آخر کار عمران خان کے اس سیاسی ویژن کو عملی صورتوں میں ڈھالنے کی نوبت آن پہنچی، ایک مدت سے میڈیا میں جس کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ ہر چند کہ لوگ ان کے دعووں اور افکار سے پوری طرح واقف تھے، پھر بھی قوم سے پہلے خطاب میں انہوں نے اپنی سیاسی ترجیحات اور مستقبل کے پروگرام کی اجمالی سی تصویر پیش کرنا ضروری سمجھا، جس کی توضیح کیلئے انہیں مزید کئی سال درکا ہوں گے۔ معاشی بحران میں گھری مملکت اور سیاسی طور پہ منقسم قوم کے سامنے کرپشن کے خاتمے، ٹیکس نظام میں اصلاحات، کفایت شعاری اور پولیس و سول بیوروکریسی کے سسٹم کی تشکیل نو جیسے لانگ ٹرم اہداف بیان کرنا اگرچہ کوئی خاص معنی نہیں رکھتا لیکن یہ طرز عمل حکمرانوں کے استعدادِ ذہنی کا پتہ ضرور دیتا ہے؛ البتہ مملکت کو پانی کے بحران سے نکالنے جیسے مسائل کا حل تلاش کرنے کا عزم درست سمت میں پیش قدمی کا اشارہ تھا۔آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل کے ذریعے پڑوسی ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی استواری کا دعویٰ محض علامتی تھا۔ پہلے انہیں خارجہ و دفاعی پالیسی پہ کنٹرول حاصل کرنے کیلئے طاقت کے مراکز کو مینیج کرنے کی مہارت حاصل کرنا پڑے گی۔ وزیر اعظم اپنے خطاب میں یورپی طرز کی جس فلاحی ریاست کے قیام کی خواہش کا اظہارکرتے رہے اس کا تصور ابھی ہماری روایتی سوچ سے بعید تر ہے۔
فلاحی ریاست کے قیام کی ابتداء معاشی مساوات اور جمہوری آزادیوں کے حصول سے ہوتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود ان کی تقریر فلاحی ریاست کے قیام کی بنیاد بننے والے آزاد میڈیا کے تحفظ اور پارلیمانی نظام کو متوازن رکھنے والی اپوزیشن کے تذکرے سے خالی تھی۔ بظاہر یہ خطاب غیر محدود طاقت کے حامل آمروں کی اس روایتی سوچ سے مماثل تھا جن کے سامنے اپوزیشن کا وجود ہوتا ہے نہ آئینی نظام کی حدود و قیود کی دیواریں اور جو اختلاف رائے کے فروغ کو اپنے مقاصد کی راہ میں حائل تصور کرتے ہیں۔ ٹالسٹائی نے کہا تھا: رہبرانہ قوت کا احساس انسان کو ذمہ داری اور اپنی شخصیت سے آگاہی دیتا ہے اور انسانی فکر کو زندگی سے مربوط کرتا ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ عمران محض وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ قوم کو مسائل کے دلدل سے نکالنے والے رہبر بن کے ابھریں گے۔ وہ تمام پریشر گروپوں کے سیاسی و سماجی مفادات کو رد کر کے معاشرے کو سوچنے اور کہنے کی آزادی دلائیں گے۔ عمران خان موروثی سیاست کی مضبوط سلطنتوں کو توڑ کے جس قائدانہ شکوہ کے ساتھ الیکشن جیت کے برسر اقتدار آئے ہیں، ان سے بجا طور پہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ پرانے دعووں کو دہرانے کی بجائے نئے امکانات سے فائدہ اٹھانے پہ دھیان دیں گے۔ پچھلے بائیس سالوں میں وہ بہت بول چکے، اب وہ ان بے زبان شہریوں کی آواز سنیں جنہیں بد امنی، افلاس اور مذہبی تعصبات کی شدّت نے دبوچ رکھا ہے۔ لیکن کیا کیجئے کہ امیرانہ اعتمادِ نفس سے مزین ان کا یہ خطاب دراصل پہلی بار وزیر اعظم بننے والے ہر اس رہنما کی خواہش ہوتا ہے، جسے اپنا فرض منصبی موہوم اور وزارت عظمیٰ کی کرسی زیادہ مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی اسی تصور کے اسیر تھے۔ تیس سالوں تک اقتدار کی غلام گردشوں میں وقت گزارنے کے بعد میاں نواز شریف نے جب تیسری بار وزارت عظمیٰ کی عنان سنبھالی تو قوم سے خطاب کی بجائے انہوں نے کچھ کرنے کی ٹھان لی؛ تاہم وسیع تجربے اور طاقت کے باوجود وہ اپنے سیاسی پروگرام، مقاصد اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی اختیارات ایسی دو دھاری تلوار ہیں جو دونوں طرف کاٹتی ہے، ریاستی اختیار کا حامل اس کے درست استعمال کا آرٹ اگر نہیں جانتا تو اپنی ہی طاقت سے خود کٹ جاتا ہے۔ نئی حکومت کیلئے سب سے اہم مسئلہ ملکی اقتصادیات کی تشکیل نو کے ذریعے معاشی خود مختاری کا حصول اور سیاسی طور پہ بکھری ہوئی قوم کو وسیع تر اتفاق رائے کیلئے قومی سلامتی کے مرکزی نقطہ پہ مجتمع کرنا ہو گا۔ انہیں یہ بھی معلوم ہو گا کہ عملی سیاست میں جذباتی نصب العین کام نہیں آتے، یہاں ہر رومانوی تخیل، عمرانی تصادم اور زندہ تغیرات کی حرارت میں جل کے ہوا ہو جاتا ہے؛ تاہم لیڈرشپ کا فرض ہے کہ وہ معاشرتی و اخلاقی کشمکش کے متعلق اپنے خیالات کو واضح کرنے کے علاوہ سیاسی تحریکات کی بدولت ہمارے ذہنی رویوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ بلا شبہ ہر قوم کی قوت کا راز قومی وحدت میں مضمر ہوتا ہے۔ اگر فورسز سمیت تمام اداروں کی غیر مشروط اطاعت اور لا محدود اختیارات کے ذریعے ملک چلتے تو دنیا کا کوئی آمر ناکام نہ ہوتا، ریاست کی پوری قوتِ قہرہ کو بروئے کار لانے کے باوجود کوئی بھی فوجی آمر مملکت کو خود مختار نہیں بنا سکا؛ چنانچہ آگے بڑھنے سے پہلے نومنتخب وزیر اعظم وسیع تر قومی اتفاق رائے حاصل کرنے کی خاطر معاشرے کے مختلف طبقات کی نمائندگی کرنے والی اپوزیش سے بات چیت کریں‘ اور اس انحطاط پذیر معاشرے کو ریگولیٹ کرنے کی خاطر کوئی نقطۂ اتحاد تلاش کریں۔ ہماری سیاسی روایات کے عین مطابق اس وقت اپوزیشن رہنمائوں کو مالی بد عنوانی کے کئی مقدمات کا سامنا ہے۔ ان میں سے اہم ترین رہنما قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں، جس سے تلخی بڑھتی جائے گی، آئے دن اظہار رائے کی محدود ہوتی آزادیوں پہ اہل دانش پریشان ہیں، قومی دھارے کے میڈیا پہ نادیدہ دبائو سے صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد مایوسی کا شکار ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پہ نمایاں ہونے والے رجحانات سے پتہ چلتا ہے کہ نوجوان نسل کی بڑھتی ہوئی مایوسی سماج کی فکری وحدت اور معاشرتی اقدار کو تہ و بالا کر کے ہمیں باہم جوڑے رکھنے والی قدروں کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے۔ بہتر ہوتا کہ نئے وزیر اعظم نظامِ عدل کی اصلاح کے لئے طویل المدت منصوبے پیش کرنے کی بجائے سیاسی حریفوں کو شفاف ٹرائل کا حق دلانے کی کوشش کرتے۔
حکومتی اخرجات کو کم کرنے اور ماس ٹرانزیشن کے تمام میگا پراجیکٹ کی تحقیقات کرانے کا فیصلہ اچھی بات سہی‘ لیکن وہ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیق کیلئے پارلیمانی کمیشن بنانے کے مطالبہ کو بھی پذیرائی دیتے تو سیاسی ماحول میں تلخی کم ہو جاتی۔ اپنی پہلی غیر رسمی تقریر میں انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کی پیشکش کرنے کے باوجود ابھی تک انہوں نے حالیہ الیکشن میں مبینہ دھاندلیوں کے الزامات کی انکوائری کرانے کے لئے کوئی قابل قبول میکانزم پیش نہیں کیا۔ اس سے تو یہی لگتاہے کہ ستّر سال تک سیاست کے دشتِ بے اماں کی آبلہ پائی کے باوجود یہ قوم سن انیس سو ساٹھ کی دہائی سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ بد قسمتی سے ستّر سال بعد بھی ہم انتخابی نظام کی بے ثباتی کا رونا رونے کے علاوہ حکومتوں کی تشکیل میں سیاستدانوں کی وفاداریاں تبدیل کرانے جیسی قباحتوں سے نجات پانے کی کوشش میں سرگردان نظر آتے ہیں۔ سیاسی اخلاقیات کو اہمیت دینے کی بجائے طاقت کو ہی خیر بر ترین سمجھنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، ہمیں طاقت کی بجائے صداقت کی جنت میں رہنے کی ضرورت ہو گی، طاقت تقسیم کرتی ہے لیکن صداقت دھڑے بندی نہیں کرتی۔ لا ریب، سیاست محوری عمل ہے اس میں زورِ بازو سے حصول مقصد سے زیادہ ترک آرزو میں عزت و کامرانی ملتی ہے۔ شاید اسی لئے رومی دانشور کہتے تھے کہ سمجھوتے اور مفاہمت کو فتح پہ ترجیح دینی چاہیے‘ لیکن عمرانی طرز حکمرانی کے تیور بتاتے ہیں کہ وہ میڈیا اور پاور پالیٹکس کے علاوہ پورے معاشرے کی اجتماعی سوچ کو مبنی بر ریاست (State Oriented) بنانے کی کوشش کریں گے۔