرحوم کی قبر معطر کرنے کا سبب بھی بنتے ہوں گے۔ ذاتی سطح پر میری یہ حسرت ہے کہ روزِ محشر یہ نعتیہ اشعار میری بخشش کا بہانہ بن جائیں اور مجھے قبر کے حساب و عذاب سے بچا کر جنت الفردوس کی تا ابد حیات سے سرفراز کر دیں۔ یوں ''خاکِ بطحا ‘‘ کئی حوالوں سے میرے لیے دعا، رضا اور عطا کے پھولوں سے سجا ایک گلدستہ ہے جس کے رنگوں میں میری دُنیاوی زندگی کا نکھار بھی شامل ہے اور اخروی حیات میں اُمیدِ بہار بھی۔ اس طرح آپ سب بھی دُعا، رضا اور عطا کے اس روحانی سفر میں میرے ہمرکاب ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عشقِ مصطفیﷺکی دولت سے سرفراز کرے اور ہمارے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔ آمین!
قارئینِ کرام! گزشتہ برس میرے پہلی تصنیف ''دیہاتی بابو‘‘ کو آپ نے بے پناہ پذیرائی بخشی جس کی بدولت علمی و ادبی حلقوں میں بھی اسے سندِ قبولیت عطا ہوئی۔ وہ کتاب میری عملی زندگی کے تجربات، مشاہدات اور معلومات پر مبنی ہے جبکہ اس کے برعکس یہ کتاب کلی طور پر روحانی تجربات کا احاطہ کرتی ہے مگر مجھے پورا یقین ہے کہ ان نعتیہ اشعار میں موجود شہرِ نبی کے گدائوں کی صدائوں اور دعائوں کے نتیجے میں یہ قلب و روح میں عشقِ نبیﷺ کے چراغ روشن کرنے میں معاون ثابت ہو گی اور آپ مجھے اپنی دعائوں کی دولت سے نوازیں گے۔ آخر میں خاکِ بطحا سے چند اشعار:
جب سے رہبر‘ وہ ہادی ہمارے ہوئے
ہم غریبوں کے وارے نیارے ہوئے
غم کے ماروں کو غم آشنا مل گیا
بے کسوں کو میسر سہارے ہوئے
خاکِ بطحا کی اس دم زیارت ہوئی
جب وہاں سے اچانک اشارے ہوئے