خیبر پختون خوا حکومت نے کابینہ کے پہلے اجلاس میں احتساب کمیشن کی بساط لپیٹ کے تمام مقدمات اس اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیئے جس کے ملازمین پولیس کے اہلکار اور جس کا دائرہ اختیار انتہائی محدود ہے۔ احتساب اگرچہ پی ٹی آئی کا مقبول سیاسی نعرہ تھا لیکن عملی سیاست میں ان نعروں کے معنی و مفاہیم بدل جاتے ہیں۔ جس طرح سیاست اور تجارت میں نصب العین چھپی ہوئی آرزوئوں کا معقول لباس ہوتا ہے اسی طرح سیاستدانوں کے منشور بھی اقتدار تک پہنچنے کا زینہ بنتے ہیں۔ بلا شبہ ہر جماعت کو سیاست کے افسانے میں رنگ بھرنے کی خاطر خوبصورت منشور پیش کرنا پڑتے ہیں۔ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل مذہبی جماعتوں کے اتحاد مجلس عمل نے بھی اسلامی نظام قائم کرنے کے نعروں کے خروش سے اسی صوبے کا اقتدار حاصل کیا‘ لیکن وہ اپنی آرزوئوں کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہے۔ چالیس سال قبل پیپلز پارٹی نے بھی اقتدار تک پہنچنے کی خاطر امیدوں کے بھوکے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ دے کر غیر معمولی مقبولیت حاصل کی لیکن حصول حکومت کے بعد مسٹر بھٹو اپنے وعدوں کی تکمیل کی طرف مائل نہ ہوئے۔ ان کے خوش گمان جانشین آج بھی انہی فرسودہ نعروں کو نئے انداز میں دہرانے کی کوشش کرتے ہیں‘ جو اب اپنی کشش کھو چکے ہیں؛ تاہم ذوالفقار علی بھٹو اس حقیقت سے واقف تھے کہ کروڑوں لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ فریبِ سیاست کے سوا کچھ نہیں، علی ہٰذالقیاس پیپلز پارٹی کے انتخابی نعروں کی طرح پی ٹی آئی کے احتساب کی پکار بھی اگرچہ فریبِ سیاست کے سوا کچھ نہیں ہو گی لیکن عوام کی اکثریت اب بھی یقین رکھتی ہے کہ وہ قومی دولت لوٹنے والوں کا احتساب کر لیں گے۔ اسی لئے پی ٹی آئی کی پہلی صوبائی حکومت نے عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی مناسب قوانین اور پورے اختیارات کا حامل احتساب کمیشن بنا کے بد عنوان اہلکاروںکو کیفر کردار تک پہنچانے کی ٹھان لی لیکن جب احتساب کمیشن کے اہلکاروں نے ہر سرکاری ادارے کی جانچ پڑتال شروع کر کے سول بیوروکریسی کو خوفزدہ کیا، احتساب کے ڈر سے اہلکاروں نے کام کرنا چھوڑ دیا‘ تو کارِ سرکار ٹھپ ہو کے رہ گیا۔ حکومتی نظام کو معمول پہ لانے کیلئے بالآخر حکومت کو احتساب کی سرگرانی سے نجات پانے کی خاطر ضروری کارروائی کرنا پڑی۔ خیبر پختون خوا کا احتساب کمیشن پانچ سال تک تنازعات میں گھرا رہا۔ اب نئی کابینہ نے اس کی بساط لپیٹ کے اپنی راہ ہموار کر لی ہے۔ امید ہے وفاقی حکومت بھی نیب کے دائرہ اختیار کو محدود کر کے اجتماعی زندگی کے دھارے کی روانی ہموار بنا لے گی۔
اپوزیشن میں بیٹھے سیاستدانوں کے خلاف نیب کی جارحانہ کارروائیاں اور وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سخت احتساب کی دھمکیاں اپوزیشن جماعتوں کو نیب قوانین میں مناسب ترمیم پہ آمادہ کر سکتی ہیں۔ اگر انہی قوانین و اختیارت سے مزین نیب اسی طرح فعال رہی تو پانچ سال بعد پی ٹی آئی حکومت کے وزرا اور ان کے ساتھ کام کرنے والے اہلکاروں کی باری بھی آ جائے گی۔ بہرحال، صوبائی کابینہ کے اجلاس میں سو دن کے مجوزہ پلان کے نفاذ کے علاوہ بلدیاتی نظام میں چوتھی بار اصلاحات کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی پچھلی حکومت نہایت پُر شکوہ اور درخشندہ دکھائی دیتی تھی، اس کی رفتار عالمی اداروں کے علاوہ میڈیا کو بھی اپنی طرف کھینچ لیتی تھی‘ لیکن اب کی بار دو تہائی اکثریت کے باوجود خیبر پختون خوا گورنمنٹ مرجھائے ہوئے پھول کی طرح اپنی تازگی برقرار نہیں رکھ سکی۔ صوبائی حکومت میں اتنی کشش باقی نہیں رہی کہ وہ میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی؛ چنانچہ ضعیف و لاچار بوڑھے کی مانند حکومت کی مدہم رفتار سیاسی ماحول میں گہرے جمود کا سبب بن گئی۔ تین ماہ گزر جانے کے باوجود حکومت اپنے قویٰ کو مجتمع کر سکی‘ نہ وہ اٹھان بھر سکی جس کی ایک مضبوط حکومت سے توقع کی جا رہی تھی۔ اِس کی ایک وجہ تو شائد وفاق میں پی ٹی آئی کی اس منتظر حکومت کا قیام تھا‘ جس کی سربراہی خود عمران خان جیسی کرشماتی شخصیت کر رہی ہے۔ شاید ان کے بلند آہنگ دعوووں اور انتخابی وعدوں کو پرکھنے کی گھڑی بھی آن پہنچی ہے۔ پی ٹی آئی کے پرجوش حامیوں کے علاوہ عوام کی بڑی تعداد کسی چمتکار کے انتظار میں ان کی پہلی اننگ کو نہایت خوف و اضطراب سے دیکھ رہی ہے۔ اس لئے میڈیا اور عوام کی نظر میں پنجاب اور خیبر پختون خوا حکومتیں غیر اہم ہو گئی ہیں۔ دوسری وجہ پرویز خٹک جیسے کہنہ مشق، تجربہ کار اور زیرک سیاستدان کو نظر انداز کر کے یہاں غیر معروف چہروں کو متعارف کرانے کی جسارت تھی جس نے سیاسی حرارکی میں یاسیت بڑھا دی۔ اگر لیڈرشپ کے تسلسل کو برقرار رکھا جاتا تو شہباز شریف کی مانند پرویز خٹک بھی خیبر پختون خوا کو بدل سکتے تھے۔
نومبر کے آخری عشرے میں صوبائی حکومت اپنے ابتدائی سو دن پورے کر لے گی‘ جو کسی بھی حکومت کی استعداد کار کو جانچنے اور رجحانات کو سمجھے کے لئے کافی سمجھے جاتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ اب تک خیبر پختون خوا حکومت پوری توانائی کے ساتھ اپنی دوسری اننگ کا آغاز نہیں کر سکی۔ وزیر اعلیٰ محمود خان، حالات کے جبر نے جن کے سر پر اس مجروح صوبہ کی سربراہی کا تاج تھونپ دیا، کابینہ مکمل کر سکے نہ انتہائی اہم سرکاری اداروں کے سربراہان کی تعیناتی ممکن بنائی گئی۔ واقفان حال کہتے ہیں، بنیادی فیصلے کرنے کیلئے وزیر اعلیٰ کو فری ہینڈ نہیں مل سکا، کابینہ میں توسیع کا معاملہ ہو یا سرکاری اداروں کے سربراہان کی تعیناتی کا مسئلہ ہر فیصلے کے لئے وزیر اعلیٰ کو بنی گالہ کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ صوبائی کابینہ کی توسیع کے معاملات طے کرنے کیلئے محمود خان، دو بار بنی گالہ میں عمران خان صاحب سے ملاقات کر چکے ہیں‘ لیکن انہیں آگے بڑھنے کا سگنل نہیں ملا۔ راز ہائے نہاں خانہ سے آگاہ حلقے کہتے ہیں کہ صوبائی کابینہ میں مزید تین وزرا چار مشیر اور پانچ معاونین خصوصی کی شمولیت کا امکان ہے، جن میں ملیحہ اصغر خان، روی کمار اور سوات کی نادیہ شیخ کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک کے نام شامل ہیں‘ لیکن کابینہ میں توسیع کا مسئلہ بھی اختلافات میں الجھا ہوا ہے۔ پارٹی پالیسی کے برعکس وفاقی کابینہ میں بیٹھے پی ٹی آئی کے با اثر لیڈر صوبائی کابینہ میں اپنے بھائی بندوں اور رشتے داروں کو شامل کرانے پہ بضد ہیں‘ جنہیں مینج کرنا عمران خان کے لئے خاصا مشکل ہو رہا ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ جون کے بجٹ کے بعد ہی حکومت اپنی پوری توانائی کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہو سکے گی۔ خوش قسمتی سے صوبائی کابینہ میں کچھ ایسے وزرا کو بھی مناسب جگہ مل گئی جو حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر مسلم لیگ نواز سے وابستہ سابق گورنر اقبال ظفر جھگڑا کے بھتیجے تیمور جھگڑا، جو پی ٹی آئی کے تھنک ٹینک کا حصہ بھی ہیں، کو وزارت خزانہ کا قلم دان دینا اچھا فیصلہ سمجھا گیا۔ تیمور جھگڑا اس سے قبل پنجاب میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے مشیرِ تعلیم بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کے سب معترف ہیں۔ تیمور جھگڑا خزانہ جیسی اہم وزارت کے علاوہ وزیر اعلیٰ محمود خان کے معتمدِ خاص اور ان کے بعد صوبائی کابینہ کے مقتدر وزیر سمجھے جاتے ہیں۔ خیبر پختون خوا کی وزرات اعلیٰ کے توانا امیدوار عاطف خان کو ٹورازم اور کلچر جیسی غیر اہم وزارت ملی اور ان کے رفیق خاص شہرام ترکئی کو بلدیاتی کی منسٹری دی گئی‘ جو ان کیلئے بڑا چیلنج ہو گی۔ ایک تو بلدیاتی نظام میں آئے روز کی تبدیلیوں کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ دوسرے پچھلی حکومت میں بلدیات کی وزارت عنایت اللہ خان جیسے دیانتدار اور پختہ کار سیاسی کارکن کے پاس تھی‘ جس نے بلدیات کی وزارت میں بلند معیارات قائم کئے ہیں‘ جنہیں قائم رکھنا شہرام کے لئے مشکل ہو گا۔